Wednesday, November 24, 2010

NOVEMBER-2010 مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال

شمیم احمدندوی


مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال

اقدار کی پامالی اوراسباب زبوں حالی

ایک زمانہ تھا کہ ملک نیپال میں دینی مدارس توتھے لیکن آپس میں ربط کا فقدان تھا، صحیح عقیدہ وفکرپر کاربند لوگ توتھے لیکن ان کی کوئی پہچان نہ تھی، تعلیمی اداروں کا ایک محدود دائرہ کارتوتھا لیکن ان کے سامنے کوئی صحیح لائحہ عمل نہ تھا، منہج سلف پرقائم علمائے اہل حدیث توتھے لیکن ان کے سامنے اپنی فکری دعوت کو عام کرنے کا کوئی مربوط نظام نہ تھا، لوگوں کے اندرکام کرنے کا جذبہ توتھا لیکن ان کے سامنے کوئی منصوبہ بندی نہ تھی، ہرطرح کی تعلیمی ودعوتی صلاحیتوں سے لیس افراد توتھے لیکن ایک جماعت بننے کا تصور ان میں دوردورتک موجود نہ تھا، غرض کہ ایک انتشار تھا جوملک کے اہل حدیث افراد پرمسلط تھا اورایک افراتفری تھی جس کی بناپر مدارس بھی بہتر نتائج پیداکرنے سے قاصرتھے اورخطرہ پیدا ہوچلاتھا کہ من حیث الجماعۃ اس ملک سے ہمارا وجود مٹ جائے گا، اہل حدیث نوجوان دوسری تنظیموں سے وابستہ ہوکراپنی شناخت اورانفرادیت کو کھوتے جارہے تھے اور آپسی اتحاد واتفاق اورتعاون علی البر والتقوی کی صفات سے محروم ہوکرنظام گلشن بدل ڈالنے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے تھے، یہ تشتت وافتراق اوریہ بدنظمی وانتشار ہمارے وجود کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا تھا، دوسرے افکار ونظریات سے وابستہ افراد ملک میں اپنی شناخت کے لئے نئی نئی تنظیمیں پرکشش ناموں سے قائم کررہے تھے ،بالخصوص نوجوان طبقہ کو ان کی طرف راغب کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے آزمارہے تھے اور ان کی اجتماعی کوششیں قابل ذکر نتائج بھی پیدا کررہی تھی، جب کہ ملک کے اہل حدیثوں میں اجتماعیت کا فقدان تھا اوروہ زمانہ شناسی کی صفات سے محروم اورعالمانہ بے خبری کا شکار اوراپنی سطحی وانفرادی کوششوں میں مست و مگن تھے، وہ ’’خورشید مبین‘‘ بننے کی صلاحیت تورکھتے تھے لیکن بکھرے ہوئے ذرات کی شکل میں ان کی افادیت ختم ہوچکی تھی، ان کی ضرورت تھی کہ کوئی اولوالعزم اورزمانہ شناس شخص اسی خاک سے اٹھے اور تسبیح کے ان بکھرے ہوئے دانوں کو ایک لڑی میں پروئے، اوراپنی پرجوش ومخلصانہ قیادت کے ذریعہ ان علماء جماعت، فارغین مدارس اور ذمہ داران مدارس کوصحیح سمت عطا کرے جواپنی بعض انفرادی کامیابیوں اورچھوٹی چھوٹی حصولیابیوں پرقانع ہوچکے تھے، لیکن پوری جماعت کو ساتھ لے کرآگے بڑھنے کاجذبہ اورپوری جماعت کو تعلیمی ودعوتی میدان میں ترقی کرتے ہوئے دیکھنے کی خواہش ان میں دم توڑچکی تھی۔
ایسے میں خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اللہ کی شخصیت مایوس و دل شکستہ اہل حدیثان نیپال کے لئے مرکز امید تھی، اورنامساعد حالات کی کڑی دھوپ میں ان کی حیثیت شجرسایۂ دارکی تھی ،جوعلم وعمل کے ضروری اسلحوں سے لیس بھی تھے اورملک کے ہرحلقہ کو ان کی مخلصانہ جہود ومساعی اورتعلیمی ودعوتی خدمات کا اعتراف بھی تھااور جن کی شخصیت پرملک کے مشرق ومغرب اورمیدانی و پہاڑی سبھی خطوں کے لوگوں کا اعتماد تھا، اوراسی وجہ سے وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے اورجن کا اخلاص بے داغ اوربے نفسی ہر شک وشبہ سے بالاتر تھی، اس جماعت کی قیادت کا حق بھی انھیں کا تھا اورفرض بھی، یہ عظیم ذمہ داری بھی انھیں کی تھی اورمنصب بھی، کہ وہ رابطہ عام اسلامی کی مجلس تاسیسی کے ممبرہونے کی حیثیت سے پورے ملک کے مسلمانوں کی نمائندگی کررہے تھے اورملک کے مسلمانوں کی دینی وتعلیمی حالت سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے حتی المقدور کوشاں تھے ۔
رابطہ عالم اسلامی میں مسلمانان نیپال کی نمائندگی کی بناپرانھیں بسااوقات مدارس دینیہ اور شخصیات اسلامیہ کے بارے میں استفسار کئے جانے پر اپنی رپورٹ اور رائے بھی بھیجنی پڑتی تھی، ملک کے طول وعرض اورمشرق ومغرب میں پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس ومکاتب کے بارے میں معلومات بہم پہونچانا، ان کے بارے میں درست حقائق کا مہیاکرنا اوران کی تازہ ترین صورت حال اورسرگرمیوں سے باخبر رہنا ایک مشکل کام تھاجسے محض ذاتی طورپر اورانفرادی سطح پرانجام دیناممکن نہ تھا، اورپھراس میں غلطیوں کے امکان کو نظراندازنہیں کیا جاسکتاتھا، ان کے بعض مخلص احباب اورجمعیت وجماعت کا تجربہ رکھنے والے لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ اگر اس ملک میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی تاسیس کرکے ملک کے اضلاع میں اس کی شاخیں قائم کردیں توکاموں میں بہت سہولیت بھی ہوجائے گی اورجماعت کے لوگوں کوباہم مربوط کرنے میں بھی مددملے گی، اوربعض لوگوں نے اس پراظہارتعجب بھی کیا کہ آپ لوگ جمعیت واجتماعیت کے بغیر ابھی تک زندہ کیسے ہیں، بہرحال ہرکام کے لئے ایک وقت متعین ہوتا ہے، انھوں نے اللہ کی مددکے بھروسہ پر اوراپنے بعض معاونین کے تعاون واشتراک سے اس ظلمت کدۂ نیپال میں ’’مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال‘‘ کی بنیادڈال دی، اس وقت وسائل کے نام پر صرف ان کا عزم وحوصلہ تھا، ایک نومولود تنظیم کو ملک گیرپیمانہ پر متعارف کرانے کے لئے درکارضروری سازوسامان کی جگہ پر محض ان کے آہنی ارادے تھے اورجمعیت کے لئے مرکزی صدر دفترکی جگہ پرصرف ان کی سعی پیہم اورجہدواخلاص تھا، انھوں نے بے سرو سامانی کے عالم میں جمعیت کی داغ بیل ڈال کر یہ ثابت کردیا کہ اللہ کے مخلص بندے مادی وسائل سے زیادہ اس کی مدد ونصرت اوراپنے عزم وہمت پربھروسہ کرتے ہیں اور ان ٹمٹماتے چراغوں میں اپنے اخلاص کا تیل ڈال کر انھیں روشن رکھتے ہیں، مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کا قیام جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر کی عظیم الشان جامع مسجد میں عمل میں آیا ،اس وقت اس کے پاس آفس کے نام پر کھلے آسمان کی چھت تھی، لیکن اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے خطیب الاسلام رحمہ اللہ کی بیدارمغز قیادت اوردینی بصیرت سے پررہنمائی میسرتھی جواس بڑھاپے میں بھی عزم جواں کے مالک تھے اوراپنی بے لوث خدمات کے ذریعہ محض اپنے دم پراسے ملک گیرپہچان دے سکتے تھے، اورآگے چل کرہوا بھی یہی کہ ملک کا ہروہ فرد جومسلک اہل حدیث پرکاربندہے ،اتباع سنت کاجذبہ رکھتا ہے اورسلفیت کے فروغ کے لئے کوشاں ہے، اس تنظیم سے جذباتی طورپروابستہ ہوگیا، کیونکہ ان کی ایک شجرسایہ دارسے وابستگی فصل بہار کی نوید جاں فزاتھی ،جن کی حیثیت ابھی تک صرف شاخوں کی تھی انھیں ایک مضبوط وتناور درخت مل گیا اورانھیں اپنی صلاحیتوں کے اظہارکے لئے بھی بہترمواقع میسرآگئے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال نے جوش وخروش کے ساتھ اپنا دعوتی سفرشروع کیا،اس کوکچھ مخلص کارکن ضرور ملے لیکن ابتداہی سے بعض ایسے لوگ اس میں شامل رہے جن کی نیت واخلاص پرمکمل بھروسہ نہیں کیاجاسکتا تھا ،جوبظاہرتو بڑے چاق وچوبند اورفعال نظرآتے تھے اوراپنی لچھے دارگفتگو سے مخاطب کومتاثرو مرعوب کرنے کا ہنرجانتے تھے لیکن وہ ابتدا سے ہی اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے اورملک میں اپنا تعارف کرانے کے لئے جمعیت کوایک سیڑھی کے طورپر استعمال کرناچاہتے تھے، ان میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کے اندرنہ توعالمانہ شان اوروقار تھا اورنہ ہی کوئی فضل وکمال ،اخلاص و دیانت داری سے تووہ قطعا عاری تھے، صرف اپنی ظاہری سج دھج اورکروفر اوراپنی سرگرمی ونشاط کے اظہار کے ذریعہ جمعیت میں ایک نمایاں مقام بنائے رکھنے کے خواہش مند تھے جس میں بدقسمتی سے وہ ہمیشہ کامیاب بھی رہے، کیونکہ اس ملک کے سادہ لوح اوربالعموم کم تعلیم یافتہ عوام انھیں کو جمعیت وجماعت کابے لوث خادم سمجھتے رہے اورباربار دھوکہ کھاتے رہے ، ان کی اونچی اونچی گفتگو سے بھی، ان کے فلک بوس منصوبوں سے بھی ، ان کے عالیشان پروگراموں سے بھی، ان کی تیزگامی وسرعت رفتارسے بھی اور جمعیت وجماعت کے لئے اپنی دردمندی وفکرمندی کے اظہار سے بھی، غرض کہ دھوکہ دینے کے ہتھیار توان کے پاس بہت تھے لیکن ایسے لوگوں کوسمجھنے کے لئے عوام کی سادہ لوحی وسادہ مزاجی کے سامنے کوئی دفاعی تدبیرنہ تھی اس لئے دھوکہ دینے ودھوکہ کھانے کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہا اورباربار ایسے ہی لوگوں کو جمعیت کی نمائندگی کے مواقع ملتے رہے جوموقع پرستی وابن الوقتی میں اپناجواب نہیں رکھتے تھے، جوجمعیت کو اپنے ذاتی مفادات اورمادی فوائد کے حصول کا آسان ذریعہ سمجھتے تھے اورجواپنے حقیر دنیاوی مفادات کی قربان گاہ پرپوری جمعیت کوذبح کرنے میں بھی شرم نہیں محسوس کرتے تھے، ایسے لوگوں کی نیت شروع سے یہی تھی کہ جمعیت کے ذریعہ سستی شہرت اور نام ونمود حاصل کریں ،پورے ملک میں گھوم گھوم کراپنے جبہ ودستار اورکروفر کی نمائش کریں اورسادہ مزاج عوام کو اپنی طرف مائل اوران سے خراج تحسین حاصل کریں، ایسے لوگوں نے ہمیشہ جمعیت کا استغلال واستحصال کیا اورکمال یہ ہے کہ اس کے سب سے بڑے ہمدردبھی بنے رہے، اوراس کی زبوں حالی پراپنی تکلیف اورگہرے رنج وغم کا اظہاربھی کرتے رہے۔
خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری رحمہ اللہ اس کرب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے کہ وہ اپنی زندگی میں جمعیت کو پھلتا پھولتا نہ دیکھ سکے اور انھوں نے جودرخت اپنی زندگی میں لگایا تھا اوراسے اپنے خون جگر سے سیراب کیا تھا اسے بعض طالع آز ماؤں اورمفادپرستوں کی خود غرضیوں کی بناپر ثمربارہوتے اورخوشگوارنتائج دیتے دیکھنے کی تمنا ان کے دل ہی میں رہی، ان کے ہم رکاب چلنے والے مفاد پرست ٹولہ نے اس بوڑھے ناتواں کے کندھوں پراس کی طاقت واستطاعت سے زیادہ بوجھ لاددیا اورخود تماشائی کاکردار اداکرتا رہا ،اور جب جمعیت کی کشتی گرداب میں پھنسی توکوئی اسے اس طوفان سے نکالنے کے لئے تیار نہ ہوا ،جماعت کے دردمندوں نے وہ روزبھی دیکھا کہ جمعیت کے سابق ناظم اعلیٰ اس کاسارا سامان اورکل اثاثہ ٹرک پر لاد کرمراجعت فرمائے وطن ہوئے، جمعیت کی آفس میں تالا لگ گیااورایک طرح سے جمعیت اپنی آخری ہچکیاں لے کرخاموش ہوگئی، لیکن اسی بوڑھے ناخدا نے جواپنی عمرکے آخری پڑاؤ پرپہونچ کر نقل وحرکت سے بھی معذورہوگیا تھا ایک بارپھر پتوار سنبھالی اورجمعیت کی کشتی کو منجدھار سے نکالنے اوراس کو حیات نوبخشنے کے لئے تیار ہوگیا اورصحت کی خرابی اور پیروں کی معذوری کے باوجود اس کے جذبہ صادق اورولولہ شوق نے ایک بارپھر زبان حال سے یہ کہا ؂
گوہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تودم ہے
رہنے دو ابھی ساغرومینا میرے آگے

لیکن اسی طالع آزماٹولہ نے ایسے مخلص شخص کے جذبات سے پھرمذاق کیا اور اس کو قیادت سے محروم کرنے کے لئے گہری سازش کی، حالانکہ وہ جمعیت کے لئے باعث برکت اورقابل فخرتھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دل آویزشخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے عہدوں کوعزت ملتی ہے ،نیپال کی نومولود اورغیر معروف جمعیت ہرگز ایسی چیز نہ تھی جس سے خطیب الاسلام کی مقبول خاص وعام شخصیت کی دل فریبی وجاذبیت میں کوئی اضافہ ہوتا، رابطہ عالم اسلامی جیسی عظیم تنظیم کی مجلس تاسیسی کی رکنیت کا منصب مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کی امارت سے بدرجہا بلند وبالااور باعث شرف وافتخار تھا، جمعیتیں توروزبنتی بگڑتی ہیں لیکن وہ تاحیات اس عظیم منصب پرفائز تھے، جہاں کسی بھی جماعت سے کوئی بھی شخص نہ توان کو چیلنج کرسکتا تھا نہ ان کی ہمسری کا دعوی کرسکتا تھا، اس کے ذریعہ ان کو عالم اسلام میں جووقار واعتبار ملا مرکزی جمعیت کے امراء ونظماء اس مقام تک پہونچنے کا تصوربھی نہ کرسکتے تھے اوربعدمیں جوامراء جمعیت اس منصب پرسازشوں کے ذریعہ فائز ہوئے ان کو بخوبی اس بات کا ادراک ہوگیا ہوگا کہ اس لولی لنگڑی جمعیت سے ان کی شخصیت کے وقارمیں کتنا اضافہ ہوا، عامۃ الناس میں ان کو کتنی مقبولیت حاصل ہوئی اور خودجمعیت کو ان کی ذات والا صفات سے کس قدرفائدہ ہوا۔
اب مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال سازشوں کی آماجگا ہ،اختلافات ونزاعات کے اظہار کا ایک ذریعہ اورشخصیات کی کردارکشی کا ایک وسیع پلیٹ فارم ہے ،جس جمعیت کوقائم کیاگیا تھا جماعت میں اتحاد واتفاق قائم کرنے اورمنتشر لوگوں کوایک مرکز پرجمع کرنے کے لئے وہ اس کے برعکس تشتت وافتراق کا ایک نمونہ اورخود اپنے آپ میں ایک المیہ بن کررہ گئی، کہنے کواس کا ایک دستور بھی ہے اورمطبوعہ اصول وضوابط بھی، سرکاری دفاتر میں یہ رجسٹرڈ بھی ہے اوراس کا منظورشدہ’’وِدھان بھی‘‘ہے، لیکن شاید ہی کبھی اس کی یادکسی کو آتی ہو اور اس کی ورق گردانی کی ضرورت کسی کومحسوس ہوتی ہو،اس لئے بے اصولی پن کے مظاہرعام ہیں اوردستور کواٹھاکر طاق نسیاں پررکھ دیاگیا ہے، اس کی ضلعی جمعیتوں اورمرکزی جمعیت کے انتخابات کے لئے وہ تمام ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں جودنیاوی مناصب کے لئے ہونے والے انتخابات کے لئے رواسمجھ لئے گئے ہیں، وہی جوڑ توڑکی سیاست ،وہی ووٹوں کی جمع تفریق ،اپنے خامیوں ومخالفین کے اعداد وشمارپر گہری نظر، اپنے مؤیدین وحامیوں کی تعداد میں اضافہ کے لئے ہرسطح پرکوششیں، اپنے مخالفین کا منہ بند کرنے کی تمام ممکنہ تدبیریں اور رائے عامہ ہموارکرنے کے لئے ہرطرح کی چالوں کا استعمال ، اپنے لئے ایک باراورموقع کی تلاش اوراس کے لئے خوشامدیں ،کسی کواس کے مدرسہ کی تعمیروترقی میں مدددینے کا سبزباغ، کسی کومختلف مشاریع کے ہدایا وتحائف حتی کہ کسی کے ایمان اور ضمیر کاسودابھی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں، اوراگریہ سب نہ بھی ہوتوکم ازکم جمعیت کوترقی کی معراج پرپہونچانے کے لئے مختلف اونچے اورپرکشش منصوبوں کاتذکرہ جس سے جمعیت کے لئے مخلصانہ جذبات رکھنے والا بھی متاثر ہوجاتا ہے یایوں کہیں کہ دام تزویر کاشکارہوجاتا ہے اورجمعیت وجماعت کی ترقی کے لئے اپنی ناگواری خاطر کے باوجود ایسے لوگوں کوموقع دینے کے لئے تیارہوجاتا ہے جس سے اسے جمعیت کاکچھ بھی بھلا ہونے کی امید ہوتی ہے، بارباریہی ہوتارہا ہے اوراگرجمعیت کے اندر کوئی انقلابی تبدیلی نہ آئی توآئندہ بھی یہی ہوگا۔
ووٹوں کی جمع و تفریق کا کھیل یہاں ہرسطح پرجاری ہے جس کی ابتدا اضلاع سے ہی ہوجاتی ہے، ضلعی جمعیتیں نام کوقائم توہیں لیکن ان کا استعمال۵؍سال میں صرف ایک بارایک دن کے لئے ہوتا ہے، اوراس کے بے شعورممبران جوعموماً نامزد ہوتے ہیں وہ اس وقت اپنے کو خوش نصیب سمجھتے ہیں جب ۵؍سال میں ایک بارانھیں ضلعی کمیٹی کے انتخاب کی دعوت دی جاتی ہے ،یہ انتخاب بھی ایک ڈھکوسلہ ہوتا ہے جب کہ سب کچھ پہلے سے طے ہوتا ہے، آخرانھیں نامزد بھی تواسی لئے کیا جاتا ہے اوربعضوں پرنوازشات کی بارش کی جاتی ہے کہ وہ ایسی من پسند باڈی چن کرمرکزمیں بھیجیں گے جوان کے آقاؤں کی خواہشات کی تکمیل کرسکے اورانھیں کرسی امارت یانظامت یا ان دونوں کی نیابت کے مناصب پرفائزکرسکے، میں یہ کہنے کی جسارت ہرگز نہیں کرسکتا کہ سبھی ممبران’ان‘ کے زرخرید غلام ہوتے ہیں لیکن جوہوتے ہیں وہ حق نمک اداکرتے ہیں اورجونہیں ہوتے ہیں وہ حق گوئی کی پاداش میں رسوا کرکے کنارے لگادئے جاتے ہیں ، اظہار رائے کی آزادی توکتابی باتیں ہیں، یہاں صرف چند بقلم خود دانشوروں کی رائے اورمرضی کے بغیرپتہ بھی نہیں ہلتا، آخرکس اصول وضابطہ کے تحت ضلع کے ممبران کو فرد واحد کی طرف سے دعوت نامے جاری کئے جاتے ہیں اوران کے لئے وسیع دسترخوان سجاکر اور لذت کام ودہن کا سامان کرکے ان سے ان کی رائے طلب کی جاتی ہے جوکسی نہ کسی درجہ میں ان کے احسان مند ہوتے ہیں اورآزادانہ اپنی رائے کے اظہار سے معذورہوتے ہیں ،حق تویہ ہے کہ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہیں جونہ تو جمعیت کے اغراض ومقاصد سے واقف ہوتے ہیں نہ انھیں اس سے سروکارہوتا ہے کہ اسے کس مقصد کے لئے قائم کیاگیا ہے، حتی کہ یہ روح فرسا حقیقت بھی ہمارے علم میں لائی گئی کہ ایسے ایسے لوگوں کو بعض اضلاع سے جمعیت کی نمائندگی کے لئے منتخب کیاگیا ہے کہ اس کا علم اگرافراد جماعت کو ہوجائے تو وہ اسی دن جمعیت پر اناللہ پڑھ لیں گے بشرطیکہ ان کے اندرذرابھی ملی غیرت اورجماعتی حمیت ہو، چنانچہ ضلع جھاپا سے ایک ایسے شخص کوجمعیت کاممبر بنایاگیا جس کے اندرچار ایسے شرعی وسماجی عیوب تھے جن میں سے صرف ایک کا ہونا اسے جمعیت وجماعت سے خارج کرنے کے لئے کافی ہے،(۱) وہ اس ماؤنواز تحریک کا سرگرم رکن تھا جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں (۲)وہ جواری تھا(۳) شرابی تھا(۴) سب سے سنگین مذاق یہ ہے کہ وہ سڑا ہوا بریلوی تھا، لیکن یہ سارے عیوب ونقائص اس لئے قابل برداشت تھے کہ وہ بعض سربرآوردہ لوگوں کے لئے ایک مضبوط ووٹرکی حثییت رکھتا تھا اوراس شخص کوجمعیت میں لانے کے لئے جمعیت کے ایک تاسیسی رکن اورعالم دین کو صرف اس لئے میدان سے ہٹانا پڑاکہ ان سے انھیں اپنی مخالفت کا اندیشہ تھا۔
بے اصولیوں اوربے ضابطگیوں کے تذکرہ سے بات کافی لمبی ہوجائے گی اورہمدردان جمعیت وجماعت کے لئے دل خراش اورمایوس کن بھی ثابت ہوگی، ورنہ ناچیز کے پاس بعض حقائق کے تفصیلی اعداد وشمار اوربعض ذمہ داران کے غبن وخیانت کی پوری روداد موجود ہے،لیکن ان صفحات میں اس کا تذکرہ میں جماعتی مصالح کے خلاف سمجھ کر اسے قصداً نظرانداز کررہاہوں، پھربھی ؂
کبھی فرصت میں سن لینا بڑی ہے داستاں میری

کہنے کواس مرکزی جمعیت کی ایک مجلس شوریٰ بھی ہے، لیکن اس کے ممبران اپنی اسی عزت افزائی پرقانع ومطمئن ہیں کہ پوری پنج سالہ میقات میں انھیں ایک بارووٹ دینے کے لئے طلب کرلیاجاتا ہے، گویا کہ وہ اپنے کو ایک معمولی ووٹرسمجھنے کے بجائے بادشاہ گر کے غیرمعمولی عہدہ پرفائز سمجھ کرخوش ہولیتے ہیں اوریہ سوچنے کی نہ توزحمت کرتے ہیں اور نہ ضرورت سمجھتے ہیں کہ آخرجمعیت کے کام کاج کو چلانے کے لئے کبھی ان سے رائے کیوں نہیں لی جاتی، اس کی کم ازکم دووجہیں میری سمجھ میں آتی ہیں، ایک تو ان میں سبھی لوگ اصحاب الرائے ہوتے بھی نہیں وہ تومختلف لوگوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے جمعیت میں لائے جاتے ہیں اوردوسرے اس جمعیت میں کچھ عرصہ سے جوڈکٹیٹرشپ کا مزاج بن چکا ہے اس میں کسی کی رائے کا کوئی مطلب ہی نہیں، حالانکہ ہماری جمعیت کا جورجسٹرڈ ودھان (دستور) ہے اس میں اس بات کی صراحت بلکہ تاکید ہے کہ’’سادھا رن سبھا‘‘ یعنی مجلس شوریٰ کی سال میں کم ازکم دومیٹنگیں ہونی چاہئے، ایک بارجب میں نے سختی کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی توجواب ملاکہ ضروری نہیں کہ ہم ساری قانونی ہدایات پرعمل کریں ،جب اس طرح کی کسی باز پرس کی نوبت آئے گی تو ہم کسی نہ کسی طرح بات بنادیں گے اورجواب دے لیں گے، یعنی ہرمسئلہ کی بنیاد دروغ گوئی وبددیانتی پر ہی رکھنے کا جومزاج بن چکا ہے اس کے نمونے ہرطرف دیکھے جاسکتے ہیں، حالانکہ میرے فاضل دوستوں نے اس وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی کہ آخر مجلس شوریٰ کی میٹنگ بلانے میں قباحت ورکاوٹ کیا ہے اورکن راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھنے کا اندیشہ۔
تقریباگذشتہ دس برسوں میں میں نے محسوس کیا کہ جمعیت کے عالی مرتبت ذمہ داران کو اس کے بنیادی اغراض ومقاصد کی تکمیل سے زیادہ پیسہ کے حصول میں دل چسپی ہے، جہاں سے بھی ملے جیسے بھی ملے اورجس کام کے لئے بھی ملے، اس کا میں نے ہر قدم پر نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ ابتداء میں جب تک ان کی نیتیں واضح نہیں ہوئی تھی ان کا آلہ کار بھی بنا، اس حقیقت کے اعتراف میں مجھے کوئی باک نہیں کہ بعض ذمہ داروں میں بڑھتی ہوئی پیسہ کی ہوس ،حرص وطمع اوردنیاطلبی ہی میرے اوران ارباب حل وعقد کے درمیان وجہ اختلاف بھی بنی۔
میں نے یہ بھی محسوس کیاکہ اکثرلوگوں کے پاس ایک نکاتی پروگرام صرف یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح جمعیت کا ایک آفس ہوجائے یعنی اس کے لئے کٹھمنڈو میں زمین خریدی جائے اورکروڑوں کی لاگت سے اس کا عالیشان آفس تعمیرہو، خواب برانہیں لیکن اس کی تعبیر جب روزاول سے ہی بددیانتی، بدنیتی، دھوکہ وفریب، حیلہ ومکر، اورغبن وخیانت کے وسیع پروگراموں کی شکل میں سامنے آنے لگے توکوئی بھی ذی ہوش آدمی اس سے اتفاق نہیں کرسکتا۔
آج بھی ملک کی راجدھانی کٹھمنڈو میں ایک بہترین وکشادہ اورہرطرح سے آراستہ وپیراستہ آفس موجود ہے، ہرطرح کی ضروری سہولیات اورآسائشوں سے لیس بھی ہے،آفس گرچہ کرایہ پرہے لیکن اس کا کرایہ ایک ہی جگہ سے پورے سال کا یکمشت بغیر کسی تگ ودو اورجدوجہد کے آرہا ہے ،یہ سلسلہ برابر ۸؍سالوں سے جاری ہے، اس آفس کے تحت صرف راجدھانی میں کام کرنے کے لئے کم ازکم ۴؍دعاۃ کی خدمات بھی حاصل ہیں جن کی تنخواہوں پرجمعیت کو کچھ نہیں صرف کرنا ہے، لیکن افسوس یہ آفس کٹھمنڈو میں بھی اتناگم نام اورغیرمعروف ہے جتنا ملک کے دیگرخطوں کے باسیوں کے لئے ،صرف جمعیت سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ پتہ پوچھتے پوچھتے کبھی کبھار پہونچ جاتے ہیں ،یاپھربعض لوگوں کے ہم وطن وہ لوگ جنھیں کٹھمنڈو میں کوئی ذاتی کام ہوتا ہے اور انھیں مفت کا جائے قیام درکارہوتا ہے، لیکن ان کا جمعیت کے بعض ذمہ داران کا رشتہ دارہونا شرط ہے ورنہ یہ اضافی سہولت ہرکس وناکس کونہیں حاصل ہوتی ہے، اوردوسری شرط یہ ہے کہ آفس کا مرکزی دروازہ انھیں کھلا مل جائے ،اورایساکبھی کبھار ہی ہوتا ہے، ورنہ بالعموم بڑا ساتالا لٹک رہاہوتا ہے ، میں بہرحال ان خوش نصیبوں میں شامل نہیں رہا ہوں جنھیں ہمیشہ آفس کا دروازہ کھلاملتارہا ہو، بلکہ کم ازکم چار بار میں ایک ہی دوبارایسے مواقع دستیاب ہوئے ہیں ورنہ عموماً بے نیل ونرام واپس لوٹنا پڑاہے، اب یہ سوال توان’’اہل نظر‘‘ سے ہی کیا جانا چاہئے جنھیں جمعیت کا مفاد ہم سے زیادہ عزیز ہے کہ آخرآج تک جمعیت کی اس آفس کے ذریعہ اورجمعیت کو دستیاب ۴؍دعاۃ کے ذریعہ کون ساکام انجام دیاگیا ہے کہ آئندہ ہم اس سے بہترنتیجہ اورکارکردگی کی توقع کرلیں جس کے لئے ایک اورموقع دئے جانے کی دہائی دی جارہی ہے، واضح ہوناچاہئے کہ جمعیت کے دستورمیں ایک شق اغراض ومقاصد کی بھی ہے جو ہرتنظیم کی گویا ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، لیکن ارباب جمعیت نے اسے بالکل ہی نظرانداز کر رکھا ہے بلکہ سب کچھ پس پشت ڈال کر جمعیت کی زمین اورآفس کی تعمیرکے منصوبہ ہی کو اصل مقصد قرار دے لیا ہے ، یہ سوچ اس وقت تعمیری کہی جاسکتی تھی جب جمعیت کی مجلس عاملہ کی میٹنگوں میں اس کے اغراض ومقاصد میں کسی ایک پر عمل کرنے کی بات کبھی کی گئی ہوتی یااس پربحث کرائی گئی ہوتی، لیکن یہاں توہرمیٹنگ آفس کی تعمیرسے شروع ہوکر اسی پرختم ہوجاتی ہے، اورسفرکی تکالیف برداشت کرکے دوردراز سے آئے ہوئے لوگوں کے حصہ میں ’’نشستندوخوردندوبرخاستند‘‘ہی آتا ہے۔
مرکزی جمعیت کے لئے پرشکوہ آفس کی تعمیر کا جومنصوبہ ہرمجلس میں زیربحث آتا ہے اس سے جمعیت وجماعت سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو اختلاف نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے پس پردہ مادی منفعتوں کے حصول کے جومذموم مقاصد ہیں ان سے بہرحال اتفاق نہیں کیاجاسکتا، مصالح اس کی اجازت نہیں دیتے ورنہ اس کو شرح وبسط سے بیان کیاجاسکتا تھا جس سے نیتوں کا فتورواضح ہوتا اوراسے صرف بدگمانی پرمحمول نہیں کیاجاسکتا، مرکزی جمعیت کی موجودہ مجلس عاملہ کے فاضل ممبران کے درمیان بھی سطحی اختلافات موجودہیں لیکن ان میں سے بعض جوکلیدی مناصب پر فائز ہیں وہ سب کچھ نظرانداز کرکے ’’مشترک مفاد باہم‘‘ کی پالیسی پرعمل پیراہیں ،اس لئے ساراکارخانہ انتہائی خوش اسلوبی اورکامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے، اس لئے اس کے منصب بردار اورعالی وقار حضرات اس کے ذریعہ کامیابی وکامرانی کی سیڑھیاں چڑھتے جارہے ہیں لیکن جمعیت کو تحت الثری میں دفن کرتے جارہے ہیں۔
ان خوش بختوں میں ایک حضرت تووہ ہیں جن کی زبان پر ہمیشہ درہم ودینار یعنی زرومال جہاں کاوردجاری رہتا ہے، ان کی مجلس میں گزاری ہوئی چند ساعات آپ پریہ حقیقت منکشف کردیں گی کہ کہاں سے کتنا روپیہ جمعیت کوملنے جارہا ہے یامل چکا ہے یاکہاں سے کتنی رقم کس مشروع کے لئے دستیاب ہورہی ہے،ان پیسوں کا استعمال کہاں ہوا یاہونے والا ہے،اس کا حقیقی علم توصرف علام الغیوب کی ذات کوہی ہے لیکن مجلس شوریٰ بلکہ مجلس عاملہ کے ممبران کوبھی یہ جاننے کا حق نہیں ہے، رہ گئے ملک کے عام اہل حدیث خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم دین ہوں ،یا ان کی دعوتی وتعلیمی خدمات کتنی ہی نمایاں ہوں انھیں جمعیت کے کاموں میں مداخلت یعنی کچھ جاننے کی خواہش کابھی حق نہیں ہے، کیونکہ ؂

رموز مملکت خویش خسرواں دانند

اب جن لوگوں کا تعلق اس مملکت اوراس کے بے تاج بادشاہوں سے نہیں ہے انھیں کیوں کریہ حق دیاجاسکتا ہے کہ وہ جمعیت کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کا اظہارکریں، گویاکہ وہ خارج عن الجماعت یعنی خوارج ہیں، کیونکہ اہل حدیثیت یاسلفیت کا سارٹیفکٹ بانٹنے کا حق جوانھیں حاصل ہوگیا اور اب اس کے بانی ومؤسس کے جانشینوں کوبھی یہ حق نہیں رہا کہ جمعیت کے بارے میں کچھ اظہارخیال کریں، ورنہ جا معہ سراج العلوم کی جس عالیشان جامع مسجد کے صحن میں اللہ کے ایک مخلص بندہ کے ہاتھوں اس کی بنیاد پڑی تھی، اسی جامعہ کی نمائندگی سے جمعیت کے محروم ہونے کے بعد اس المیہ پراظہار مسرت نہ کیاجاتا بلکہ یہ احساس کیاجاتا کہ یہ تومقام ماتم ہے، اورسوال صرف جامعہ کا نہیں ہے بلکہ پورے جھنڈانگر کاہے جہاں کی سرزمین اس کی تاسیس اور وجود کی گواہ ہے، اسے سازشوں وریشہ دوانیوں کے ذریعہ جمعیت میں کوئی فعال کرداراداکرنے سے محروم کردینا ان کی نہیں جمعیت کی حرماں نصیبی ہے ، ورنہ صرف جھنڈانگر میں ہی نہیں ملک کے دیگرخطوں میں بھی مخلص علماء اورقیادت کے بارگراں کواٹھانے اور اس کا حق اداکرنے والی شخصیات کاقحط الحمدللہ ابھی نہیں پڑا ،یہاں نہ تواعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کمی ہے نہ ماہرین تعلیم کی ،تعلیمی میدانوں میں بہترخدمات انجام دینے والی شخصیات کی کمی ہے نہ بالغ نظر ذی شعور افراد کی، اور ذی علم ہی نہیں بلکہ اخلاص ودردمندی کی صفات سے متصف لوگ بھی گرچہ کم ہیں لیکن ناپیدنہیں، لیکن افسوس کہ جمعیت ان سب کا اعتماد حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہ ہوسکی ہے، یہ ان علماء ومقتدر شخصیات کے لئے کسی سعادت سے محرومی کامقام نہیں بلکہ جمعیت کے لئے ایک بہت بڑا نقص ہے کہ ملک کے ذی ہوش وبابصیرت علمائے دین اس کے قریب آنے سے گھبراتے ہیں، لیکن اگراسباب وعوامل پرگہرائی سے غورکیا جائے تویہ حقیقت آشکارا ہوگی کہ جمعیت کی موجودہ باڈی میں جوحضرات ہیں ان کے بعض عمل وکردار کو دیکھتے ہوئے ان کی نیتوں پربھروسہ کرنے کے لئے کوئی بآسانی تیارنہیں ہے، یہی اس کا مرض ہے جس کا درماں ہم سب کو مل کرتلاش کرناہوگا، کیونکہ جمعیت پرسب کاحق ہے اورسب اسے پھلتے پھولتے پروان چڑھتے اورتعمیر وترقی کی راہ پرگامزن ہوتے دیکھناچاہتے ہیں ،اب پھر انتخابات کابگل بج چکاہے اورجوڑتوڑ کی سیاست کا آغاز بھی، قارئین تک یہ شمارہ پہونچنے تک اس سے فراغت بھی ہوچکی ہوگی ہم صرف اس کی ترقی وکامرانی اوراغراص ومقاصد کی تکمیل میں کامیابی کے لئے دعاہی کرسکتے ہیں ( لعل اللہ یحدث بعدذالک أمرا)

***


4 comments:

  1. Zabardast tahreer, jazakallah, Maulana Shamim Nadvi(May Allah Bless him)ne jamiat ke jo haqayiq ujagar ki hain, hum sab ki aankhen khol dene ke liye kaafi hain.

    ReplyDelete
  2. اگر بیرونی تنظیموں کومرکزی جمعيت اہلحدیث نیپال کے استحکام اور اس کے فعال کردار سے دلچسپی ہے ، تو بزرگ علماء کی سرپرستی میں نوجوان قیادت کے کاندھوں پہ یہ ذمہ داری سپرد کرنے میں تعاون کرنا چاہئے،

    ReplyDelete
  3. لا نستطيع إلا أن نقول: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم احفظ السنة وأهلها في كل مكان وفي بلدنا خاصة، واجمع كلمتهم على الحق والهدى يا رب العالمين

    ReplyDelete