Wednesday, November 24, 2010

OCTOBER-2010کشمکش موت وحیات کے درمیان چند ناقابل فراموش ایام

شمیم احمدندویؔ


کشمکش موت وحیات کے درمیان

چند ناقابل فراموش ایام

اس کائنات میں ربِّ ذوالجلال کی جانب سے عطاکردہ نعمتوں میں سے صحت وتندرستی ایک عظیم نعمت ہے، لیکن انسان اس قدرناشکرا واقع ہواہے کہ جب تک اس نعمت سے متمتع ہوتارہتا ہے اس وقت تک اس کی قدروقیمت کا اسے احساس تک نہیں ہوتا ہے ،وہ اپنی صحت وجوانی پراتراتا رہتا ہے اور کفران نعمت سے بازنہیں آتا، اس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے اللہ نے اسے ظالم وناشکرے کے طورپر یاد کیاہے اوراس کی اس فطرت کوقرآن نے بایں الفاظ اجاگر کیاہے (....اِنَّ الإنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ)(ابراہیم:۳۴)(بیشک انسان انتہائی ظالم وبڑا ہی ناشکراہے) اس نعمت عظمیٰ کا احساس اسے اس وقت ہوتا ہے جب یہ عارضی ووقتی طورپریا مستقلاً اس سے چھن جاتی ہے اوروہ صحت جیسی قابل قدر نعمت سے محروم ہوکر معاشرہ واہل خانہ پربوجھ بن جاتا ہے، کیونکہ صحت وتندرستی کے بغیر آدمی نہ تواپنے دنیاوی معمولات اورروزمرہ کے اعمال انجام دے سکتا ہے اورنہ ہی اس دنیا سے اپنے رزق حلال کا متعین حصہ حاصل کرسکتا ہے اوراپنے بچوں کی بہترپرورش ونگہداشت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے ،اسی طرح وہ اس قابل نہیں رہتا کہ عبادت وریاضت کاحق اداکرسکے جب کہ وہ حج وعمرہ جیسی دیگرکئی فرائض وسعادتوں کے حصول سے محرم رہ جاتا ہے۔
انسان اس دنیا میں آیا ہے تومختلف طرح کے امراض وعوارض کا وقتاً فوقتاً وہ شکار ہوتا رہتا ہے اوریہ سب اس کی خوردونوش کی بے اعتدالیوں اورحفظان صحت کے اصولوں کو نظرانداز کرنے کی بناپر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جہاں قرآن کریم کی ایک آیت میں زندگی وموت اور صحت وشفایابی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے وہیں بیماری کی نسبت خوداپنی ذات کی طرف کی ہے(وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنَ، وَاِذَامَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ)(الشعراء:۷۹،۸۰)
راقم الحروف ایک طویل عرصہ سے ہائی بلڈپریشر جیسے موذی مرض کا شکارتھا جسے اطباء کی اصطلاح میں’’خاموش قاتل‘‘ کہاجاتا ہے اور جس کے نتیجہ میں کئی خطرناک بیماریاں پیداہوجاتی ہیں، جن میں آنکھوں کی بینائی کا متاثرہونا، فالج کا حملہ ہونا، اوربسااوقات برین ہیمریج جیسے جان لیواحملوں کاہوناشامل ہے جس میں مریض کا کومامیں چلے جانا یافوری موت واقع ہوناعام بات ہے، لیکن بلڈپریشرکے ساتھ ساتھ عارضۂ قلب کا لاحق ہوناسب سے زیادہ عام ہے جوتقریباً لازم ملزوم ہے، اورطویل عرصہ تک بلڈپریشرکی شکایت کا حتمی نتیجہ دل کی مختلف بیماریوں کی شکل میں ظاہرہوتا ہے جب کہ بلڈپریشرکا کوئی مستقل حل نہیں ہے ،دواؤں کے برابراستعمال اورپرہیزی غذاؤں سے اسے کنٹرول توکیاجاتا ہے لیکن ختم نہیں کیاجاسکتا، اس کی دوائیں تا حیات استعمال کرناپڑتی ہیں، چنانچہ بلڈپریشرکی شکایت کے کچھ عرصہ بعد دل کی تکالیف کاآغاز ہوا، کئی بار انجائنا کاحملہ ہوا، تیز چلنے پر سانس پھولنے کی شکایت دن میں کئی بارہوتی تھی، بسااوقات سینہ میں شدید درد کااحساس ہوتا تھا، زیادہ دیرتک بولنے یاتقریرکرنے سے تکلیف میں اضافہ ہوتاتھا، غرض کہ ساری علامات عارضۂ قلب کی تھیں، پھرمختلف طرح کے ٹیسٹوں سے اس کی تصدیق ہوگئی، اسی دوران ۸؍سال قبل ۲۰۰۲ء ؁ میں ایک بار ہارٹ اٹیک بھی ہوا،میرے عزیزوں اورکرم فرماؤں نے بروقت گورکھپور پہونچاکر اسپتال میں داخل کیا اورفوری طبی مدد مل جانے سے خطرہ ٹل گیا، جب کہ اللہ کا کرم ہی تھاکہ یہ اٹیک جھنڈانگر میں یہاں کے ایک مشہور معالج ڈاکٹر انواراحمد خاں صاحب کی کلینک میں ہوا، جنھوں نے اپنے پاس دستیاب دواؤں کو استعمال کرانے کے ساتھ بلاتاخیر گورکھپور پہونچانے کامشورہ دیا،چنانچہ ہمارے اقرباء اورجامعہ کے بعض کارکنان کی چابکدستی سے بیہوشی کی حالت میں مجھے گورکھ پورر بعجلت تمام پہونچایا گیا، جہاں گرچہ خطرہ توٹل گیا لیکن آئندہ کے لئے خطرہ کی گھنٹی بج گئی، میں نے اعزہ کے مشورہ سے کسی مشہورماہر امراض قلب کو دکھاکر جدید سہولیات سے آراستہ کسی بڑے اسپتال میں جاکر مکمل چیک اپ کا فیصلہ کیا، چنانچہ دہلی میں جاکر مولانا عبدالحمید رحمانی؍ حفظہ اللہ کے مشورہ سے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے ہیڈ آف دی کارڈیالوجی ڈاکٹر منچندا کودکھایا جنھوں نے اسکارٹ ہارٹ سنٹرمیں کچھ جدید قسم کے ٹیسٹ کرائے اورمرض کی نوعیت کی تشخیص کی اورباقاعدہ علاج شروع ہوا، پھردہلی میں آمد ورفت کی پریشانیوں کے مدنظر میں نے لکھنؤکے معروف ماہرامراض قلب ڈاکٹر منصور حسن صاحب کے زیرعلاج رہنازیادہ مناسب سمجھا اورکبھی کبھی ان کی عدم موجودگی یا سفرکے موقع پرڈاکٹر اکھل مہروتراسے طبی مشورے اور دوائیں لے کر استعمال کرتا رہا جس کا مشورہ خود ڈاکٹرمنصور حسن صاحب نے دیا تھا، اوریہ وہی ڈاکٹر ہیں جن کے زیرعلاج اخیرعمر تک خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ تھے اوران کے علاج سے کافی فائدہ محسوس کرتے تھے اوران کی تشخیص کے قائل اورعلاج کے معترف ومداح تھے۔
غرض کہ دوائیں چلتی رہیں اورمرض میں افاقہ بھی رہا کہ اسی دوران ایک دوسری موذی بیماری جوآج کل بہت عام ہے اورتقریباً ہرتیسرا فرد اس کاشکارہے یعنی ذیابیطس کابھی آغاز ہوگیا، اب گویاکہ ایک نہ شد دوشد کا معاملہ تھا، اوراس کی وجہ سے جہاں آنکھ، جگر اورگردوں کے متاثرہونے کا خدشہ تھا وہیں قلب توبراہ راست اس کی زدمیں تھا ،اب مستقل احتیاطی تدابیراختیار کرنے اوردواؤں وپرہیز میں مستقل مزاجی دکھانے کی ضرورت تھی جوبسااوقات سفروغیرہ میں ممکن نہ ہوتا تھا اوراحتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا تھا، پھربھی میں نے غیر ضروری اسفار اورعام جلسوں میں بکثرت شرکت سے بڑی حد تک گریز کیا، لیکن اس دورانِ علاج بھی ایک بارانجائنا کا شدید حملہ ہوا، لیکن ذات باری تعالیٰ کی مہربانی اوربروقت طبی امداد مل جانے سے یہ تکالیف رفع ہوئیں اورکسی بڑی آزمائش میں پڑنے سے محفوظ رہا۔
ماہ مئی میں چیک اپ کی غرض سے پھرلکھنؤ کا سفرکیا ،بعض ٹیسٹوں کی رپورٹوں کا معائنہ کرنے کے بعد میرے معالج ڈاکٹر منصورحسن صاحب نے مرض میں اضافہ کاخدشہ ظاہرکیا اوران کی اپنی تشخیص کے مطابق معاملہ دواؤں کے ذریعہ علاج کے حدود سے باہرنکل چکا تھا اوراب ضروت بائی پاس آپریشن کی تھی، چونکہ یہ بات انھوں نے انجیوگرافی کے بغیرکہی تھی اس لئے ان کے خدشات کوقبول کرنے میں مجھے تامل تھا، چنانچہ ان کی تجویز کے مطابق میں نے کمپیوٹرائز ڈکورنئری انجیوگرافی کرانا منظورکیا جس میں دل کے شریانوں کے تنگ ہونے کی تصدیق ہوئی ،پھردیگرکئی اورٹیسٹوں کے بعد’’ سہارا ہاسپٹل لکھنؤ ‘‘میں ایڈمٹ ہوکرباقاعدہ انجیوگرافی کرائی جس سے ڈاکٹروں کے بدترین خدشات کی تصدیق ہوگئی کہ دل کی شریانیں کئی جگہ کولیسٹرول کے انجماد کی بناپر تنگ ہوگئیں ہیں یا اس حد تک سکڑگئی ہیں کہ دوران خون میں رکاوٹ ہورہی ہے اورتمام تکالیف اسی بناپرہیں، میرے دونوں معالجین اورسہارا ہاسپٹل کے دوسرجن اس بات پر متفق تھے کہ اب بائی پاس سرجری کے علاوہ کوئی اور متبادل ممکن نہیں ہے اورجان لیوا ہارٹ اٹیک کاخطرہ سرپرمنڈلارہا ہے، اسی دوران مرکز التوحید، جھنڈانگر ،نیپال کے رئیس مولانا عبداللہ مدنی کے ادارہ کی جانب سے ایک فری میڈیکل کیمپ کا اہتمام حنبل ہوٹل میں کیاگیا، میں نے اپنی رپورٹیں ’میدانتا میڈی سٹی ہاسپٹل‘ گڑگاؤں کی طبی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر الحاج فرحان احمدصاحب کو دکھائیں توانھوں نے بھی جتنی جلد ممکن ہوبائی پاس سرجری کا مشورہ دیا بصورت دیگرخطرات کی سنگینی کا احساس دلایا، اب اتنا سب کچھ ہونے کے بعدان خطرات کو نظرانداز کرناممکن نہ تھاجب کہ میں بائی پاس کے اس جان لیوا عمل سے بچناچاہتا تھا، کیونکہ آپریشن کوئی بھی ہوبہرحال اس میں خطرات ہوتے ہیں، اوریہ آپریشن تویوں بھی انسانی جسم کے لئے کئے جانے والے عمل جراحی میں خطرناک ترین اورنازک ترین ماناجاتا ہے ،لیکن ڈاکٹروں کی تجاویز اوراحباب کے مشوروں سے میں نے سارے خدشات کو بالائے طاق رکھ دیا اوراللہ کی مدد اورمشیت پربھروسہ کرکے اس عمل کے لئے ذہنی طورپر تیار ہوگیا، آپریشن کے لئے ہاسپٹل اورجگہ کے انتخاب کا مسئلہ ڈاکٹر اکھل مہروترا نے یہ کہہ کرحل کیا کہ آپ کے لئے گڑگاؤں(ہریانہ) میں واقع میدانتا میڈی سٹی سب سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ اسپتال کی جدید طبی سہولیات، ماڈرن میڈیکل آلات اورتجربہ کار ڈاکٹروں کی ٹیم کے معاملہ میں اس وقت ہندوستان میں اس کا جواب نہیں ،پھرہمارے یہاں کرشنانگرمیں حسن اتفاق سے اسی اسپتال کی جانب سے مرکزالتوحید کے تعاون واشتراک سے لگائے گئے مفت طبی کیمپ کی وجہ سے اس فیصلہ کو مزید تقویت ملی اوراس کیمپ میں آئے ڈاکٹروں بالخصوص ڈاکٹرفرحان سے اچھاتعارف ہوجانے کی وجہ سے خصوصی نگہداشت کی امیدہوئی اورمیری یہ توقعات وہاں پہونچ کرپوری بھی ہوئیں۔
’’میدانتا میڈی سٹی‘‘ اپنی جدید ترین سہولیات ،صفائی ستھرائی کے نظام ،مثالی نظم وضبط ،ماہر ڈاکٹروں اورتجربہ کارعملہ کی وجہ سے ہندوستان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اوربیرونی دنیامیں بھی اس کی شہرت ہے جہاں سے بڑی تعداد میں مریضان قلب وجگریہاں کاسفرکرتے ہیں اورفائدہ اٹھاتے ہیں اور صحت یاب ہوکرجاتے ہیں ان بیرونی ممالک کے مریضوں میں ایک معتد بہ تعداد خلیجی ملکوں کے شہریوں کی ہوتی ہے۔
ملک کے مشہوراورمایہ ناز سرجن اورماہر امراض قلب ڈاکٹر نریش تریہن نے ملک کے کچھ بڑے سرمایہ داروں کے اشتراک سے دس ہزارکروڑ کی خطیررقم کی لاگت سے بڑے ہی اہتمام سے اسے قائم کیا ہے اورہریانہ سرکارنے تقریباً 200ایکڑ زمین اسے الاٹ کی ہے ،ڈاکٹر تریہن کاشمارجہاں ملک کے چوٹی کے سرجنوں میں ہوتا ہے وہیں دنیائے طب میں یہ ایک جاناپہچانا نام ہے اورانھوں نے پورے ملک کے ماہرین اورسرجنوں وفزیشنوں کی ایک قابل اعتماد ٹیم کو یہاں جمع کردیا ہے اوراس اسپتال کوکچھ اس طرح جدید مشینوں وآلات اورماڈرن طبی سہولیات سے آراستہ کردیا ہے کہ اسے دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے اسپتال کے مقابلہ میں پیش کیاجاسکتا ہے،بہرحال اسپتال کی شہرت اوراطباء کی مہارت کے بجائے اللہ رب العزت کی مددونصرت پربھروسہ کرتے ہوئے میں نے یہاں بائی پاس سرجری کرانے کا عزم مصمم کرلیا۔
ہمارا ۶نفری مختصرساقافلہ جومیری اہلیہ، میرے لڑکے کاشف شمیم خاں، مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ کے پوتے ڈاکٹر منظور احمد خاں ندوی وعلیگ، میرے سالے عزیزم پرویزاحمدخاں اورایک خادم پرمشتمل تھا۹؍اگست کی صبح گھرسے روانہ ہوکر ۱۰؍کی صبح دہلی پہونچا ،پھروہاں سے سیدھے گڑگاؤں اسپتال پہونچا ،وہاں ڈاکٹر فرحان سے ملاقات اورڈاکٹر آرآرکسلیوال کی طبی جانچ وتشخیص کے بعد مجھے فوراً آپریشن کے لئے ایڈمٹ کرلیا گیا ،ڈاکٹر فرحان کی خصوصی توجہ کی وجہ سے گنٹھوں کا کام منٹوں میں ہوتاگیا اوراسپتال کے فرض شناس عملہ کی مستعدی اور سرعت کادل پرنقش اولیں اچھا قائم ہوا ،ورنہ اسپتالوں کے اکتادینے والے کام، غیرضروری تاخیر اورمریضوں کو ہلکان وجاں بلب کرنے کابھی بعض جگہوں پر تجربہ ہوچکا ہے، لیکن یہاں اس کے برعکس ہوا، مجھے وارڈ میں منتقل کرنے کے فورا بعدسے مختلف طرح کے ٹیسٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا اورایک انتہائی نگہداشت کے محتاج مریض جیسا برتاؤ کیاجانے لگا، چنانچہ باوجود اس کے کہ میں آپریشن سے قبل پوری طرح سے اپنے کوچست ودرست اورتندرست محسوس کرسکتا تھا اورمیلوں پیدل چلنے کی طاقت اپنے اندرپاتا تھا پھربھی مجھے اسپتال کے اندرہی ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لے جانے کے لئے وہیل چیئرکااستعمال کیاگیا اورایک نرس اور ایک وارڈ اٹینڈنٹ سایہ کی طرح ساتھ لگے رہے، کامو ں کوتیزی سے نپٹانے کا عالم یہ تھا کہ شام تک نہ صرف یہ کہ ۷۔۸ قسم کے ٹیسٹ مکمل ہوگئے بلکہ کچھ رات گئے سب کی رپورٹیں بھی موصول ہوگئیں اورالحمدللہ ساری رپورٹیں نارمل تھیں اورآپریشن میں کوئی ظاہری رکاوٹ نہیں تھی، دل کی حالت معتدل اور شوگروبلڈپریشرسب کنٹرول میں تھا، اس دوران الگ الگ امراض کے ماہرین آکر مختلف قسم کی ہدایات دیتے رہے اورتسلی ودلاسہ بھی کیونکہ آپریشن بہرحال بہت ہی نازک اورپرخطرتھا اورانسانی ذہن ودماغ اورہاتھوں کی ذراسی چوک جان لیواثابت ہوسکتی تھی، ساری مہارتوں اورجدید طبی سہولیات کے باوجود آپریشن کی کامیابی کا تمام تر دارومدار زندگی اور موت کے مالک حقیقی اللہ رب العزت پر تھا اورمیرا اسی ذات رحیم وکریم پرکامل بھروسہ واعتماد تھا،یہ آپریشن یوں توبجائے خودنازک ہوتا ہے لیکن ذیابطیس کے مرض نے جس میں معمولی پھوڑاپھنسی بھی جلد ٹھیک نہیں ہوتا اورچھوٹا سا زخم بھی جلد مندمل نہیں ہوتا اسے اورپر خطر بنادیاتھا، پھرپتہ یہ چلاتھا کہ بائی پاس کم ازکم ۴جگہ ہوناہے اوردونوں ٹانگوں کی نسیں نکال کراستعمال کی جائیں گی اس میں دوران آپریشن عام حالات سے کچھ زیادہ وقت درکارتھا اورگزرتے وقت کا ایک ایک لمحہ آپریشن کی کامیابی کومشکلات سے دوچارکرنے والا تھا ،مختلف طرح کے خدشات واندیشے دل میں پیدا ہورہے تھے کبھی کبھی رہ رہ کردل میں یہ خیال بھی سراٹھانے لگتا تھا جومجھ کومیرے بعض عزیزوں نے انٹرنیٹ پر دستیاب بعض طبی معلومات جمع کرکے مجھے بتائی تھیں کہ گرچہ جدید طبی سہولیات اورمیڈیکل سائنس کی ترقیات نے دل کے آپریشن کو خطرات سے کافی حد تک پاک کردیا ہے اوراب دوران آپریشن اموات کی شرح صرف دوفیصد رہ گئی ہے لیکن ان دوفیصد میں بھی ۶۰ فیصد لوگ شوگرکے مریض ہوتے ہیں، اس معلومات کے بعدخدشات میں اضافہ ہوناایک طبعی بات تھی کیونکہ میں شوگر کا مریض بھی تھا، اگرچہ ڈاکٹر فرحان صاحب نے یہ کہہ کرمیرے خوف کوکم کرنے میں بڑا مثبت کردار اداکیا کہ امراض قلب کے شکارخاص طورسے بائی پاس سرجری کے محتاج زیادہ ترشوگر کے مریض ہی ہوتے ہیں اورانھیں کا کامیابی کے ساتھ آپریشن ہوتا ہے اس لئے آپ کسی طرح کی فکر وتشویش کو دل میں جگہ نہ دیں اور اللہ پربھروسہ رکھیں، مجھے کافی تقویت ملی اوردل کو ڈھارس بندھی ،رات کو سونے سے قبل ایک ذمہ دار ڈاکٹر نے آکربتایا کہ آپ کے ٹیسٹوں کی ساری رپورٹیں آگئی ہیں، جو سب نارمل اوراطمینان بخش ہیں ،اس لئے آپ کا آپریشن کل شام تک یاپھر پرسوں ہوجائے گا، یہ جاننے کے بعد ڈاکٹر منظور احمد صاحب چندگھنٹوں کے لئے دلی چلے گئے اورمیرا لڑکا اورسالے اسپتال سے باہر ہوٹل میں چلے گئے، میرے ساتھ صرف میری اہلیہ والدۛ?کاشف رہ گئیں۔
صبح ساڑھے چاربجے فجرکی نماز کے لئے بیدارہوا ،وضو اورنماز سے فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک نرس نے آکر ۵بجے بتایا کہ آپ دواملے پانی سے غسل کرکے تیار ہوجائیں( دواکی شیشی اس نے خود دی تھی) آپ کو ابھی آپریشن تھیٹرمیں چلنا ہے، میں اس کی ہدایات کے مطابق غسل کرنے توچلاگیا لیکن اس دوران میرے اوپر یک لخت خوف ودہشت اوراندیشوں نے حملہ کردیا کہ یہ نماز فجر میری زندگی کی آخری نماز بھی ثابت ہوسکتی ہے اوریہ دن میری حیات مستعارکا آخری دن بھی ثابت ہوسکتا ہے، پھرغسل خانہ سے نکلنے کے بعدمیں نے محسوس کیا کہ کچھ اسی قسم کی کیفیات کی شکارمیری اہلیہ بھی ہیں، پھرگھبراہٹ میں اضافہ اس وقت اورہوگیا جب میرے تینوں تیمارداروں میں سے کسی سے بھی مؤبائل پررابطہ نہیں ہوسکا جس کے لئے ہم دونوں نے متعدد بار کوششیں کیں، پھرمیں نے نیپال میں واقع اپنے آبائی گاؤں میں اپنے منیجر کو فون کرکے ۴بکرے ذبح کراکے ان کا گوشت صدقہ کرنے کی ہدایت کی اوراہل قریہ سے دعاکی درخواست بھی، اس اضطراب وبیچینی اور حددرجہ پریشانی میں مالک کون ومکان کو دل سے یاد کیا اور(من یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء)کا حقیقی مطلب اسی وقت آشکارا ہوا، پھر اس آیت پر عمل پیرا ہوا، (واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ إن اللہ مع الصابرین) صبر اورنماز کے ذریعہ مددحاصل کرو اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔
میں نے پھردورکعت نفل نماز اداکی اوردل کی گہرائیوں سے اللہ سے دعاکی کہ اس آزمائش سے مجھے کامیابی کے ساتھ نکال لے، نماز کے کرشمہ اورفوری تاثیر کامیں اس وقت قائل ہوگیا کہ میرے دل سے تمام وساوس اور اندیشے یکلخت نکل گئے اوردل مضبوط ہوکراس فیصلہ پر جم گیا جسے میں نے تائید غیبی سمجھا، مجھے بیڈ پرلٹاکرڈرپ لگائی گئی اوراسی دوران غالباً بیہوشی کی دواانجکٹ کردی گئی کیونکہ کمرہ سے نکلتے ہی مجھ پرغشی کی کیفیت طاری ہوئی اوربیڈکو لے جاتے ہوئے چندموڑ مڑنے اورراہداریوں سے گزرنے کے بعدمیں مکمل طورپر بے ہوش ہوگیا،ڈاکٹرفرحان صاحب سے جن سے ازیں قبل مختصرسی ملاقات میں خوشگوار تعلقات استوارہوگئے میں نے درخواست کی تھی کہ میرا آپریشن ڈاکٹر تریہن خود کریں ،انھوں نے اطمینان دلایا تھا کہ آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ایسا ہی ہوگا آپ اطمینان رکھیں، چناچنہ ڈاکٹرنریش تریہن سمیت تین ماہر سرجنوں اورتین ہی اسسٹنٹوں کے ذریعہ آپریشن کاعمل تقریباً ۶گھنٹوں میں مکمل ہوا جب کہ آپریشن سے متعلق ساری کاروائی میں پورے ۲۴گھنٹے صرف ہوئے، کیونکہ جب ۲۴گھنٹوں بعدمجھے ہوش آیا تواس وقت بھی کئی ڈاکٹر ونرسیں مصروف عمل تھے، اگلے دن صبح ۷بجے مجھے ہوش آیا اوربصارت نے کام کرنا شروع کیا جب کہ اس سے چندمنٹوں یاتقریباً ایک گھنٹہ قبل اس حد تک حواس بیدارہوگئے تھے کہ سماعت نے کام کرنا شروع کردیا تھا اورڈاکٹروں کی آوازیں اورطبی آلات اوراوزار کی کھٹرپٹرکانوں میں محسوس ہونے لگی تھی، اس وقت پہلا احساس یہی تھا کہ الحمدللہ زندہ ہوں، لیکن اعضاء وجوارح میں کوئی حرکت اورآنکھوں میں زندگی کے آثارنہیں تھے کیونکہ باوجود کوشش بسیارکے آنکھوں کوکھول کرماحول کاجائزہ لینے اورانگلی تک کوحرکت دینے سے قاصرتھا، دماغ پوری طرح کام کرررہا تھا لیکن احساسات مثبت ومنفی متضاد قسم کے تھے، صرف سماعت بیدارتھی اورڈاکٹروں کی یہ ہدایات پوری طرح سمجھ میں آرہی تھیں کہ زورزورسے سانس لیجئے،اس وقت منہ اورناک میں کئی نلکیاں اورآکسیجن کے پائپ وغیرہ لگے تھے اورپورا سینہ اورسامنے کا حصہ تاروں ونلکیوں اورمختلف مشینی آلات سے ڈھکا ہواتھا جوانسانی جسم کے بجائے ایک مشین کا منظر پیش کررہا تھا، پھرآنکھوں میں روشنی بھی آئی اورجسم میں حرکت بھی اوربتدریج تمام حسیات بیدارہوگئیں، سامنے گھڑی پرنظرگئی تو ۷بجے کا وقت تھا، میراپہلا احساس یہی تھاکہ شام کے ۷بجے کا وقت ہے لیکن بعدمیں معلوم ہواکہ اگلے دن کے صبح ۷بجے کا وقت تھا، گویا کہ بیہوشی کو ۲۵؍گھنٹے گزرگئے تھے جب کہ میں اسے ۱۳گھنٹہ طویل سمجھ رہا تھا، اس درمیان میرے بعض اعزہ دوبارچند منٹوں کے لئے مجھے دیکھ گئے تھے اورظاہری حالت کو دیکھ کردہشت زدہ بھی تھے جس میں میری حالت ناقابل شناخت تھی، لیکن ڈاکٹروں نے آپریشن کی کامیابی اورخطرہ سے باہر ہونے کا مژدہ سناکران کی فکر وتشویش کو رفع کردیاتھا، بعدکے کئی گھنٹوں تک میں ہوش وبیہوشی کے درمیان معلق رہا،جاگتے میں خواب دیکھنے کو میں نے حقیقت کے روپ میں اسی وقت دیکھا، بعدمیں ڈاکٹروں نے بتلایا کہ یہ کیفیت سب کے ساتھ لیکن عارضی ہوتی ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اوربعدمیں یہ ساری کیفیات واحساسات اعتدال پرآگئیں، اگلے دو دنI.C.U. اورC.C.U.میں انتہائی نگہداشت میں رکھاگیا اور اس درمیان میرے اعزہ میں سے صرف ایک کو ۲۴؍گھنٹوں میں فقط دوبارصرف دس منٹ کے لئے آنے اورمحض دیکھنے پراکتفا کرنے کی اجازت تھی، پھر بولنے اور حال چال پوچھنے کی اجازت ملی، اورمیں بھی جواب دینے کے قابل ہوا،اگرچہ دوران آٖپریشن خون زیادہ ضائع ہونے کی بناپر حددرجہ نقاہت تھی لیکن دماغی حالت اطمینان بخش تھی اورسب کو اچھی طرح پہچان رہا تھا، پھرجتنی تیزی کے ساتھ کمزوری رفع ہوئی کہ خودمیں حیران ہوں آپریشن کے تیسرے دن سہارے کے ساتھ باتھ روم جانے بھرکی طاقت پیداہوگئی حتی کہ آپریشن کے صرف تین دن بعدالحمدللہ اس قدر طاقت بحال ہوچکی تھی کہ میں بسترپر لیٹے لیٹے نماز پڑھنے کے قابل ہوگیا، جب کہ اس سے قبل ضعف ونقاہت ،وقتی غشی اور طہارت کے عدم اہتمام کی بناپر اس سے قاصرتھا،I.C.U.میں میرے بغل کے ایک بیڈ پر ایک بزرگ عراقی شہری دل کا آپریشن کرانے کے بعدصاحب فراش تھے، ان کو انگریزی نہیں آتی تھی اورعملہ میں کوئی بھی عربی سے واقف نہ تھا سوائے ایک کشمیری مسلمان ڈاکٹر کے، ان کی عدم موجودگی میں‘ میں ان مذکورہ بالا عراقی مریض اور نرسوں کے درمیان رابطہ کا کام کرنے لگا اورترجمانی کے فرائض انجام دینے لگا، تیسرے دن غالبا بعدنماز ظہرمجھے پرائیوٹ وارڈ کے علیحدہ وآراستہ روم میں منتقل کردیا گیا اور شام کو ایک ڈاکٹر نے مجھے خوش خبری سنائی کہ آپ اب ہرطرح خطرہ سے باہر اور روبہ صحت ہیں اورصرف تین دن بعدگھرجاسکتے ہیں۔
اس درمیان میرے قریبی اعزہ مختلف جگہوں سے مجھے دیکھنے کے لئے آتے رہے اوردور ونزدیک کے لوگوں کا تانتا بندھا رہا ،میری بیٹی وداماد آگرہ سے آکر کئی روز مقیم رہے، میرے بہنوئی اشفاق احمد صاحب اورہونے والے سمدھی آفاق احمدصاحب آپریشن کے دن ہی آگئے تھے اور اخیر تک مقیم رہے ،میرے دوسرے سالے عزیزم شہاب سلمہ اورہونے والے داماد اوربھتیجہ عزیزم کامران سلمہ لکھنؤ سے آئے تو دلی میں موجود ہمارے عزیزوں کی آمد ورفت اورعیادت کا سلسلہ لگارہا ،میری بڑی بیٹی جواس وقت اپنے شوہرکے ساتھ کویت میں مقیم ہے، بڑی ہی فکرمندی کے ساتھ برابرفون پر احوال وکوائف اورآپریشن کی تفصیلات معلوم کرتی رہی، اورمستقل میری صحت یابی کے لئے دعائیں کرتی رہی،میری فرض شناس اہلیہ نے بھی خدمت وغمگساری اورایثار وقربانی کا حق اداکردیا اورایک ہفتہ اسپتال میں بغیرسحری کے روزہ رکھتے ہوئے اپنا فرض منصبی اداکیا،اسپتال کے ضابطہ کے تحت باہرسے کوئی بھی خوردونوش کی چیزلانے کی اجازت نہ تھی لیکن اس کے باوجودانھوں نے روزہ رکھ کر اپنا شرعی ودنیاوی دونوں طرح کے حقوق کی ادائیگی میں انصاف کیا،غرض کہ دور ونزدیک کے سارے اعزہ امید وبیم کی کیفیات کے ساتھ ایک دوسرے کو دعاؤں کے لئے برابرتلقین کرتے رہے اوراسپتال میں موجود میرے تیمارداروں سے تازہ ترین صورت حال دریافت کرتے رہے، جماعت کے معروف عالم دین اورملک گیر شہرت کے حامل ادارہ ابوالکلام آزاد اسلاملک اویکننگ سنٹر کے صدرمولانا عبدالحمید رحمانی ؍حفظہ اللہ اس دوران دوباربغرض عیادت تشریف لائے اوردعائے صحت سے نہ صرف خود نوازابلکہ اپنے اداروں میں بھی دعاؤں کا اہتمام کرایا اوارپنی گہری وابستگی اورفکرمندی کا اظہارکیا۔فجزاہ اللہ خیراً.
ہمارے جامعہ سراج العلوم السلفیہ، جھنڈانگرکی عظیم الشان جامع مسجد،اس کی شاخوں کی مساجد اورہمارے آبائی گاؤں کدربٹوا وقرب وجوار ومضافات کی مساجد میں بھی دعاؤں کااہتمام ہوا، بالخصوص جھنڈانگرکی مسجد میں اساتذہ وکارکنان جامعہ اورمصلیان مسجد نہ صرف صحت یابی کے تئیں فکرمند تھے بلکہ نمازوں میں اجتماعی دعائیں دل کی گہرائیوں سے کرتے رہے اورہمارے قریبی وباخبرلوگوں سے دریافت حال کرتے رہے، ہمارے اساتذہ میں سے بالخصوص مولاناعبدالمنان سلفیؔ ،جوجامعہ کے وکیل الجامعہ ومدیرماہنامہ السراج کے علاوہ جامعہ کی جامع مسجد کے مستقل خطیب ہیں اسی طرح مولاناخورشید احمدسلفی جو شیخ الجامعہ کے علاوہ جامعہ کی جامع مسجد کے امام ہیں ان دونو ں نے بارہا نمازوں میں دعائے صحت کی اپیل کی، اسی طرح اول الذکر نے اردواخبارات میں کئی بارمیری صحت وعافیت سے متعلق تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے قارئین سے دعائے صحت کی اپیل کی، انھیں اخبارات کے ذریعہ دورونزدیک کے پرسان حال کو تازہ ترین حالات بھی معلوم ہوتے رہے اوروہ برابردعاؤں میں بھی مصروف رہے، ملک کے دوردراز علاقوں اورغیر ممالک میں موجود ہمارے بہی خواہوں وہمدردوں اورکرم فرماؤں نے گہری عقیدت ووابستگی کا اظہارکیا اور خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا، اورخلاصہ یہ کہ اللہ رب العزت مالک کون ومکاں اورمالک موت وحیات نے مجھ عاجز وخطا وار کو جو صحت وعافیت سے نوازا اورحیات نوعطاکی اس میں ہمارے اعزہ واقرباء کی دعائے نیم شبی اوررمضان المبارک کی بابرکت ساعات اورقبولیت دعا کے اوقات میں ہمارے کرم فرماؤں کے دلوں کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعاؤں کا سب سے بڑا اثرہے، اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو جزائے خیرسے نوازے، میں فرداًفرداً ان سبھوں کا شکریہ اداکرنے سے قاصرہوں، چنانچہ ان سطور کے ذریعہ اپنے دلی جذبات اورتشکر وامتنان کااظہار کرتے ہوئے مکمل صحت یابی تک ان سے دعاؤں کاخواستگار ہوں۔

No comments:

Post a Comment