Wednesday, November 24, 2010

NOVEMBER-2010 دارالعلوم ندوۃ العلماء فکرونظرمیں تبدیلی کا سفر

شمیم احمدندوی

دارالعلوم ندوۃ العلماء

فکرونظرمیں تبدیلی کا سفر

(دوسری قسط)

گذشتہ سطور( پہلی قسط) میں مذہبی تعصب کی ستم رانیوں اورمسلکی منافرتوں کے تلخ نتیجوں کا کچھ تذکرہ اختصار کے ساتھ ہوا جس سے اس وقت کے ملکی حالات وماحول کا کسی قدر اندازہ ہوجاتا ہے اوراس پس منظر کوجاننے میں مددملتی ہے جودارالعلوم ندوۃ العلماء جیسے ایک منفرد ادارہ کے قیام کا محرک ہوئے، تاریخ ندوۃ العلماء کے حوالہ سے استاذ الاساتذہ مولانا لطف اللہ علیگڈھی کو زہردئے جانے کے ایک افسوسناک واقعہ کا ذکربھی انھیں شرمناک حالات کے ضمن میں ہوا،اس کی حقیقت کیا ہے؟ راقم سطور کو اس کا تفصیلی علم نہیں، اورزہرخورانی کے اس واقعہ میں کون سی جماعت ملوث تھی اس کا علم نہ ہوسکا، لیکن مذہبی تعصب اوراندھے بغض وعناد کے نتیجہ میں جماعتوں کے اعیان واکابر پر قاتلانہ حملوں کا ہونا ہرگز ناقابل یقین نہیں ہوناچاہئے کہ مذہبی تعصب نے جس طرح لوگوں کی عقلوں پرپردہ ڈال رکھا تھا اورمسلکی گروہ بندیوں نے جس طرح خیروشرمیں تمیز کرنے کی صلاحیتیں سلب کررکھی تھی اس سے کچھ بھی بعیدنہ تھا ۔
جماعت اہل حدیث کے سرخیل، اوربرصغیر میں مرکزی جمعیت اہل حدیث (اس وقت کے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس) کے بانی ومؤسس فاتح قادیان مولاناثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ پر جان لیوا قاتلانہ حملہ انھیں متعصبانہ کارروائیوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے، لیکن مولانانے اس حملہ کے بعدجس اعلیٰ ظرفی، حلم وبردباری اورعفوودرگزرکا مظاہرہ کیا اس کی مثالیں ضرورنایاب ہیں، نیزتعصب وتنگ نظری کا زہربونے والوں کے لئے تازیانۂ عبرت بھی، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۹۳۷ء ؁ میں مولانا امرتسری کے آبائی وطن شہرامرتسرمیں نومبرکے ابتدائی ہفتہ میں ایک مخصوص فرقہ کی جانب سے ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا جس میں اس زمانہ کے دستورکے مطابق بعض مقررین نے اہل حدیثوں کے خلاف بغض وعناد اوراشتعال انگیزی کامظاہرہ کیا، بالخصوص مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے خلاف زبردست ہرزہ سرائی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قمر بیگ نامی ایک جاہل شخص نے مولانا کے قتل کو کارثواب سمجھ کر راستہ میں ایک دھاردار اسلحہ سے ان پرقاتلانہ حملہ کردیا ،جس سے ان کونہایت شدید زخم آئے، اللہ کے فضل اوربروقت طبی امداد مل جانے سے ان کی زندگی تومحفوظ رہی لیکن اس سے ان کو سخت اذیت پہونچی، حملہ آورمذکور اس کے بعد روپوش ہوگیا ،مولانا نے اس موقع پراپنی کشادہ ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف کسی بھی طرح کا مقدمہ اورکاروائی کرنے سے انکارکردیا، لیکن ہندوستان کی مختلف تنظیموں کے بے حداصرار اورپرزورمطالبہ پرپولس حرکت میں آئی اوراسے گرفتار کرکے جیل بھیجاگیا، عدالت سے اسے ۴؍سال کی سزاسنائی گئی، اس موقع پر مولانانے جس اعلیٰ اخلاق اوربلندئ کردار کامظاہرہ کیا اس نے زمانۂ نبوت کی یادتازہ کردی، مولاناکوجب یہ معلوم ہوا کہ اس کے اہل خانہ کاکوئی دیگرذریعہ معاش نہیں ہے اوروہاں فاقوں کی نوبت آگئی ہے توخاموشی کے ساتھ اس کے بچوں کی خبرگیری کرتے رہے اوراپنے جانی دشمن کے اہل خانہ کی کفالت کے طورپر ماہانہ خرچے خاموشی کے ساتھ بھجواتے رہے، کسی ہمدردنے اس پراعتراض کیا توایمان افروز جواب دیا کہ غلطی اس شخص نے کی ہے اس کے بچوں کا کیا قصور کہ وہ پریشانی اور مصیبت میں مبتلاہوں۔
اس فعل شنیع اورحرکت قبیح کی تھوڑی سی تفصیل (کافی اختصار کے ساتھ) آگئی جس سے یہ جاننے میں ضرورمدد مل سکتی ہے کہ نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ جماعتوں کے قائدین اورملی رہنماؤں پرجان لیواحملے ہونے لگے تھے جوایمان فروش مولویوں اورمذہب کے ٹھیکہ داروں کی غلط تربیت اور گمراہ کن بیانات کی بدولت سامنے آرہے تھے(اور آج کا اسلامی معاشرہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے)
عقائد میں معمولی اختلافات یا ترجیحات میں تھوڑے سے فرق یا عمل میں ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہونے کا نتیجہ بسااوقات کافی سنگین صورت میں ظاہر ہوتاتھا جس نے پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کوکئی گروہوں میں تقسیم کررکھاتھا،پھر گروہی عصبیت اس قدر عروج پرپہونچی ہوئی تھی کہ افراد وجماعتیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہورہی تھیں اوران حرکتوں نے ان اسلام کے نام لیواؤں کوبرادران وطن کی نظروں میں بہت ذلیل کررکھا تھا اورملک کے ہندوؤں وانگریزوں کوان کے استخفاف واستہزاء کا موقع فراہم کررکھا تھا، ایک ایسے ملک میں جہاں کی اقوام مختلف ذات برادریوں میں منقسم اوررنگ ونسل کی مختلف عصبیتوں کاشکار تھیں اورجن کی گذشتہ نسلیں اسلام کے درس مساوات، اسلام کی پاکیزہ وسچی تعلیمات اورمسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کو دیکھ کردائرہ اسلام میں داخل ہوئی تھیں اب موجودہ مسلمانوں میں انتشار وافتراق اورآپسی اختلافات کودیکھ کر حیران وششدر تھیں اورجن خامیوں اورفرقہ بندیوں کومسلمان معمولی مسئلہ سمجھ کرنظرانداز کئے ہوئے تھے اس نے اہل اسلام کی دعوتی مساعی وجہود کوکس قدرنقصان پہونچایا اور تسخیرقلوب کی جانب اس کے بڑھتے قدموں کے لئے کتنا رکاوٹ بنا ،اس پر غورکرنے کی بھی کسی کو فرصت نہ تھی، کیونکہ وہ اپنے اپنے مسلک کے اثبات کو اس سے بڑی دینی خدمت سمجھتے ہوئے اسی میں مصروف تھے،یہ بات پورے ملک کے ملی قائدین اورمذہبی رہنماؤں کے لئے شرم وندامت سے ڈوب مرنے کی ہے کہ جب بھیم راؤ امبیڈکر۔جوکہ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ ملک میں مذہبی استحصال کا شکارتھے۔نے اسلام ودیگر مذاہب کاتقابلی مطالعہ کیا تووہ اسلام کی پاکیزہ وسادگی پرمبنی تعلیمات اوراس کے درس اخوت ومساوات سے بہت متاثر ہوئے اورانھوں نے اپنی پوری قوم کے ساتھ اسلام قبول کرنے کاارادہ کرلیا، مہاتماگاندھی کو خبرہوئی توانھوں نے امبیڈکر کویہ کہہ کر ورغلایا کہ آپ کون سا اسلام قبول کرناچاہتے ہیں؟ سنی اسلام یاشیعہ اسلام؟ پھرسنی اسلام میں دیوبندی اسلام یابریلوی اسلام یاوہابی اسلام؟ توامبیڈکرنے پوچھا کہ کیااسلام میں بھی فرقہ بندیاں ہیں؟ مہاتماگاندھی کاجواب تھا کہ مسلمانوں میں متعدد فرقے اورذات برادریوں کی تفریقات ہیں جیسے کہ ہندوؤں میں ،امبیڈکرکاذہن انتشارکاشکار ہوااور اسلام کے بارے میں مثبت خیالات منفی میں تبدیل ہوگئے اورنتیجہ یہ ہواکہ اپنے ۲۰؍لاکھ متبعین وپیروکاروں کے ساتھ انھوں نے بدھ مذہب اختیار کرلیا اسلام کی نشرواشاعت اور دعوت وتبلیغ کے لئے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا جومحض مسلکی اختلافات کی وجہ سے لگا، بقول علامہ اقبال ؂
فرقہ بندی ہے کہیں اورکہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

ملک کے دینی مدارس میں نہ صرف یہ کہ ۵؍سو سالہ پرانا اورفرسودہ نصاب تعلیم رائج تھابلکہ نظام تربیت بھی قدیم ہی آزمایا جارہا تھا، یورپ کی نشأۃ ثانیہ اوروہاں برپا صنعتی انقلاب اوربرق وبخارات کی ایجادات کے بعد جس طرح مغرب نے اپنی طویل غفلت کے بعدانگڑائی لی اوربرق رفتار ترقی سے دنیا کو روشناس کرایا، اس سے فطری طورپردنیا ان سے مرعوب ومتاثرہوئی اوران کے قدم سے قدم ملاکرچلنے اوران کے افکار ونظریات اوران کے فکروفلسفہ کو من وعن قبول کرنے کی طرف مائل ہوئی، اب دنیا میں ان کی حیثیت غالب کی اورعالم اسلام کی حیثیت مغلوب کی اوران کی حیثیت حاکم کی اورمسلمانوں کی حیثیت محکوم کی ہوچکی تھی، حاکم وغالب کا فلسفہ ہمیشہ طاقتور سمجھاجاتا ہے اوراس کے برعکس محکوم قومیں احساس محرومی اوراحساس شکست کا شکارہوتی ہیں اوران کا اپنے عقائد ونظریات اورمذہبی رجحانات پرسے بھی اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے، ایسے میں اپنے دینی افکار ونظریات پرنئی نسل کا اعتمادبحال کرنے کے لئے ضرورت تھی کہ نصاب میں تعمیری اصلاحات کرکے اسے زمانہ کے چیلنجوں کامقابلہ کرنے کے لائق بنایاجائے ،تاکہ ان کی نشونما اورذہنی تعمیر وارتقاء کی صلاحیتیں بحال ہوں، جبکہ قدیم نصاب تعلیم فکروعمل کے لئے کسی وسیع میدان کے فراہم کرنے سے قاصرتھا جس کانتیجہ یہ ہواکہ جو صلاحیتیں زیادہ بہتر خدمت اوراعلیٰ قیادت کا مظاہرہ کرسکتی تھیں ‘ باہمی اختلافات، تکفیروتفسیق، فروعی بحثوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کی نذر ہونے لگیں۔
جس وسیع وہمہ گیر مقصداورجس آفاقی ہدف کولے کرندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیاتھا وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے عزت وسربلندی اورمسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کا راستہ تھا ،یہ مقصد اس قدردوررس نتائج کا حامل تھا جس کا آج کے اس دوراختلاف وانتشار میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتا، اورآج ذمہ داران دارالعلوم اوروابستگان ندوہ جس طرح چھوٹی چھوٹی فروعی بحثوں میں الجھے ہیں اورجس طرح مسلکی منافرت کو پھیلانے میں دوسری متشدد تنظیموں یا افراد کا آلہ کاربنے ہوئے ہیں ‘ یہ ندوہ کے اساسی مقصد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا،ندوۃ العلماء کے قیام کا پس منظربیان کرتے ہوئے اس کے گل سرسبد اورہونہار فرزند مولاناسید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے اپنے گہربارقلم سے صفحہ قرطاس پر جو حقیقت نگاری کی ہے اس سے بھی انھیں خیالات کااظہار ہوتا ہے جوناچیز نے گذشتہ سطورمیں پیش کی ہیں اورجنھیں مولانااسحٰق جلیس ندوی رحمہ اللہ نے ’’تاریخ ندوۃ العلماء ‘‘مرتب کرتے ہوئے اس کے صفحات میں نمایاں جگہ دی ہے، مولانا سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں:
’’انقلاب وحوادث کے جوطوفان ملک میں اٹھ رہے تھے ان سے حساس مسلمانوں کے دل مضطرب تھے، مدارس ومکاتب کاپرانا سلسلہ ٹوٹ رہا تھا، انگریزی اسکول اورکالج میں مسلمان لڑکے کھنچ رہے تھے، سلطنت کے اثرسے عیسائیت کاچرچا تھا، مشنریوں کے جال ہرجگہ پھیلے ہوئے تھے، ان کے یتیم خانے ہرجگہ قائم تھے، مسلمانوں اورعیسائیوں میں مناظروں کی گرم بازاری تھی، دونوں طرف رسائل لکھے جارہے تھے، یورپ کے نئے خیالات سیلاب کی طرح امڈ ے چلے آرہے تھے، عام علماء زیادہ ترپڑھنے پڑھانے میں مصروف، کچھ معمولی چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھے تھے اورخواص تقلید اورعدم تقلید، قرأت فاتحہ (خلف الامام)، آمین بالجہر، اورفع یدین کے مسئلوں میں ایسے گھستے تھے کہ مناظرہ مجادلہ اورمجادلہ مقاتلہ بن گیا تھا، خدا کے گھر لڑائی کے میدان بن گئے تھے ایک دوسرے کی تفسیق اورتکفیرپربڑی مہریں صرف ہورہی تھیں، مدرسوں میں پرانا فرسودہ طریقہ درس جاری تھا جوزمانہ کے انقلاب سے بے کاراورنئے زمانہ کے لئے قوم کے نئے رہبر اوررہنما پیداکرنے سے قاصرہورہا تھا‘‘۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس تقریر کا حوالہ بھی دیا جائے جونواب محسن الملک نے ندوۃ العلماء کے پہلے اجلاس میں کی تھی، جس میں انھوں نے ندوہ کے قیام کی ضرورت واہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے انتہائی دردمندی ودل سوزی کا اظہار کیاتھا (واضح ہوکہ اس تقریر کے اقتباسات روداد ندوۃ العلماء میں موجود ہیں جس کاقلمی نسخہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی عظیم الشان لائبریری میں محفوظ ہے اوراس ناچیز کو اسے دیکھنے کا اتفاق ہواہے)
اس تقریر کاوہ حصہ ہمارے لئے توجہ کا طالب ہے جس میں انھوں نے ندوۃ العلماء کے قیام کی ضروت کا اعتراف کرتے ہوئے کہاتھا :
’’الحمدللہ مدت مدید کے بعد ہماری قوم بھی خواب غفلت سے بیدارہوئی جودنیا میں بڑے بڑے کارنمایاں کرکے تھکی ماندی ہوکرسوگئی تھی اورایسی سوئی تھی کہ اس عرصہ میں وہ قومیں جومیدان ترقی میں صدہا کوس پیچھے تھیں ‘ بہت آگے نکل گئیں اورنکلی چلی جارہی ہیں‘‘
آگے مزید اس نکتہ کواجاگر کرتے ہوئے اس حقیقت پرسے پردہ اٹھاتے ہیں جس پرقیام ندوۃ العلماء کی اساس ہے اورجوہماری قوم کی اصل بیماری ہے ،فرماتے ہیں :
’’حضرات غفلت ونااہلیت سے بڑھ کر قوم کی خرابی کا بڑا سبب اختلاف ہے اس کی برائی ندوۃ العلماء نے اس طور ظاہر کی کہ جس سے ہمارے علماء کی عالی دماغی، بلندخیالی اورپاک دلی ظاہر ہوتی ہے، اس جلسہ میں وہ پاک الفاظ نکلے جواس قابل ہیں کہ ہرایک مسلمان صفحۂ دل پرلکھے اور عمل کرے‘‘
اپنے خطاب میں آگے چل کر وہ ندوہ کی ان برکتوں کااعتراف کرتے ہیں جن کامشاہدہ پہلے ہی اجلاس سے کیاجانے لگا، اوروہ برکتیں یہ تھیں کہ ندوہ نے فرقہ واریت اوراس سے پیداشدہ تنازعات اورمسلکی اختلافات کومٹاکر مختلف افکار وخیالات کے لوگوں کوایک اسٹیج پرجمع کرنے میں کامیابی حاصل کی وہ فرماتے ہیں:
’’اول برکت ندوۃ العلماء کی یہ ہے کہ اس نے مقلدین اوراہل حدیث، قدیم وجدید، تعلیم یافتہ اورمختلف اذواق کے لوگوں کوایک جگہ جمع کردیا ہے،امید ہے کہ جیسا قوائے مختلفہ کے اکٹھا ہونے سے ایک کیفیت متشابہ پیداہوجاتی ہے جس کومزاج کہتے ہیں‘ ان طبائع مختلفہ کے اجتماع سے ایک دوسری حالت پیدا ہو جوقریب قریب’’ اعتدال حقیقی‘‘ کے ہوجائے‘‘

یہ’’ اعتدال حقیقی‘‘ اور ’’رواداری‘‘ہی دراصل وہ گوہرمقصود تھا جس کے حصول کے لئے ندوۃ العلماء جیسے مکتب فکرکی تلاش ہوئی، اوراس اعتدال وتوازن کی حصولیابی اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک تعصب وتنگ نظری، مسلکی انتہا پسندی فقہی جمود، بغض وعناد،رشک ورقابت اوردین میں بے سبب فلسفیانہ موشگافیوں کوترک کرکے مشترک مفاد باہم اوروسیع ترملی مفادات کے لئے اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور اپنی ضد وہٹ دھرمی اورصرف اپنے مسلک کے حق ہونے پربیجا اصرار کو چھوڑ کر دوسرے مسلک کے ساتھ فراخ دلی اورکشادہ ظرفی کی روش نہ اپنائی جائے، اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس وقت کے حالات اسی بات کے متقاضی تھے کہ فکرونظرمیں وسعت پیداکی جائے ،دوسرے مسلک کے قائدین ورہنماؤں کااحترام کیاجائے، اوراپنی صلاحیتوں کوملت کی بقا کی خاطر تعمیری مقاصد میں استعمال کیاجائے نہ کہ دوسروں کوزیر کرنے اورنیچا دکھانے اوراپنے مسلک کی حقانیت وبرتری ثابت کرنے میں۔
اس زمانہ کے ایمان فروش مولوی، مساجد کے ائمہ اورمسند درس وافتاء پرقابض علماء اپنے مسلک کے لئے چھوٹی چھوٹی حصولیابیوں پرقانع ہوچکے تھے اورپوری ملت کی قیادت ورہنمائی اورامت مسلمہ کی امامت کا وسیع ترمفہوم سمجھنے سے بھی قاصر تھے، اسی بات کو علامہ اقبال نے یوں کہا ہے ؂
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیاہے
یہ کیاجانیں بے چارے دورکعت کے امام

اسی طرح دین متین کے شیدائیوں اوراسلام کے فرزندوں کوان کا بھولا ہوا اخلاقی فریضہ اورفراموش کیاہوا سبق یاددلاتے ہوئے اس وسیع امامت وقیادت کے تصور کوزندہ کیاہے جس کو اختیار کرنے کے بعدپوری دنیاہمارے قدموں میں ہوگی اورہمارے اشارۂ چشم وابروکی محتاج ہوگی ارشاد ہوا ؂

سبق پڑھ پھر صداقت کاعدالت کاشجاعت کا
لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اگراس وسیع تخیل کو دولفظوں میں بیان کرناممکن ہو توکہاجاسکتا ہے کہ دنیاکی امامت کا جوتصوراسلامی شعراء اوردانشوروں نے پیش کیاہے وہ تعصب وتنگ نظری کوترک کرکے اپنی صفوں میں اتحاد پیداکئے بغیر اور قدامت پرستی اورجہالت وبے خبری کو چھوڑکر دنیا کے بارے میں وسیع ترتخیل کواختیار کئے بغیر ممکن نہ تھا، اس لئے دینی مدارس کے ازکار رفتہ نصاب اورتعلیم وتربیت کے قدیم نظام کے ہوتے ہوئے ایک نئے ادارہ کی ضرورت پڑی جس کانظام پرانے ڈگر سے ہٹ کرہو اورجس کا نصب العین ایساہو جوزمانہ میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ (جاری)

***

No comments:

Post a Comment