Sunday, June 20, 2010

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؒ عمل پیہم۔۔۔۔۔ مثبت تحریک ap- jul 2010

مولاناخورشید احمدسلفیؔ
شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؒ
عمل پیہم۔۔۔۔۔ مثبت تحریک
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا
جماعت اہل حدیث ہندکے گوہرشاہوار، جامعہ سلفیہ بنارس کے یکے قافلہ سالار، شہرعلم وادب، شعروسخن اور مرکز صنعت وہنر مؤناتھ بھنجن کے درتابدار علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ پرجب کچھ لکھنے کا خیال ہوا تواول دوامورکی طرف دھیان گیاکہ ان کی ذات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کسی ایسے شعرکا انتخاب کروں جوان کی بلند وبالا شخصیت اورمثبت فکروفن کے لئے موزوں ہو،بہرحال اس کے لئے مندرج صدرشعر منتخب کیا۔
دوسرے یہ کہ ان کی شخصیت کثیرالجہات، ان کی سرگرمیاں وسیع اوران کی خدمات رنگا رنگ تھیں توپھر ان کے کس گوشہ کو اپناؤں اوراس کو کون ساعنوان دوں،اس دوسرے امرکے لئے عنوان بالا پسندکیا۔
ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ ذہین و فطین، قدآور اونچی فکر کے آدمی اورفعال وباکردارانسان تھے، ان کی پرورش وپرداخت مؤجیسے علمی، تعلیمی وتدریسی قصبہ میں ہوئی، وہاں کے معیاری تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم پھرقواعد صرف ونحو، عربی ادب، تفسیر وحدیث کی تعلیم حاصل کی، پھرمزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے بفضل رب دنیائے اسلام کی شہرہ آفاق یونیورسٹی جامعہ ازہر قاہرہ میں وہاں کے ماہر علم وفن مصری اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، جہاں ان کے فکروفن سے کسب فیض اورمصرکے ادبی ماحول میں ڈھلنے وسنورنے کاموقع ملا، وہاں سے واپسی کے بعد ۱۹۶۸ء ؁ میں جامعہ سلفیہ بنارس سے وابستہ ہوئے، اسی وابستگی کے دوران علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں ایم.فل وپی.ایچ.ڈی.کرنے کا سنہری موقع ملا جہاں انسان سازی ہوتی ہے اوربلند پروازی عطاکی جاتی ہے، جہاں تعمیروترقی کے آداب ورموز سکھائے جاتے ہیں، اس طرح ڈاکٹرازہری کو خالص دینی ماحول، پھرمصر کا آزاد ماحول نیز علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کا ؂


کاسنجیدہ تعمیری وتحقیقی ماحول میسرہوا، اس طرح مختلف رنگوں کے ملنے سے ان کی شخصیت قوس وقزح میں ڈھل گئی، مختلف منبع خیال دریاؤں کے دھاروں کے ملنے سے ان کی شخصیت ایک جھیل کی شکل اختیار کرگئی تھی،جس میں ہررنگ وبولی کے پرندوں کے بسیرے کی وسعت تھی، وہ کسی حد تک قدیم وجدید کے سنگم کہے جاسکتے تھے، وہ عصری ماحول ومزاج اور اس کے مسائل کاادراک رکھتے تھے، مختلف ماحول میں پرورش وپرداخت وخوشہ چینی کا اثرتھا کہ وہ ابلہ مسجدتھے نہ تہذیب کے فرزند بلکہ وہ ایک تجربہ کارمفکر اوربحرعلم وتحقیق کے شناور،معیاری صحافت کے علمبردار ،تحریک اصلاح نصاب کے بابصیرت قائد، بالغ نظر منتظم اورصف اول کے رہنماتھے بقول علامہ اقبالؒ ؂
نابے چہ باید مردرا طبع بلندے مشرب نالے دل گرمے، نگاہ پاک بینے، جان بیتابے
ان کے عمل پیہم اورمثبت تحریک کے پہلو کواجاگر کرنے کے لئے چارنقاط پر مختصرخامہ فرسائی کروں گا(۱)تعلیم وتربیت (۲)صحافت(۳)تصنیف وترجمہ(۴) تعلیمی ودعوتی سمینار وکانفرنس۔
(۱)تعلیم وتربیت:۔موصوف ازہری رحمہ اللہ کی زندگی تعلیم وتربیت کے میدان میں گذری، ان سے ہزاروں خوش نصیب طلبہ نے استفادہ کیا، درس وتدریس کا ان کا خاص انداز تھا، وہ زیردرس موضوع پرتوجہ مرکوز رکھتے تھے، افہام وتفہیم کا بھرپور ملکہ انھیں حاصل تھا، طلبہ کے ذہنوں میں مضمون اتارنے کی مہارت انھیں حاصل تھی، چونکہ وہ عربی کے ان چند ادباء میں سے تھے جن کے وجود پر ہندوستان کوناز تھا اوروہ انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں ،اس لئے اکثرعربی ادب کے مضامین ہی وہ اپنے زیردرس رکھتے تھے۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے طلبہ وفارغین کوایک بڑا امتیاز یہ حاصل رہاہے کہ وہ فصیح عربی بولنے ولکھنے پربڑی حدتک قدرت رکھتے ہیں اوران میں ایک اچھی خاصی تعداد توایسی ہے بھی جسے عربی پربڑا عبور حاصل ہے، وہ کج مج زبان کے بجائے عربی میں اعلیٰ ومعیاری انشاء پردازی کرتے ہیں، ان کے قلم سے نکلے ہوئے جملے ڈھلے ڈھلائے ہوتے ہیں، ان میں ادب کی چاشنی اورعربیت کی لطافت ہوتی ہے، ان کی قلمی کاوشیں،عربی میں مضامین ومقالات اس دعوے پرشاہدہیں، اسی طرح کانفرنس و سمیناروں میں ان کے لکچرس وخطبات واناؤنسری، بروقت تجزیئے وتبصرے ان کی عربی قوت گویائی پردال ہیں، یہ ثمرہ ہے جامعہ سلفیہ کے ادبی ماحول اوردرس وتدریس میں عربی ادب وانشاء پرخصوصی زور کا، یہ ماحول بنانے میں جہاں وہاں کی انتظامیہ،ماہرفن اساتذہ کا دخل ہے وہیں اس میں محترم ازہری رحمہ اللہ کا بڑا حصہ ہے، موصوف صرف عربی درسیات سے ہی دلچسپی نہیں لیتے تھے بلکہ طلبہ کو عربی سکھانے اورٹریننگ دینے میں اہم رول اداکرتے تھے، چنانچہ جس زمانہ میں ،میں جامعہ سلفیہ میں زیرتعلیم تھا موصوف اکثرعربی خطابت کے شعبہ میں صدارت کے لئے اپنا وقت دیتے تھے، مقررین کی تقریروں کو بغورسنتے، غلطیوں کونوٹ کرتے، آخر میں تقریروں پرتبصرہ کرتے، غلطیوں کی نشاندہی کرکے ان کی اصلاح کرتے، الفاظ،افعال کے مناسب استعمال کا موقع بتاتے ، جدید عربی سے روشناس کراتے، ایک مرتبہ میں نے خود سے عربی میں تقریر تیار کرکے بیان کیا، اس تقریر میں حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کاذکر اورکانگریسی حکومت پرنکتہ چینی تھی توانھوں نے بھانپ لیا اورکہا لگتاہے کہ خودہی سے تیار کیاہے ،بہرحال بڑے مناسب ومفید انداز میں تبصرہ واصلاح کیا، ان کی صدارت کا انداز وقت گذاری اوررسمی خانہ پُری کاہرگز نہ ہوتا، بلکہ پوری یکسوئی ودلچسپی کے ساتھ جم کربیٹھا کرتے تھے اورپوری کوشش کرتے کہ طلبہ میں بے تکلف وبے جھجھک بولنے ولکھنے کاملکہ پیداہو، یہی نہیں بلکہ انجمن کے ہفتہ واری پروگراموں کے علاوہ بعدنماز عصر کبھی کبھار مجلس کا انعقاد کراتے، اس کا طریقہ یہ ہوتا کہ پہلے سے کسی موضوع کا اعلان کردیتے، باذوق طلبہ تیاری کرکے شریک ہوتے،کوئی طالب مرکزی خطاب کرتا اس کے بعدمباحثہ ومناقشہ شروع ہوتا ،طلبہ اس پراظہار خیال کرتے، جب کسی طرف سے کوئی آواز نہیں آتی تووہ خود ہی سامنے یادائیں وبائیں متوجہ ہوکر انھیں بولنے اورکچھ کہنے کی ترغیب دیتے اورسوالات کے لئے ابھارتے، مقصد یہ تھاکہ لڑکے پوری آزادی کے ساتھ کھلے ماحول میں سوال وجواب کریں تاکہ عربی زبان میں نکھار آئے، میرا احساس ہے کہ اس طرز تربیت سے ہم لوگوں کوبڑا فائدہ ملتاتھا،چونکہ وہ ایک ماہرتعلیم، درسیات کے رموز اورنصاب تعلیم کی خوبیوں ،خامیوں پرگہری نظر رکھتے تھے، جامعہ سلفیہ کے نصاب کو معیاری ونفع بخش بنانے میں قابل قدر کوشش صرف کی، نصاب تعلیم میں رائج کچھ قدیم کتابیں جو عصری اسلوب تعلیم سے میل نہیں کھارہی تھیں ان کو خارج کراکے جدید کتابیں داخل کرائیں، کچھ کتابیں جو مطول تھیں خودہی ان کا اختصاروانتخاب تیار کیا اورانھیں ادارۃ البحوث الاسلامیہ کی طرف سے شائع کراکے داخل نصاب کیا ،علامہ سیدنواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمہ اللہ کی حصول المامول،مشہور مصری ادیب احمدحسن زیات کی تاریخ الادب العربی کو بطورمثال ذکرکیا جاسکتاہے۔
برصغیر کے مدارس عربیہ میں جوکتابیں شامل نصاب ہیں ان میں سے بہت سی کتابیں زمانہ کے لحاظ سے اپنی افادیت کھوچکی ہیں کچھ کتابیں ایسی ہیں جوعصری طریقہ تعلیم سے میل نہیں کھارہی ہیں ،کسی بھی چیز میں جمودنہیں ہے ساری چیزیں متحرک ونموپذیر ہیں، اب طریقہ تعلیم میں بھی بہت کچھ بدلاؤ آچکا ہے ،ازہری صاحب نے اس کوشدت سے محسوس کیا، جماعتی سطح پر ارباب مدارس علماء وفضلاء کو اس موضوع پرغور وخوض کے لئے اصلاح نصاب کے بینرتلے جامعہ کے اندرمدعو کرکے اجلاس کیا اورمناسب بحث ومباحثہ اورگفتگو کے بعدتجاویز وسفارشات مرتب کرایا، غالباً اس قسم کی کوشش دومرتبہ ہوچکی ہے اس طرح ازہری صاحب مثبت وصالح انداز فکر وتحریکی رجحان رکھتے تھے۔
(۲)صحافت:۔صحافت بالخصوص عربی صحافت میں انھیں بڑا مرتبہ حاصل تھا، ۱۹۶۹ء ؁ میں جامعہ سلفیہ کی جانب سے عربی مجلہ بنام’’صوت الجامعہ‘‘ نکالنے کا فیصلہ ہواتوذمہ داران جامعہ کی نظر انتخاب آپ ہی پرپڑی، جماعت کی طرف سے یہ پہلا عربی مجلہ تھاجس کے اجراء کا فیصلہ ہواتھا، اس کے لئے مطلوبہ معیار بنانا اورمرکزی تعلیم گاہ کے شایان شان اس کوچلانا، عرب دنیا میں جامعہ وجماعت اہل حدیث کی عربیت کے معاملہ میں وقار قائم رکھنا ایک مشکل کام تھا، ازہری صاحب اس امتحان وآزمائش میں کھرے اترے اورذمہ داران کا یہ انتخاب بارآورثابت ہوا، ڈاکٹرصاحب نے پوری ذمہ داری کے ساتھ پورے چالیس سال اپنی آخری سانس تک اس کو انجام دیا، قانونی پیچیدگیوں انتظامی دشواریوں کامقابلہ کرتے ہوئے پوری شان وبان کے ساتھ اس کو نکالتے رہے اوروقت پرنکالتے رہے، وقت بے وقت کا سوال پیدا ہی نہیں ہوا، مجھے یہ تونہیں معلوم کہ کب اورکیا پریشانیاں پیداہوئیں لیکن ناموں کی تبدیلی سے اس نتیجہ پرپہونچا کہ ضرورکچھ موانع ہیں، ایک عرصہ تک ’’صوت الجامعۃ‘‘ کے نام سے نکالا، پھر’’مجلۃ الجامعۃ السلفیۃ‘‘کیا، پھر ’’صوت الامۃ‘‘ کے نام سے نکالا جواب تک جاری ہے۔
رہی بات مضامین ومقالات کی تووہ بحث وتحقیق، انشاء پردازی، مقالہ نگاری کے اصول وضوابط پرپورے کھرے اورکامل عیار ہوتے تھے، کم عیار وکھوٹے نہیں ہوتے کہ اہل علم ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں، ان میں منہجیت ومعیار ہوتاتھا، وہ عقائد صحیحہ کے بیان، عقائد فاسدہ وخیالات باطلہ کے ردوابطال، اسلام کے محاسن وخوبیوں، دینی احکام ومعاملات کی تفہیم وتشریح، ان کی معنویت اوررموز ونکات پر مشتمل ہوتے تھے ،اسی طرح اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں اورمنہج سلف ومسلک محدثین کے خلاف پیداہونے والے اعتراضات وشبہات ورکیک حملوں کا دنداں شکن ومسکت جوابات ہوتے تھے، حالات حاضرہ سے متعلق سلگتے مسائل کے جائزہ وتبصرے پر محیط ہوتے تھے، اسلامی تاریخ کی اہم علمی ودعوتی شخصیات وان کے کارناموں کے تعارف کی سنجیدہ تحریریں ہوتی تھیں، ان مضامین ومقالات کے حسن انتخاب وترتیب میں ازہری صاحب کی علمی بصیرت، جماعتی ومسلکی غیرت اورصحافتی بیدارمغزی کاجوہر کارفرماہوتاتھا، اصحاب قلم سے تعلقات قائم کرنے میں گوہر جگمگاتاتھا، یہ مضامین ومقالات اوررشحات قلم عالم اسلام وعالم عرب کی نہایت نمایاں وچوٹی کی علمی ودینی شخصیات کی ہواکرتی تھیں، غورکیجئے !سماحۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ ،علامہ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی رحمہ اللہ، فضیلۃ الشیخ محمدبن عبداللہ السبیل حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ الدکتور صالح بن غانم السدلان، فضیلۃ الشیخ دکتور ضیاء الرحمن حفظہ اللہ،فضیلۃ الشیخ علی الشبل حفظہ اللہ یہ ایسے نام ہیں کہ ان کی علمی وجاہت ومعتبریت کازمانہ قائل وگواہ ہے، یہ آسمان علم وفضل ،دعوت وارشاد کے آفتاب وماہتاب ہیں، ان حضرات کی تحریریں مجلہ کی زینت ہواکرتی تھیں، اسی طرح ہمارے برصغیر کے صف اول کے نامورومستند اصحاب قلم۔ بلاد عرب میں مقیم یا اپنے وطن میں سرگرم عمل۔ کے قلمی جواہر پاروں سے مجلہ کے صفحات جگمگاتے تھے بطورنمونہ چند نام یہ ہیں گرامی قدرحضرت مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی حفظہ اللہ (صدرمرکز ابوالکلام آزاد نئی دہلی) حضرت مولاناصفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ،حضرت مولاناعبدالوحید رحمانی رحمہ اللہ (سابق شیخ الجامعہ) ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی حفظہ اللہ(مکہ مکرمہ) فضیلۃ الشیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ (کویت) ڈاکٹر محمد عزیرشمس حفظہ اللہ (مکہ مکرمہ)ڈاکٹر عبدالعلی ازہری حفظہ اللہ(لندن) فضیلۃ الشیخ عبدالقیوم بستوی حفظہ اللہ (قطر) ڈاکٹر عبدالرحمن پریوائی حفظہ اللہ( ریاض) فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ علیگڈھ ،فضیلۃ الشیخ عبدالکریم محفوظ(بنگال) شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمدوغیرہ۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کے مقالات واداریئے بذات خود بڑے باوزن وبصیرت افروز ہواکرتے تھے جوہزاروں صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں وہ ان کے ذریعہ ہندی مسلمانوں کے مسائل ومشکلات سے اہل عرب کو آشناکراتے تھے، اہل عرب کے مسائل وخیالات ونظریات کے تئیں ہندی مسلمانوں کے احساسات وجذبات یاتائید وتوثیق کو ان تک پہونچاتے تھے، عرب علماء کے افکار وخیالات اورقلمی شہ پاروں سے ہندوستان کے علماء وعربی داں کو واقف کراتے تھے، غرضیکہ آپ کی ادارت میں نکلنے والا یہ پرچہ ہند وعرب کے مابین ایک مضبوط ومستحکم پل کاکام دیتا تھا۔
محترم ازہری رحمہ اللہ کے اداریوں پراگرایک نظر ڈال لیں توان سے ان کی اہمیت وقیمت کاپتہ چلتاہے کہ وہ وقت کے نازک وحساس گوشوں پرخامہ فرسائی کرتے تھے اوران کے مالہ وماعلیہ کوپورے شرح وبسط کے ساتھ لکھتے تھے جس سے قاری اس کا ادراک کرلیتا، خلاصہ یہ کہ یہ اداریئے بصیرت افروز ،برمحل ومبنی برحقائق اورچشم کشا ہوتے تھے، چونکہ ان کی زبان عربی ہے لہذا ہم ان کے اقتباسات دینے سے گریز کررہے ہیں اورمع ترجمہ ومتن دیناباعث طوالت ہے صرف ایک اقتباس مع ترجمہ پراکتفا کررہے ہیں:
۱۴۰۹ھ ؁ میں ایران نے اپنے فوجیوں کوحجاج کی شکل میں مکہ مکرمہ بھیج کرگڑبڑکرایا، ان کے ذریعہ کئی بم دھماکے ہوئے ،بلدامین میں بدامنی وخوف پھیل گیا اورحج کا تقدس خطرے میں پڑگیا، بہت سے بے گناہ مسلمان جاں بحق ہوگئے ،سعودی گورنمنٹ نے بڑی حکمت ودانائی کے ساتھ اس فتنے کامقابلہ کیا اس کی تفصیل کایہ موقع نہیں، مجرمین میں سے ۱۶کو عدالتی فیصلہ کے بموجب سزائے موت دی گئی، ضرورت تھی کہ سعودی گورنمنٹ کے اس عمل وکارروائی کی تائید کی جائے، چنانچہ جامعہ سلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ کی طرف سے تائید ی ٹیلیگرام گیا، ازہری صاحب نے اس واقعہ پر اداریہ لکھا جس کا عنوان قائم کیا’’ھکذا تخمد الفتنۃ‘‘ یعنی فتنہ کی آگ اس طرح بجھائی جاتی ہے، موصوف نے اس مضمون میں ایران کے شیعی انقلاب کے تعلق سے جماعت اہل حدیث اورجامعہ سلفیہ بنارس کے موقف کاذکر کرتے ہوئے لکھا:
اصرح بأن الجامعۃ السلفیۃ منذ أن تأسست کانت۔بعون اللہ وتوفیقہ۔ علیٰ بصیرۃ تامۃ فی أمر ھولاء الضالین، ولذلک رکزت فی موتمراتھا ومنشوراتھا علی العنایۃ بتصحیح عقائد المسلمین وتبصرھم باحوال الفرق الضالۃ والطوائف المنحرفۃ التی حاولت النیل من الإسلام والمسلمین فی کل زمان ومکان،حتی یعرف المسلمون أھداف المنحرفین ویاخذوا حذرھم من الفتن والشرور التی تثار ضدھم فی مجالات الدین والسیاسۃ والاجتماع والاقتصاد.
نحمداللہ تعالیٰ علیٰ أن الجامعۃ السلفیۃ لم تضم صوتھا قط إلیٰ أصوات الجماعات التی بارکت ثورۃ إیران وظنت انھا ثورۃ إسلامیۃ، وأن اتباع الخمینی برزوا إلی الساحۃ لاقامۃ الحکومۃ الالٰھیۃ.
ترجمہ: میں صراحت کررہا ہوں کہ اللہ کی توفیق ومددسے جامعہ سلفیہ کو اپنے قیام ہی سے ان گمراہیوں کی بابت مکمل بصیرت حاصل ہے، بنابریں اس نے اپنی کانفرنسوں ومطبوعات میں مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح وچشم کشائی کے لئے اسلام سے ان منحرف گمراہ فرقوں پرتوجہ مرکوز کیاہے جن فرقوں نے ہرجگہ وہرزمانے میں اسلام ومسلمانوں پردست درازی کی ہے تاکہ ان گمراہوں کے ٹارگیٹ سے واقف رہیں اوران فتنوں سے ہوشیار رہیں جوان کے خلاف دینی، سیاسی، سماجی واقتصادی میدانوں میں ابھارے جارہے ہیں۔
الحمدللہ جامعہ سلفیہ نے کبھی بھی اپنی آواز ان جماعتوں کی آوازوں کے ساتھ نہیں ملایا جنھوں نے ایرانی انقلاب کو مبارک گردانا اوراسے اسلامی انقلاب سمجھا نیز خمینی اوراس کے پیروکاروں کو حکومت الٰہیہ قائم کرنے والا خیال کیا۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے لکھتے ہیں:
وضمن الإجراٰت الرادعۃ التی قامت بھا حکومۃ خادم الحرمین الشریفین ضدالمجرمین الذین عبثوا فی البلد الحرام ایام الحج وقاموا بتفجیرات عدیدۃ لترویح ضیوف الرحمن وإزھاق أرواحھم:إعدام(۱۶) من المجرمین الذین ثبتت جریمتھم بالقضاء الشرعی وتم اعترافھم بالجریمۃ وبکونھم مستخدمین من الفءۃ الباغیۃ المفسدۃ للإلحاد فی الحرم الشریف۔(صوت الأمۃ جمادی الأولیٰ ۱۴۱۰ھ)
ترجمہ: دوران حج بلدامین میں جن مجرموں نے متعددبم دھماکے کئے تھے جن سے اللہ کے مہمانوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں ان کے خلاف خادم حرمین شریفین کی حکومت نے جودرست کارروائیاں کیں اس میں ان سولہ لوگوں کی سزائے موت بھی ہے جن کا جرم عدالت کے ذریعہ ثابت ہوگیا اورانھوں نے خود اس کا اقراربھی کیا کہ حرم شریف میں فساد والحاد برپا کرنے کے واسطے ان کا استعمال ہوا۔
ازہری صاحب نے اپنی خداداد صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے اسلامی صحافت کومعیاری وبامقصد بنانے کے لئے بھی جدوجہد کی، چنانچہ اس سلسلہ میں بھی دوصحافتی مجالس کا انعقاد ہوا، جس میں سے ایک جامعہ سلفیہ بنارس میں ہوا، اس پروگرام میں بھی موجودہ صحافت کاجائزہ لے کر اس کی خامیوں کودورکرنے اوراس کوبہتر سے بہتر سمت دینے کی تجاویز پاس ہوئیں، اس پروگرام میں بھی آں رحمہ اللہ نے اپنا کر دار انجام دیا، دوسرا پروگرام غالباً مؤ میں ہواتھا اس میں بھی شرکت وشمولیت رہی۔
تصنیف وترجمہ:۔علامہ ازہری ایک بہترین ومعتبر قلم کارتھے، ان کے نوک قلم میں دریا کی روانی بادصبا کی سبک خرامی، نسیم سحر کی خنکی، موسم بہار کی تازگی وشادابی، گلوں کی خوشبو وتازگی تھی، آفتاب نصف النہار کی روشنی اوربدرکامل کااجالاتھا، ان کی تحریریں فکرانگیز وپیغام آفریں، دل آزاری ومنفی رجحانات سے دورہواکرتی تھیں بقول علامہ اقبالؒ ؂
میری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے
کسی سے شکوہ نہ ہوزیرآسماں مجھ کو
قلم کا انھوں نے برمحل استعمال کیا اورپوری زندگی رواں دواں رہا جس سے جماعت اہل حدیث واسلامیان ہند کی لائبریریوں کو بصورت تصنیف وترجمہ ۲۴ کی تعداد میں گرانمایہ ہدیہ عطا کیا، ہمارے اس زمانے میں متعدد ایسے لوگ ہیں جوبے پناہ قلمی قوت کے مالک ہیں لیکن وہ اس کا استعمال نہیں کررہے ہیں یا کرتے بھی ہیں توبہت کم، لیکن ازہری صاحب نے اپنی وقیع تالیفات کے ذریعہ جماعت کووقار بخشا اور کتابوں کی نمائش ومیلے میں ایک پوزیشن دی۔
یہاں یہ پہلو واضح کروں کہ ان کی تصنیفات وترجموں میں خاص معنویت ،ومقصدیت ہے، وہ یہ کہ یا تواس سے تعلیمی وتدریسی میدان میں کوئی خلاء پرہوتا ہے یا سلف کے عقیدہ ومنہج کی ترویج واشاعت ہورہی ہے ساتھ ہی عالم عرب کوبرصغیر کے ناموروسرتاج علماء کے افکار وتحقیقات علمیہ سے متعارف کرانا پیش نظرہوتاہے، غورکریں انھوں نے منتخب کیا توتاریخ ادب عربی کو اوردیکھتے دیکھتے تاریخ ادب عربی کے نام سے پانچ جلدیں منظر عام پہ آگئیں، اسلام کا دفاع کرنے کے لئے خاتون اسلام جیسی عمدہ تالیف لطیف مرتب کیا، اسی طرح تربیت اولاد جیسے موضوع پروالدین کوایک تحفہ دیا،جس میں بچوں کی عمر ونفسانیات کالحاظ کرکے تربیت کے آداب دگربتائے، تراجم پرنظر ڈالئے توحضرت مولانا محمداسماعیل سلفیؔ گجرانوالہ رحمہ اللہ کی تحریک آزادی فکر اورشاہ ولی اللہ کی مساعی کاترجمہ ’’حرکۃ الانطلاق الفکری وجھود الشاہ ولی اللہ‘‘کے نام سے، حضرت مولانا عبدالسلام صاحب مبارکپوری کی سیرۃ البخاری اورعلامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری کی رحمۃ للعالمین جیسی حب رسول میں ڈوبی ہوئی کتاب کاترجمہ کیا،بلاشبہ یہ ایسی کتابیں ہیں جن کی نظیر کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی، ان کتابوں سے برصغیرسے باہری دنیا بالخصوص اہل عرب اوراردو سے ناواقف دنیاکے اہل علم کی آنکھیں ان کے مطالعہ سے روشن ہوئی ہوں گی اوربرصغیر کے علماء کا علمی وزن اوراعتقادی وفکری پختگی وبالغ نظری کالوہا تسلیم کیا ہوگا، غرضیکہ ترجمہ کا یہ کام ایک مثبت ومفید تحریک تھی جس کوانھوں نے آگے بڑھایا۔
کانفرنس وسمینار:۔جامعہ سلفیہ کے پہلے ناظم اعلیٰ مولاناعبدالوحید صاحب سلفی ایک باعظمت،باحوصلہ ،بابصیرت واعلیٰ انتظامی دماغ کے آدمی تھے انھوں نے جماعتی ومسلکی مصالح کے مدنظر اپنی زندگی میں کانفرنس،سمینارومذاکرے کروائے ،پروگراموں کامنصوبہ توموصوف ہی بناتے رہے ہوں گے لیکن اس کے خاکوں میں رنگ بھرنے کاکام ڈاکٹر ازہری ہی کیاکرتے تھے،دورے کرنا، اہم شخصیات سے روابط بنانا انھیں شرکت پرآمادہ کرنا یہ سب کام وہی کرتے تھے،مجھے کوئی ان پروگراموں کی تاریخ لکھنانہیں ہے بلکہ مقصدیت دکھانا ہے ،جامعہ سلفیہ نے ۱۹۸۰ء ؁ میں ایک عظیم الشان تاریخی کانفرنس مؤتمرالدعوۃ والتعلیم کے نام سے منعقد کی، اس کانفرنس کاموضوع اتنا شاندار تھاکہ کوئی بھی باشعورآدمی اس کی اہمیت ومعنویت کاانکارنہیں کرسکتا تھا، سوچئے تعلیم ودعوت یہ دوبنیادی چیزیں ہیں جن کے بغیرکوئی قوم من حیث قوم زندہ نہیں رہ سکتی اورنہ امت کاکوئی مستقل تصورقائم ہوسکتاہے، اس کانفرنس میں امام وخطیب حرم مکی فضیلۃ الشیخ محمدبن عبداللہ السبیل کی تشریف آوری سے چارچاند لگ گیاتھا۔
اسی طرح مختلف اوقات میں ،موسم ثقافی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی حیات وخدمات ،علامہ نواب سید صدیق حسن خاں بھوپالی کی حیات وخدمات پرسمینار ہوئے جس میں ازہری صاحب کابڑا رول رہا۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنسوں یعنی ۱۹۹۵ء ؁ میں بمقام مؤ، ۲۰۰۴ء ؁ میں بمقام پاکوڑ جھارکھنڈ ،۲۰۰۸ء ؁ میں بمقام دہلی کوآپ نے بحیثیت صدر استقبالیہ کمیٹی ہرطرح کامیاب بنانے کی سعی بلیغ فرمائی اورخطبہ استقبالیہ سے جمعیۃ کو تقویت پہونچانے کے ساتھ احباب جماعت کومناسب پیغام دیا۔
خلاصہ کلام اینکہ ان کی زندگی جہد مسلسل، عمل پیہم، حرکت وتحریک سے عبارت تھی، ایسا عمل اورایسی حرکت جس سے موجودہ اورآنے والی نسلیں مستفید ہوں۔
ایسی بامقصد وباکمال شخصیت کی جدائی علمی وجماعتی سطح پر بہت بڑانقصان ہے، اللہ پاک سے دعاہے کہ ان کے درجات بلند کرے اورانھیں جنت الفردوس میں جگہ بخشے۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment