Wednesday, June 16, 2010

فکروفن کا شہسوار ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ apr-june 2010

مولانا محمدنسیم محمدیونس مدنیؔ
رئیس مرکزالسنۃ،ایکلا ،نیپال
فکروفن کا شہسوار ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ
ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ کے ایک باکمال استاذ ومربی ووکیل الجامعہ توتھے ہی ساتھ ہی ساتھ تصنیف وتالیف، تراجم وبحوث ومقالہ نگاری میں آپ کو دست گاہ کامل حاصل تھی، آپ بڑی بڑی کانفرنسوں ، سمیناروں، جلسوں میں شریک ہوتے اورعلم وعرفان کے دریا بہاتے تھے گوکہ آپ کے اندرخطیبانہ کروفرنہیں تھالیکن پُرسکون اورسنجیدہ سامعین کے لئے اپنی تقریروں میں اعداد وأرقام میں علم کے موتی لٹاتے تھے اورسمندر کو کوزے میں بند کردینے کا آپ کے اندر خاصا ہنرتھا۔
ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ ایک عظیم دانشور، مفکر اوربالغ نظرصحافی تھے آپ کا رہوار قلم عموماً ملی مسائل پررواں دواں رہتاتھا، ملت کا درد آپ کے رگ وریشہ میں پیوست تھا، آپ بلا تردد اوربلاخوف لومۃ لائم صحیح اورحق بات مدلل سپردقلم فرماتے تھے،ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے ہزاروں مقالات ومضامین لکھنے کے علاوہ دسیوں کتابیں تصنیف کیں اوربعض ناموراہل حدیث مصنفین کی گراں قدر علمی کتابوں کے ترجمے بھی کئے، ذیل میں ان میں سے بعض پر اپنے خیالات کا اظہارکرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
(۱)سیرۃ النبیﷺ پرمنفرد، بے نظیرکتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ جس کے مؤلف علامہ قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری رحمہ اللہ ہیں،کتاب بے مثال شہرت یافتہ اورمقبول خاص وعام ہے،فاضل مؤلف رحمہ اللہ نے حب رسول ﷺ میں ڈوب کر یہ کتاب تحریرفرمائی ہے کہ بہت سارے افاضل نے اسے سیرت کے موضوع پر اردوزبان میں شاہکار اورموثر ترین کتاب قراردیا اس وقیع اورقیمتی کتاب کو ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے بڑی عرق ریزی اور محنت شاقہ کے بعدعربی کے قالب میں ڈھالاہے، آپ کے پیش نظرصرف یہی بات رہی ہوگی کہ سیرت رسولﷺ سے متعلق اس محقق اورمہتم بالشان کتاب سے اہل عرب بھی خوب خوب استفادہ کرسکیں۔
(۲)اسی طرح علامہ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’تحریک آزادئ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی‘‘کاعربی زبان میں ترجمہ’’حرکۃ الإنطلاق الفکری وجھودالشاہ ولی اللہ المحدث الدہلوی‘‘کے نام سے ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے کیا ،یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے کیونکہ مقلدین امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حنفی مقلدیت کی تجدید کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ عاملین حدیث اورمتبعین سنت کا جینادشوارتھا وہ آمین بالجہرکی پاداش میں مسجدوں سے گھسیٹ کرنکال دیئے جاتے تھے، تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ اورتحریک کی بنیاد پران کی انگلیاں کاٹ لی جاتی تھیں قال اللہ وقال الرسول ﷺ کے بجائے لوگوں کی زبان وقلم سے قال الإمام الفلانی قال فلانکی ہی ادائیگی ہوتی تھی، ایسے حالات میں تقلیدی جمود سے اوپر اٹھ کر کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ کے لئے راہ ہموار کرنا اوران کی بالادستی کے لئے آواز بلند کرنا محدث دہلوی رحمہ اللہ ہی کی جرأت اورہمت کی بات تھی، اس حقیقت کو نہایت خوبصورت شگفتہ انداز میں امت اسلامیہ کے لئے بطورتحفہ پیش کیاہے علامہ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے اوراہل علم واہل عرب کے استفادہ کے لئے اسے عربی قالب میں ڈھالا ہمارے ممدوح علامہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ نے مقصدبالکل عیاں اورواضح ہے کہ ملت اسلامیہ صحیح فکر اوراتباع سنت مصطفی ﷺ کی پابند ہوکرعظمت رفتہ پھرسے حاصل کرے اوربغیر اس کے ؂
ایں خیال است ومحال است وجنون
(۳)ڈاکٹرصاحب کے مقالات مفاد ملت سے وابستہ ہوتے تھے انھیں پڑھ کرآپ کے اندر ملت کے تئیں جودرد تھا محسوس کیاجاسکتا ہے آپ موضوع کا پورا پورا حق اداکرتے تھے اورکسی طرح کی مجاملت سے کام نہ لیتے تھے، آپ کے چند مقالات کے عناوین کچھ اس طرح ہیں:
۱۔حقوق انسانی کا تحفظ اوربڑی طاقتوں کی آویزش۔
۲۔ ملی ترقی کے تقاضے۔
۳۔ عصرحاضر میں اسلام کا تعارف تقاضے اورامکانات۔
۴۔ انسانیت کی بہی خواہی ہمارا فرض ہے۔
۵۔انسانیت کی بے کسی اسلحہ کی عالمی تناظرمیں۔
۶۔ نبی رحمتﷺ اورحقوق نسواں۔
اس آخرالذکر مقالہ میں آپ رقمطراز ہیں کہ ’’یوں تویہ عنوان ملت کی تاریخ میں ہمیشہ ہی زندہ اورمعرکہ آراء بنارہا ہے لیکن آج اس کی اہمیت ومعنویت میں مزید اضافہ ہوگیاہے، شاہ بانوکیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ جب سے صادر ہوا اوراس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے اپنے رد عمل کا اظہارکیا، اسی وقت سے اس مسئلہ میں دلچسپی رکھنے والے بہت سے وہ لوگ جنھیں اسلامی احکام کی براہ راست واقفیت نہیں ہے اس شبہ میں پڑگئے ہیں کہ کیا عورتوں کے سلسلہ میں اسلام کا موقف منصفانہ ہے؟اوراس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو انسانی ہمدردی وبہی خواہی کے زاویہ سے دیکھاہے، نیز اسلام کے مخالفین نے اس مسئلہ پراظہار کرتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام عورت کو طلاق کے جس جزئیہ میں انصاف نہ دے سکا تھا اس کی اصلاح سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ہوگئی،کبرت کلمۃ تخرج من أفواہھم۔
اس وقیع اوراہم مقالہ میں ڈاکٹرصاحب نے انتہائی فاضلانہ انداز میں یہ ثابت کیاہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت عورتوں کے حق میں خصوصاً اورہرفرد بشرکے حق میں عموماً منصفانہ اورباعث خیرہے، اسلام میں عورتوں کا مرتبہ کیاہے اسے دلائل سے اجاگرکیا ہے۔
ایک ذیلی عنوان ’’اصل مقصود کیاہے ‘‘اس کے تحت آپ لکھتے ہیں کہ:
’’اسلام نے عورتوں کو جن حقوق سے نوازاہے ان کی اہمیت وافادیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس نقطۂ نظر اورمقصد اصلی کو پیش نظر رکھاجائے جس کے لئے اسلام نے تشریعات واحکام کا یہ وسیع ومحکم نظام قائم کیا ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کے موقف کو سمجھنا مشکل ہوگا‘‘اس کے بعدآپ نے سماجی زندگی سے متعلق قدیم وجدید زمانوں میں موجود دونظام ذکرفرمایاہے ایک وہ جس میں جنسی زندگی اوراس سے بہرہ اندوزی کو خاندان اورازدواجی رشتہ کے ساتھ مربوط رکھا گیا ہے دوسرا نظام وہ جس میں جنسی عمل اورشہوانی فعل کوازدواجی زندگی سے مربوط نہیں رکھاگیا ہے، اس تفصیل کے بعدآپ رقمطراز ہیں’’اسلام نے اپنے اعلی مقاصد کے پیش نظر اس نظام کو اختیار کیاہے جس میں اخلاقی ضوابط اورعفت وپاکبازی کے اصول کی پابندی کو اہمیت حاصل ہے اوراس نظام کا وہ مخالف ہے جس میں آزاد جنسی تعلقات اورغیر خاندانی بنیادپر زندگی بسرکی جاتی ہے‘‘۔
اس کے بعد آپ نے ان حقوق کا ذکرکیاہے جنھیں اسلام نے عورتوں کودیاہے آپ فرماتے ہیں:
’’عام انسانی حقوق میں آزادی ومساوات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لئے ہم انھیں دونوں حقوق پر مختصر روشنی ڈالیں گے‘‘چنانچہ آپ نے دینی آزادی، سیاسی وفکری آزادی، آزادئ عمل، شہری آزادی، انسانیت میں مساوات،حق زندگی میں مساوات، شرعی تکلیف میں مساوات، جزا وسزا میں مساوات، تبلیغ دین میں مساوات، تعلیم وتعلم میں مساوات، مالی حیثیت میں مساوات ان تمام کاذکر بڑے ہی فاضلانہ اورمدلل انداز میں کیاہے، اس کے بعدعورتوں کے بالمقابل مردوں کوجوبعض امتیازات حاصل ہیں انھیں ذکر فرمایاہے اورشروع ہی میں بتادیاہے کہ ان امتیازات کامقصد صرف دونوں کے فطری حالات کی رعایت ہے عورت کی تنقیص یااس کے درجہ کو گھٹانا مقصود نہیں۔
اورآخرمیں ’’بے اطمینانی کا اصل محرک‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ: ’’عورتوں سے متعلق اسلامی موقف پرجولوگ بے اطمینانی کااظہار کرتے ہیں وہ اسلامی شریعت میں مزعومہ اصلاح کی بات کرتے ہیں ان کی ظاہری صورت سے اخلاص وہمدردی کااندازہ ہوتا ہے اورعام طور پران کے سننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ صنف نازک کی حمایت میں اٹھنے والی یہ آواز اخلاص وایمانداری پرمبنی ہے اورآواز اٹھانے والا عورتوں کا مخلص ہے لیکن حقیقت حال ایسی نہیں ہوتی، صنف نازک یا پوری انسانیت کا دم بھرنے والے ایسے افراد اصل میں اپنی اسلام دشمنی کے جذبہ کو تسکین دینے اوراسلام سے انتقام لینے کے لئے یہ لبادہ اوڑھتے ہیں اوراس چال سے وہ مسلمانوں یاسادہ لوحوں کو اسلام سے متنفر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ چند باتیں تھیں جوڈاکٹر حافظ علامہ ازہری رحمہ اللہ کے تعلق سے ذکرکی گئیں، آپ کی شخصیت پوری ملت اسلامیہ کے لئے بالعموم اورمسلک اہل حدیث کے لئے بالخصوص سرمایۂ افتخارتھی جواب اس جہانِ رنگ وبومیں باقی نہ رہی لیکن آپ کا علمی سرمایہ۔ تصنیف وتالیف، ترجمہ وتحقیق، مقالات وبحوث ، نامور تلامذہ کی شکل میں ۔بہ طورصدقۂ جاریہ موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کے حسنات کوقبول فرمائے اورلغزشوں اورخطاؤں سے درگذر فرماکر جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment