Wednesday, June 16, 2010

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری اوران کی تعلیمی وفکری تربیت پر مبنی خدمات apr-jul 2010

مولانا محمدصہیب سلفیؔ
استاد جامعہ اسلامیہ خیرالعلوم ڈمریا گنج
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری
اوران کی تعلیمی وفکری تربیت پر مبنی خدمات
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمۃ اللہ علیہ اس دورقحط الرجال میں ایک جامع شخصیت کے حامل، اسلامی نظریات وافکارکے ایک عظیم اسکالر، اسلام کے ہمہ جہت مسائل پر ہروقت گفتگو کرنے والے، ایک کردار ساز، بہترین منتظم، مربی اور مشفق استاد تھے۔
ڈاکٹر صاحب ایک بڑے ہی مشفق استاد تھے، آپ کی تدریسی خدمات عظیم ہیں، تاحیات اس میں لگے رہے، جامعہ کی درسی کتابوں کے نصاب کی تیاری اورحالات کے مطابق اس میں ترمیم آپ ہی کی کاوشوں کا ثمرہ ہے، طلباء کی انجمن’’ندوۃالطلبۃ‘‘ اوراس سے شائع ہونے والے سالانہ میگزین ’’المنار‘‘پر خصوصی توجہ دیتے تھے، ذمہ دارطلباء کی تربیت کرتے تھے اوران کومفید مشوروں سے نوازتے تھے۔
طرق تدریس آپ کا بہت اچھاتھا، کبھی کہیں جھول دیکھنے کونہیں ملا، عبارت خوانی کے دوران کوئی فاش غلطی ہوتی توکبھی کبھارڈانٹتے تھے اکثر درگذرسے کام لیتے ہوئے خود تصحیح کرکے پڑھ دیتے تھے۔
سبعہ معلقہ طلباء کے درمیان ایک مشکل ترین کتاب مانی جاتی ہے آپ کا طریقۂ تدریس اس کے سلسلے میں یہ ہوتاتھا کہ سبق پڑھانے سے پہلے ہی طلباء کو حل لغات لکھا دیتے تھے تاکہ طلباء کوپڑھاتے وقت سمجھنے میں آسانی ہو، یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب آسانی سے سمجھ میں آجاتی تھی پھرکسی دوسرے استاد سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
انشاء پڑھانے کاطریقہ بھی بہت اچھاتھا، کورس کی تمرینات کے ساتھ ساتھ عربی اخبارات کی چھوٹی چھوٹی خبروں کے ترجموں کی تصحیح کرتے تھے اورطلباء اس میں آزاد ہوتے تھے۔
اورفکری طورپر آپ منہج سلف کے مطابق بچوں کی تربیت کرتے تھے، کبھی ضرورت محسوس کی توطلباء کو خطاب کرکے ان کو آگاہ کرتے تھے، آپ’’عالمی مسائل‘‘ اورخاص طورسے ’’مسائل عالم اسلامی‘‘ سے گہری واقفیت رکھتے تھے، جب کویت اورعراق کے مسئلے کولے کرخلیجی بحران پیداہوا تواس وقت جامعہ سلفیہ میں طلباء دوگروہوں میں بٹ گئے، ایک گروہ سعودیہ عربیہ اورکویت کواچھاکہتا تھا اوردوسرا گروہ عراق کو اچھاکہتاتھا، دوسراگروہ یہ کہتا تھا کہ سعودیہ عربیہ نے امریکہ سے دوستی کررکھی ہے اور امریکہ ایک عیسائی ملک ہے اورعیسائیوں اورکافروں سے دوستی حرام ہے کیونکہ قرآن میں اس سے منع کیاگیا ہے، یہ معاملہ طلباء کے درمیان بہت گرم ہوگیا، ایک دن مولانا عابدحسین صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مسجدمیں طلباء سے خطاب کیا اورطلباء کے دوسرے گروہ کے موقف کی حمایت کی اوردلیل کے طورپر سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵۱(یاایھاالذین آمنوا لاتتخذوا الیھود والنصٰریٰ اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فإنہ منہم إن اللہ لایھدی القوم الظالمین)پڑھ کر سنائی، اوریہ مجلس کسی نماز کے بعدہی منعقد ہوئی تھی اس میں ازہری صاحب بھی موجود تھے،انھوں نے سعودی عرب اورامریکہ کے درمیان موالاۃ ومحبت کے تعلق کودرست بتایا اورکہاکہ شرسے بچنے کے لئے یہ جائز ہے، اللہ نے اس کی اجازت دی ہے اس طرح کی باتیں بتائیں، اورسورہ آل عمران کی آیت نمبر۲۸(لا یتخذ المومنون الکفرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذالک فلیس من اللہ فی شیء إلا أن تتقوا منھم تقٰۃویحذرکم اللہ نفسہ وإلی اللہ المصیر)کودلیل کے طورپر پیش کیں اور شاید سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر ۷ اور۸ (عسی اللہ أن یجعل بینکم وبین الذین عادیتم منھم مؤدۃ واللہ قدیر واللہ غفوررحیم )اور(لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم أن تبروھم وتقسطوا إلیھم إن اللہ یحب المقسطین)سے بھی استدلال کیا،اس کے بعدطلباء کی ذہنی وفکری تشویش ختم ہوگئی۔
آپ ’’تحریک وہابیت‘‘اور ’’تحریک شہیدین‘‘کے بڑے مداح تھے، تحریر وتقریردونوں میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔
آفس ہویاکلاس روم یاطلباء کی کوئی مجلس اس میں طلباء کی اتنے اچھے ڈھنگ سے تربیت کرتے تھے جیسے لگتا تھاکہ اس پرعمل کرلیاگیا توبڑے سے بڑامعرکہ سرکرلیاجائے گا اورمشکل سے مشکل معاملہ چٹکیوں میں حل کرلیاجائے گا اورایسا تھا بھی، اورکبھی کبھار شریرطلباء کی سرزنش کرتے تھے تولہجہ قدرے بلندہوجاتا تھا اوران کوڈانٹتے بھی تھے اوران پر تنقید بھی کرتے تھے۔
ماحول کوپرسکون بنائے رکھنے کا بڑاخیال تھایہ اوربات ہے کہ کچھ ناعاقبت اندیش طلباء آپ کی علمی وفکری اورانتظامی حیثیت کو سمجھ نہیں سکتے تھے۔
جب بابری مسجد کامعاملہ بہت تشویشناک حدتک پہونچ چکاتھا اورجگہ جگہ فسادات ہورہے تھے توطلباء کی ایک جماعت آئی اورآپ سے کہاکہ جامعہ میں چھٹی کردیجئے تاکہ طلباء بحفاظت اپنے گھروں کو چلے جائیں، اس وقت ازہری صاحب نے طلباء کو خطاب کیا اورکہاکہ تم لوگوں کی مثال ان منافقین جیسی ہے جنھوں نے غزوۂ احزاب کے موقعہ پر کہاتھا(إن بیوتنا عورۃ وماہی بعورۃ إن یریدون إلا فرارا)۔
ایک دفعہ کی بات ہے کہ مولانا مطیع الرحمن چترویدی (یہاں)جامعہ سلفیہ بنارس میں آنے والے اور بچوں کوخطاب کرنے والے تھے، ان کاخطاب بہت لمباہواکرتا تھا اوروہ خاص طورسے تکوینی امورپر ہی تقریر کرتے تھے اوروہ طلباء میں آکریہی تقریر کرتے، طلباء کی فکری انتشار کے خوف سے ازہری صاحب نے طلباء کوخطاب کیا اورچترویدی صاحب پر ہلکی سی تنقید کی جس سے طلباء کا انتشارکم ہوا اوران کا معاملہ معمول پر آگیا۔
ازہری صاحب چاہتے تھے کہ فراغت سے پہلے پہلے طلباء یکسوئی سے پڑھیں لکھیں اورذہنی وفکری انتشار سے بچتے رہیں اورکسی دوسری تنظیمات وجمعیات کاشکار نہ ہوں، ایک اسلامی تنظیم نے بنارس میں علمی کمپٹیشن کروایا اوراس کے افراد جامعہ سلفیہ میں بھی آئے اورطلباء نے بھی حصہ لیا، ازہری صاحب کو جب معلوم ہوا توطلباء کو خطاب کیا اوراس خطاب میں کہا:’’مال ہم تیار کرتے ہیں اورمہرکوئی اورلگاتا ہے‘‘۔
ایسے ہی کوئی سمینار منعقد ہوتا اورمقالہ نگارحضرات اپنا اپنا مقالہ پڑھتے اگرکوئی مقالہ نگار منہج سے ہٹتا تو طلباء کی موجود گی میں اس مقالہ پر کبھی خود تنقید کرتے یا کسی دوسرے فاضل مقالہ نگار سے تنقیدکرواتے۔
درحقیقت ازہری صاحب بیک وقت ایک عربی ادیب اورعظیم اسکالر تھے مجلہ’’صوت الأمۃ‘‘ اوران کی دیگرعربی اوراردو تصنیفات وتراجم وتالیفات اورمضامین اس کی شہادت دیتے ہیں ،یقیناًانھوں نے طلباء اورعلماء اورعوام سب کے لئے ادبی ،علمی، فکری اور دینی خدمات انجام دی ہیں ،عوام کے لئے دینی خدمات اس طورپر کہ برابر وہ ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے تھے،اورعربی ادیب اورعظیم اسکالر اس طورپر کہ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ مختلف کانفرنسوں اورجلسوں میں شرکت کرتے تھے اورحقائق پرمبنی شواہد اوراستقرائی تحریروں سے خواص وعوام کوفائدہ پہونچاتے تھے،جامعہ سلفیہ میں میں نے اپنے چھ سالہ ۱۹۸۸۔۱۹۹۳،دورطالب علمی کے اندر میں نے دیکھاکہ مختلف موضوعات پرمتعدد چھوٹے بڑے سمیناراورکانفرنسیں منعقد کیں، سیرت طیبہ ﷺ اورابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ پرکانفرنسیں اسی دورمیں منعقدہوئیں۔
***

No comments:

Post a Comment