Thursday, June 17, 2010

ایک باوقار عالم دین ،مشفق استاد ومربی اوربااصول انسان apr-jul 2010

عبدالمنان عبدالحنان سلفیؔ
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ
ایک باوقار عالم دین ،مشفق استاد ومربی اوربااصول انسان
۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ کی شب تقریبا ۹؍ بجے میں اپنے سفرحج کے لئے لکھنؤ پہونچا ہی تھاکہ مجھے بذریعہ فون یہ اندوہناک خبرملی کہ استاذ محترم ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کا دہلی میں دوران علاج انتقال ہوگیا، میں نے فوراًجامعہ سراج العلوم سے رابطہ کرکے وہاں کے بعض احباب کو مطلع کیا اورمحترم ناظم جامعہ مولانا شمیم احمدندوی ؍حفظہ اللہ۔جو اپنے قطرکے سفرکے پیش نظر لکھنؤ ہی میں تھے۔کو اس افسوسناک سانحہ سے باخبرکیا، اس دوران بعض اوراحباب سے ٹیلیفون پر رابطہ کرتا رہا تو پتہ چلاکہ وفات کی خبردرست نہیں تاہم حالت تشویشناک ہے اورڈاکٹروں نے مایوسی ظاہر کرتے ہوئے گھرلے جانے کوکہاہے اورآپ کو بذریعہ ایمبولینس دہلی سے مؤلایا جارہاہے، یہ سن کرقدرے اطمینان تو ضرور ہوامگراندیشہ باقی رہا، اورصبح جب فجرکی نماز کے بعدمیں مسجدہی میں تھا تو میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی اور دل کسی انجانے خوف سے کانپنے لگا،سب سے پہلے مولانا عبداللہ مدنی صدرمرکزالتوحید کرشنانگر نیپال نے اورمعا بعدمولانا شہاب الدین مدنی امیرصوبائی جمعیت اہل حدیث مشرقی یوپی نے بذریعہ فون دل میں پیدا ہونے والے اندیشہ کی تصدیق کردی اور افسوس کے ساتھ بتایا کہ ازہری صاحب ابھی صبح سواپانچ بجے کا نپور کے قریب دارآخرت کی جانب کوچ کرگئے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یکم نومبرکو مدینہ طیبہ کے لئے میری فلائٹ تھی اور ۳۰؍اکتوبرہی کو حج کمیٹی پہونچ کرمجھے اپنے سفر کی کارروائی مکمل کرانی تھی، جنازہ میں شرکت کی شدید خواہش تھی، مگردرپیش سفر کے سبب کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا تھا، مولانا شہاب الدین مدنی صاحب سے ان کاپروگرام معلوم کیا توپتہ چلاکہ موصوف اپنی گاڑی سے مؤجانے کو تیاربیٹھے ہیں، میں نے جنازہ میں شرکت کے لئے جب اپنی دلی خواہش کااظہارکیا توموصوف نے فرمایا کہ میری گاڑی میں جگہ توہے لیکن آپ کے سفر کی کارروائی میں اگرخدانخواستہ آپ کی ضرورت پڑگئی تو سفرمیں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے اس لئے آپ کانہ جاناہی بہترہوگا، میں نے بعض اورمخلصین و محبین سے مشورہ کیا توانھوں نے بھی مولانا مدنی کی بات دہرائی اور میں جنازہ میں شریک نہ ہوپانے پر دل مسوس کے رہ گیا۔
۳۰؍اکتوبر جمعہ کا دن تھا، چوک کی جامع مسجداہل حدیث میں مولانا شہاب الدین مدنی اورحافظ عتیق الرحمن طیبی صاحبان کے ذریعہ میرے خطبۂ جمعہ کا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا ،میں نے دوسرے خطبہ میں اس سانحہ کاذکرکیا اورڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کے انتقال سے ملّی، جماعتی، علمی اوردعوتی سطح پرجوخسارہ ہواہے اس کی جانب اشارہ کرکے استاذ محترم رحمہ اللہ کی مغفرت اوردرجات کی بلندی کی دعاکرائی۔
جنازہ سے واپسی پر ۳۱؍اکتوبر کو بعد نماز عصرمولاناشہاب الدین مدنی نے اپنے دولت کدہ پرایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا، مجھے بھی مطلع کیا اورپہونچنے کی تاکید کی بلکہ سواری بھیج کر مجھے بلوایا، اس نشست میں استاذ محترم ڈاکٹر ازہری صاحب کی قدآور علمی شخصیت اور ان کی ہمہ جہت خدمات کاتذکرہ ہوتارہا ،تمام شرکاء نے اپنے اپنے احساسات بیان کئے اورازہری صاحب کی وفات پرسبھوں نے اپنے رنج وغم کا اظہارکیا۔
پروگرام کے مطابق میں یکم نومبر کو مدینۃ الرسول کے لئے روانہ ہوگیا، وہاں پہونچ کر جامعہ سلفیہ بنارس کے بعض فارغین سے ملاقات ہوئی، ان میں عزیز ان گرامی مولانا محمدنسیم سلفی نیپالی اورمولانا امان اللہ عبدالرؤف سلفی نیپالی قابل ذکر ہیں،انھوں نے بھی استاذ محترم کے سانحۂ ارتحال کاتذکرہ کیا، نسیم سلمہ نے بتایاکہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں جلدہی کوئی بین الاقوامی کانفرنس ہورہی ہے، ہندوستان سے جن علماء کو اس میں مدعوکیاگیا تھا ان میں ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کی قدآور شخصیت بھی تھی، ازہری صاحب نے اس مؤتمر کے لئے اپنامقالہ تیار کررکھا تھا اوراس کی تلخیص جامعہ کو بھیج بھی دی تھی مگرکسے معلوم تھا کہ وہ اصل مقالہ پیش کرنے سے قبل دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، عزیز موصوف نے یہ بھی کہاکہ کوشش کی جائے کہ ازہری صاحب کامقالہ کسی کے ذریعہ مؤتمرمیں پیش کیاجاسکے۔
اس طرح اس پورے سفرحج میں جہاں بھی اہل علم سے ملاقات ہوئی،ازہری صاحب کاذکرجمیل ضرورہوا، سبھوں نے انھیں خراج تحسین پیش کیا، ان کے حق میں دعائیں کیں اوران کی وفات کو زبردست علمی ودعوتی خسارہ قراردیا۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ اب اس دنیا میں نہ رہے ،صرف ان کے کام اوران کے تعلق سے یادیں اورباتیں ہی لوگوں میں باقی ہیں ، ضرورت ہے کہ ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ کی شخصیت اورہمہ جہت خدمات کے مختلف گوشوں کوآئندہ نسل کے لئے باقاعدہ محفوظ کیاجائے اوراس سلسلہ میں ان کے تمام متعلقین، معاصرین اورتلامذہ سے بھرپورتعاون حاصل کیاجائے، تاکہ اپنے اپنے طورپر لوگ اس’’رجل عظیم‘‘ کے سلسلہ میں اپنے تاثرات قلمبند کرسکیں جوملت اسلامیہ کے لئے عموماً اورطالبان علوم نبوت کے لئے خصوصاً مشعل راہ ہوں۔
کم وبیش ۳۵؍برسوں سے ڈاکٹرازہری صاحب سے میری واقفیت ہے،اس طویل مدت میں ۸؍برسوں تک جامعہ سلفیہ کے زمانۂ طالب علمی میں آپ کو قریب سے دیکھنے اورعالمیت وفضیلت کے مراحل میں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہوا، اورجامعہ سلفیہ سے جب ۱۹۸۲ء ؁ میں فراغت حاصل ہوئی تواس کے بعدبھی گاہے گاہے آپ سے ملاقات کاموقع ملتارہا، کانفرنسوں اورسمیناروں میں آپ سے استفادہ کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہی اورآپ کے زریں خیالات اورقیمتی تو جیہات سے مستفید ہوتارہا۔
ازہری صاحب رحمہ اللہ صرف روایتی عالم دین ،ادیب ،مفکر ،مدرس اور مصنف و مؤلف نہ تھے، بلکہ وہ ایک نسل کی تربیت کے لئے پیداکئے گئے تھے ،اس لئے قدرت نے ان کے اندر وہ تمام صلاحیتیں ودیعت کررکھی تھیں جواس مرد میدان کے لئے ضروری اورناگزیرتھیں، علمی صلاحیت تواپنی جگہ مسلّم ہی تھی۔ اوریہ خوبی تو بہتوں میں پائی جاتی ہے۔ مگرٹھوس علم، گہرامطالعہ اورطویل تجربہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مردم شناسی کی صلاحیت بھی انھیں خوب دے رکھی تھی،یہی وصف تربیت کے باب میں ڈاکٹرازہری کو ممتازمقام عطاکرتاہے۔
ڈاکٹرازہری اپنے علم وفضل، وضع قطع، لباس وپوشاک، طرزِ گفتار اورسلیقہ پسندی کے سبب باوقار شخصیت کے مالک تھے، آپ کی بارعب علمی شخصیت سے کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہ رہتاتھا، ہمہ وقت آپ کے چہرہ پرمتانت وسنجیدگی جھلکتی رہتی تھی، درسگاہ سے لے کر علمی مجلسوں اورکانفرنسوں وسمیناروں تک ہرجگہ اپنی پرکشش اورموثر شخصیت کے سبب چھائے رہتے، جامعہ کے اپنے رہائشی فلیٹ سے جب آپ اپنی آفس کے لئے نکلتے توآپ کا عالمانہ وقار پورے طورپرنمایاں رہتا، بغل میں کوئی کتاب، فائل یا مجلہ دبائے، نگاہیں نیچی کئے اورجنچے تلے قدم رکھتے جب آپ نمودارہوتے تو طلبہ سنبھل جاتے اورہرطرف سناٹا چھاجاتا۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ اپنی عزت نفس کاہمیشہ خیال رکھتے اور کبھی اسے مجروح نہ ہونے دیتے، اپنے طلبہ کو بھی اسی کی نصیحت اورتلقین کرتے رہتے، جامعہ کے اساتذہ میں بھی وہ یہ وصف دیکھنا پسند کرتے تھے، ازہری صاحب بالکل زاہد خشک نہ تھے کہ احباب کی مجلسوں میں وہ بے تکلف نہ ہوتے رہے ہوں مگراتنا ضرورہے کہ وہ پورے طورپرکبھی نہ کھلتے اورایک خاص فاصلہ درمیان میں ضروررکھتے تھے، طلبہ سے گفتگوکرتے ہوئے اکثرنگاہیں نیچی رکھتے تھے حتی کہ اگرکسی غلطی پر کسی کوتنبیہ کرتے یا ڈانٹتے توآپ متعلقہ شخص کے چہرہ پرنظر کرنے کے بجائے نگاہیں نیچی کرکے اپناکام کرجاتے ۔
میرے زمانہ طالب علمی میں بسااوقات طلبہ اپنی شوخ طبیعت کے سبب دارالاقامہ میں شوروہنگامہ کرتے، ایسے مواقع پرجب کہ نگراں اساتذۂ کرام کی ڈانٹ پھٹکار غیرموثرثابت ہورہی ہوتی، ازہری صاحب کاصرف اپنی آفس سے نکل کردارالاقامہ کی جانب نظر اٹھاکر دیکھ لینا ہی کافی ہوتاتھا، سارے طلبہ بھاگ کربلوں اور سوراخوں میں جگہ ڈھونڈھتے پھرتے اور ہرطرف خاموشی چھاجاتی، ایسا رعب ودبدبہ کم ازکم میں نے علماء واساتذہ میں نہیں دیکھاہے۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ حددرجہ نظافت پسند اورسلیقہ مندانسان تھے، صاف ستھرا لباس ہمیشہ زیب تن فرماتے، بالعموم درسگاہ اورآفس میں کرتا،پائجامہ، بال کی قدرے اونچی ٹوپی اورشیروانی پہنتے تھے، کبھی کبھار موسم کے لحاظ سے شیروانی کی جگہ صدری بھی استعمال کرتے تھے، مسجد میں نماز کے لئے آتے توفجراورعصر کے سوا دوسری نمازوں میں بھی اسی مکمل لباس میں ہوتے ،البتہ فجراورعصر کی نمازوں میں بسااوقات لنگی بھی زیب تن کئے ہوتے تھے۔
آپ کی آفس بھی بڑی مرتب ہواکرتی تھی، کتابیں ،کاغذات اورفائلیں بیحد سلیقہ سے رکھی رہتی تھیں، پہلے آپ کے دفترمیں کرسی میز نہ تھی، فرش پردری اور سفید چاندنی بچھی رہتی تھی اورآپ سامنے اونچی تپائی رکھ کربیٹھتے تھے اورپوری توجہ اورانہماک کے ساتھ اپنے علمی کاموں میں مشغول رہتے تھے، آپ اپنے وقت کا صحیح استعمال کرتے ،ہمیں محسوس ہوتاکہ آپ کے کام کا ایک نظام الاوقات ہے اورآپ کے سارے کام اسی کے تحت انجام پاتے ہیں، ٹھیک وقت پرآفس آتے اوراپنے کام میں جٹ جاتے، گھنٹی لگتے ہی کتابیں ہاتھ میں لے کر درسگاہ پہونچتے اورپوری گھنٹی طلبہ کوپڑھاتے، کلاس کا ایک ایک لمحہ طلبہ کو فیض پہونچانے میں گذارتے، غلط عبارت پڑھنے پر سخت برہم ہوتے، گھنٹی ختم ہوتے ہی سیدھے اپنی آفس میں آکرپھراپنے علمی کام میں مصروف ہوجاتے، مضامین اورکتابیں لکھتے، کمپوزشدہ کتابوں اور مضامین کا پروف پڑھتے اوردوسرے تحقیقی وعلمی امورمیں مشغول رہتے۔
ایک باوقار اوروزن دارعالم ہونے کے ساتھ ساتھ ازہری صاحب رحمہ اللہ ایک ہردلعزیز استاد اورمشفق مربی تھے، ممکن ہے کہ بعض لوگ میرا یہ جملہ سبقت قلمی یا مبالغہ آرائی پرمحمول کریں مگرمیں نے ہردلعزیز اورمشفق دونوں الفاظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کئے ہیں،آپ سے مستفید ہونے والے اکثرتلامذہ جن میں طلب علم کی سچی تڑپ اوراساتذ ہ سے کسب فیض کا نیک جذبہ تھاکم ازکم وہ تومیرے اس خیال کی تائید ضرور کریں گے اوروہ گواہی دیں گے کہ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ نہایت ہی محترم ومحتشم اورہردلعزیز تھے اورآپ کے اندرایک کہنہ مشق مدرس کے سارے اوصاف بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے، موصوف پوری دیانت داری اورخلوص کے ساتھ ہم طلبہ کی تربیت فرماتے ، درس کے علاوہ دیگر مناسب مواقع پربھی وہ ہم طلبہ کی علمی ،فکری اوردینی تربیت کے لئے کوشاں رہتے، مطالعہ میں وسعت، علم میں گہرائی وگیرائی، فکرمیں پختگی ،تخیل میں بلندی اورعمل میں جہد پیہم اورجذبۂ اخلاص پیداکرنے کے لئے ہمیں مناسب خوراک دیتے رہتے تھے، اپنے طلبہ کی قلمی رہنمائی اورحوصلہ افزائی ازہری رحمہ اللہ بڑے فراخدلانہ انداز میں فرماتے رہتے تھے، اورایسے تلامذہ جوکسب فیض کے مقصدسے آپ کے پاس آتے جاتے اورمشورہ لیتے ان سے وہ خوش بھی رہتے اوران کی بھرپوررہنمائی فرماتے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں فضیلت سال اول میں پہونچا تو نئے تعلیمی سال کے آغاز پر مجھے ندوۃ الطلبہ کی افتتاحی انجمن میں نظامت کی ذمہ داری دی گئی، ندوۃ الطلبہ کاافتتاحی پروگرام اس وقت بڑی اہمیت کا حامل مانا جاتا تھا، مختلف زبانوں میں منتخب طلبہ تقریرکے نمونے پیش کرتے تھے اور اس پروگرام میں تمام اساتذہ بڑے اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے، کسی اہم پروگرام کی نظامت کا میرایہ پہلاموقعہ تھا، اللہ کی توفیق سے میں نے اسے سلیقہ سے نبھایا جس پرتمام اساتذہ وطلبہ نے حوصلہ افزائی بھی کی، پروگرام کے اختتام کے کچھ دیر بعدازہری صاحب نے مجھے طلب کیا اورفرمایا ’’ میاں! تم نے نظامت توٹھیک کی مگرکہیں کہیں تمہید وتبصرہ میں تم نے وقت زیادہ لیا، آئندہ اس کاخیال رکھو‘‘،اورپھر میں نے یہ سبق ہمیشہ کے لئے یادکرلیا۔
غالباً اسی سال پر وفیسر یامین محمدی رحمہ اللہ جامعہ کی زیارت کے لئے بنارس تشریف لائے، یہ بڑے عالم وفاضل اوراچھے مقرروخطیب تھے، ازہری صاحب اورذمہ داران جامعہ نے ان کے استقبالیہ پروگرام کی تمام ترذمہ داری ہم طلبہ کے سپرد کردی،استقبالیہ کلمات اورمہمان گرامی کے تعارف کے لئے احباب کی نظر انتخاب میرے اوپرپڑی، میں نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے طورپرمہمان کاتعارف سلیقہ سے کرایا اورخوش آمدید اورترحیب کے منتخب جملوں سے ان کا استقبال بھی کیا، مگریہاں بھی مجھ سے چوک ہوئی اورشاید میرے تعارفی کلمات نادانستہ طورپر تعریفی جملے بن گئے، طالب علمی میں بھلاتعارف اورتعریف کے مابین فرق کی تمیزکہاں ہوتی ہے،پروگرام ختم ہوا، دوسرے روز ازہری صاحب کے دفتر میں طلبی ہوئی، یہ خبرنہ تھی کہ کس لئے بلایاگیاہے، مگرسیاق و سباق سے اتنااندازہ توہوگیا تھاکہ ضرور کوئی بات ہے ،حاضرہوا ،سلام کے بعدباادب میزکے سامنے کھڑا ہوگیا،نظراٹھاکر ایک بار میراچہرہ دیکھا اور پھرنظرنیچی کرکے اپنے مخصوص انداز میں تنبیہ فرمائی، اورپھرمجھے احساس ہواکہ واقعی میں نے تعارف کے حدودکوپھلانگ کرتعریف کے باب میں قدم رکھ دیاتھا جومعززمہمان کوبھی ناگوار خاطرگذراہوگا۔
غالباً ۱۹۸۱ء ؁ ہی میں ندوۃ الطلبہ کامعتمد صحافت مجھے منتخب کیاگیا تھا،اسی سال ازہری صاحب دوتین ماہ کے لئے خلیجی ممالک کے سفرپر تشریف لے گئے تھے، ان کی غیرموجودگی میں جامعہ کے ایک ذمہ دار استاد نے ندوۃ الطلبہ کے پروگراموں میں ایک ثقافتی و علمی پروگرام بھی شامل کردیا اوراس کے چلانے کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی، یہ پروگرام کوئی ایک گھنٹہ کا ہوتاتھا جو تلاوت قرآن،حمد؍نعت؍نظم؍ غزل، ہفتہ بھرکی منتخب تفصیلی خبروں،معلوماتی فیچرز،علمی لطائف اور انٹرویوز وغیرہ پرمشتمل رہتاتھا، اس کے پیش کرنے کا انداز ریڈیو پروگرام جیساہوتاتھا، یہ سلسلہ دلچسپ ہونے کے ساتھ بہ ظاہر مفید بھی تھا، ہرجمعہ کی شام بعدنماز عشاء یہ پروگرام دارالحدیث ہال میں منعقد کیا جاتاتھا، پروگرام میں بعض اساتذہ بھی تشریف لاتے تھے،طلبہ اس پروگرام کو اس قدر پسند کرتے تھے کہ بسااوقات امتحان کے ایام میں بھی مجھے اس کے انعقاد کے لئے مجبورکرتے، ازہری صاحب جب سفرسے واپس آئے توکسی نے اس پروگرام کے بارے میں انھیں بتادیا، پھرمیری طلبی ہوئی، اس بار توجرم کی نوعیت معلوم تھی، ہمت کرکے حاضرہوااورایک مجرم کی طرح سامنے مودب اورڈراسہما کھڑاہوگیا، استاذمحترم نے استفسارکیا ’’میاں! میں نے سناہے تم کوئی پروگرام چلارہے ہو؟‘‘ میں نے لڑکھڑاتی زبان میں مختصرجواب دیاجی!، سوال ہوا ’’اس میں کیا چیزیں پیش ہوتی ہیں؟‘‘میں نے اس کی تفصیلات بتادیں، آپ نے فرمایا ’’ٹھیک ہے ،تمہارااگلاپروگرام کب ہے؟‘‘میں نے عرض کیاکہ جمعہ کو بعدنمازعشاء،فرمایا’’ٹھیک ہے آئندہ پروگرام میں میں بھی حاضررہوں گا، جاؤ ‘‘،میں کسی طرح دفترسے باہرنکلا، احباب نے خیریت دریافت کی،میں نے کہاکہ ایک بڑا امتحان سرپر آن پڑاہے، سبھوں نے ڈھارس بندھائی اور تسلی دی ،اورپھر ہمت کرکے راقم نے بزعم خویش اپنے معاونین اوررفقاء کے تعاون سے ایک اچھا اور معیاری پروگرام ترتیب دے لیا اوراس کی مشق بھی کرادی کہ کہیں کوئی کمی یا جھول نہ رہ جائے، پروگرام کا وقت ہوا، ازہری صاحب تشریف لائے، میں نے آپ کا استقبال کیا اورپروگرام شروع کردیا، ازہری صاحب نے شروع سے آخرتک پروگرام کو غور سے سنا اوردیکھا بھی، آپ کے چہرے پرابھرنے والے نقوش سے ہم آپ کی دلی کیفیت کا اندازہ لگانے میں غلطی نہیں کررہے تھے کہ پروگرام آپ کے معیار پر پورانہیں اتررہاہے اورپھر بات وہی سامنے آئی جس وقت میں نے نہ چاہتے ہوئے استاذمحترم کو تاثرات اورقیمتی پندونصائح کے لئے زحمت دی، آپ کھڑے ہوئے جوکچھ آپ نے فرمایا اس کاخلاصہ تھا کہ اس قسم کا پروگرام میں عربی میں چاہتاہوں۔
اورپھراگلے روزمجھے دوبارہ دفترمیں طلب کرکے فرمایا ’’مولانا!ان بیہودہ کاموں میں وقت نہ ضائع کرو، میں اس پروگرام کا مخالف نہیں مگرمیں چاہتاہوں کہ اسے عربی میں کیجئے، میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیاکہ ’’طلبہ اس میں دلچسپی کم لیں گے‘‘ فرمایا’’ تب محض دلچسپی کے لئے کسی پروگرام کی نہ ضرورت ہے اور نہ گنجائش ‘‘۔
جامعہ سلفیہ بنارس کی آٹھ سالہ طالب علمی کی مدت تک ان تمام امورکا میں نے اچھی طرح مشاہدہ کیاہے اورآپ کے فیض تربیت سے بہرہ ورہوتا رہاہوں، اورمقام شکرہے کہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعدبھی استاذ محترم نے بسا اوقات راقم کواپنی عنایتوں اورتوجہات کامستحق سمجھا، اور گاہے گاہے میری رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرماتے رہے ۔
۱۹۸۲ء ؁ میں جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعدایک سال مدرسہ قاسم العلوم گلرہا ضلع بلرام پور میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد دوبرس تک راقم دہلی کے ایک تعلیمی ادارہ میں تدریسی وانتظامی خدمت انجام دیتا رہا، دوسرا سال مکمل کرکے جب رمضان کی تعطیل میں گھرآیا تواس ادارہ سے ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوا جس میں میرے مفوضہ فرائض اورکارکردگی کے تعلق سے کئی جارحانہ سوالات کرکے مجھ سے ان کاجواب طلب کیاگیا تھا، میں نے اس خط کا جواب تقریباً اُسی لب ولہجہ میں لکھ کر بذریعہ ڈاک روانہ کردیا جس اسلوب اورلب ولہجہ میں مجھے خط میں مخاطب کیا گیاتھا، اب وہاں میرا لب ولہجہ اوراسلوب موضوع بحث بن گیا، اور بالآخرذمہ داران نے اسے جارحانہ ہونے کافیصلہ صادر کردیا، ظاہرہے میں ان حالات میں وہاں کیوں کر اورکیسے رہتا؟ میں واپس اپنی پرانی جگہ آگیا، اس دوران وہاں کے سربراہ اعلی نے کسی کے ذریعہ میری اس ’’گستاخی‘‘ کی شکایت اپنے کسی معتمد شخص کے ذریعہ استاد محترم ازہری صاحب تک پہونچائی اوربطورطنز ان سے کہلایا کہ’’ کیا آپ نے ایسے ہی گستاخ شاگردتیار کئے ہیں؟‘‘ استاذ محترم نے بڑے اطمینان ووثوق سے پیغام لانے والے صاحب سے کہا کہ’’ مجھے اپنے تمام شاگردوں پر اطمینان ہے اورعبدالمنان کو تومیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ، اس سے اپنے بزرگوں کی شان میں کسی ادنی بھی گستا خی کا میں تصورنہیں کرسکتا الا کہ کوئی اوربات ہوجومیرے سامنے نہ لائی جارہی ہو‘‘اورمعاملہ یہی تھاکہ شکایت میں ادارہ کی جانب سے آنے والے جارحانہ خط کاذکرنہ کرکے ’’ پیغامبر صاحب ‘‘ نے صرف میرے جواب کا تذکرہ کیاتھا،پھر استاذ محترم نے جامعہ کے ایک ثقہ استاد کے ذریعہ کسی تعطیل میں زبانی مجھ سے اس کی وضاحت چاہی، میں نے خط اوراس کے جواب کی کاپی استاذ محترم کوروانہ کردی، خط اورمیراجواب دیکھ کر ازہری صاحب جذباتی ہوگئے اورفرمایاکہ’’ اس جارحانہ خط کے مقابلہ میں جواب میں بڑی حدتک متانت اور سنجیدگی ہے، دل میں تویہی آتاہے کہ دونوں خط چھاپ دئے جائیں تاکہ لوگ اس کا صحیح فیصلہ کرسکیں کہ جارح کون ہے اور کس کا اسلوب رعونت زدہ اور ادب وتہذیب کے منافی ہے‘‘۔
ازہری صاحب رحمہ اللہ اپنے تلامذہ پرپورا اعتماد کرتے تھے اورجہاں بھی ضرورت محسوس کرتے فوراً مناسب انداز میں رہنمائی فرماتے ، ۲۰۰۴ء ؁ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس پاکوڑ کے افتتاحی اجلاس میں ایک عرب شیخ کے خطاب کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری راقم کو سونپی گئی، شیخ موصوف نے اپنی تقریرمیں ایک تحریک کانام بہ طور مثال لے لیا جس کا ذکرہندوستان اورخاص طورسے اس کانفرنس کے تناظرمیں اہل حدیث عوام کے لئے الجھن کا سبب بن سکتا تھا، میں جب ترجمہ کے لئے کھڑا ہونے لگاتو ازہری صاحب نے اپنے خاص لب ولہجہ میں فرمایا کہ ’’ذرہ سنبھال لینا‘‘ اورمیں سمجھ گیا اورترجمہ میں اس بات کو مصلحتاً گول کرگیا، ازہری صاحب نے بعدمیں فرمایا تم نے اچھاکیا ورنہ بعدمیں ہمارے لئے مسائل پیدا ہوتے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ استاذ محترم اپنے تلامذہ کی حوصلہ افزائی بڑی فراخ دلی سے فرماتے اوران کی کسی چھوٹی اورمعمولی خدمت پربھی وہ خوشی کا اظہار کرتے اوراسے لوگوں کے سامنے بڑا بناکرپیش فرماتے، یہ ان کی نہ صرف خورد نوازی بلکہ ان کے بڑکپن کی دلیل ہے ،اس سلسلہ میں اپنا صرف ایک واقعہ نذرقارئین کرناچاہتا ہوں۔
۱۹۹۷ء ؁ میں قادیانیوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے پرپُرزے نکالنا شروع کئے اورنیپال کے بیرگنج ،براٹ نگر،پرسااوردانگ کے اضلاع میں ان کے دعاۃ ومبلغین نے غریب و نادار مسلمانوں کے ایمان کا سودا شروع کردیا،نیز انھیں ایام میں مغربی یوپی کے بعض دیہاتوں کے سادہ لوح اوراَنْ پڑھ مسلمانوں کے ’’شُدھی کرن‘‘ (دوبارہ ہندوبنانے) کی ہوش ربا خبریں آئیں تومیں نے ماہنامہ ’’السراج‘‘ کے نومبر۱۹۹۷ء ؁ کے شمارہ میں’’ہندونیپال میں فتنۂ ارتداد‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا جس میں اسلام کے خلاف رونما ہونے والے ان فتنوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو ان سے چوکنارہنے کی تلقین کی اورمسلم تنظیموں اوراداروں کو ان کے مقابلہ کے لئے صف آراہونے کی دعوت دی، اتفاقاً انھیں دنوں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ۱۲،۱۳؍نومبر۱۹۹۷ء ؁ کو ’’مؤتمر علماء المسلمین‘‘ کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں عالم اسلام کی منتخب اورعظیم علمی شخصیات نے شرکت کی، مادرعلمی جامعہ سلفیہ بنارس کوبھی اس اہم پروگرام میں مدعوکیاگیا تھا، چنانچہ استاذ محترم ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ جامعہ کے بعض ذمہ داران اوراساتذۂ کرام پرمشتمل ایک باوقار وفدکے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوئے، مؤتمرمیں گفتگو اورمناقشہ کے لئے جوموضوع منتخب کیا گیاتھا اس کے دوحصے تھے، ایک دعوت اوراس کے اسالیب کے سلسلہ میں اوردوسرا اسی سے ملتا جلتا قادیانیت اوردیگرباطل تحریکات اورگمراہ فرقوں کے استیصال جیسے اہم موضوع سے متعلق تھا، یہ دونوں موضوعات حالات حاضرہ کے پس منظرمیں بیحد حساس اوراہم تھے اور اس قابل تھے کہ تمام مسلکی اورنظریاتی اختلافات سے بلندہوکر باہمی تعاون اوراشتراک کامظاہرہ کرتے ہوئے مثبت نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی، مگر بدقسمتی سے یہ کانفرنس تنگ نظری پرمبنی سیاست کی نذرہوگئی اور ہندوستان کے طول وعرض سے صرف ایک ندوی اہل حدیث عالم دین مولانامختاراحمد ندوی رحمہ اللہ کو کانفرنس میں مختصر خطاب کاموقعہ دیاگیا، اورکانفرنس کے کسی بھی سیشن میں دعوت وارشاد اورباطل تحریکات خصوصاً قادیانیت کی تردید کے سلسلہ میں جماعت اہل حدیث کی کاوشوں کا کوئی ذکر نہ کیا گیا،جب کہ اس جماعت کی مساعئ جمیلہ ان دونوں میدانوں میں نہ یہ کہ لائق ذکربلکہ قابل قدررہی ہیں ،ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے کانفرنس سے واپسی کے بعد اپنے مجلہ ’’صوت الأمۃ‘‘ کے فروری ۱۹۹۸ء ؁ کے اداریہ میں’’مؤتمر علماء المسلمین بندوۃ العلماء فی لکنؤ‘‘ کے عنوان سے اس کی مختصر رپورٹ تحریر فرمائی اوراس پر اپنے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کااظہارکیا کہ اس مشترک مسئلہ میں بھی پورے پروگرام کے اندرکہیں جماعت اہل حدیث کاذکر آیا اورنہ ہی اس کی ان قابل قدردعوتی کاوشوں کا معمولی تذکرہ کیا گیا جواس جماعت نے برصغیر میں شرک وبدعت کی تردید اورباطل تحریکات مثلاً قادیانیت اورفتنہ انکارحدیث وغیرہ کے استیصال کے سلسلہ میں انجام دی ہے، استاذ محترم نے بڑے درد کے ساتھ یہ لکھا کہ مولانا مختاراحمد ندوی سے امید تھی کہ کم ازکم موصوف جماعت کی خدمات کواجاگر کریں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، آپ کے الفاظ پڑھ کر اصحاب علم آپ کے کرب کااندازہ کرسکتے ہیں۔
’’وکذلک کانت تأمل(الجامعۃ السلفیۃ)أن الشیخ مختاراحمد الندوی السلفی۔ المتکلم الوحید فی المؤتمر من جماعۃ أھل الحدیث بالھند۔ یشیرولوإشارۃ خاطفۃ، إلی جھود ھذہ الجماعۃ التی بذلتھا فی نشرالعقیدۃ الإسلامیۃ الحقۃ وفی الرد علی الفرق الضالۃ والإتجاھات الزائغۃ والأفکار المنحرفۃ ،ولکن لم یتحقق ھذا الأمل، ولم تقرع أسماع الحضور تلک الأصوات التی دوت فی أجواء شبہ القارۃ الھندیۃ من عہد الإستعمار الإنجلیزی إلی الآن، إنّ ممثلی الجھات والجماعات الأخری قدأشاروا إلی جھود ھذہ الجماعات ومآثرھا فی ھذا المجال، فلوذکرت جھود أھل الحدیث لکان أدعی إلی الوحدۃ والتعاون وأدل علی الإخلاص والإحسان فی النیۃ(مجلۃ صوت الأمۃ،المجلد:۳۰العددالثانی، شوال ۱۴۱۸ھ الموافق فبرائر۱۹۹۸م)
استاذ محترم نے اپنے اس اداریہ میں جماعت اہل حدیث کی دعوتی کاوشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ماضی کے علماء اہل حدیث کی خدمات کامختصرتذکرہ کیا اور لکھاکہ ہمارے ان بزرگوں نے دعوت کے ہرمحاذ پرمخلصانہ اور رضاکارانہ خدمت انجام دی ہے اورامت کو داخلی اورخارجی فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے وہ ہردورمیں پیش پیش رہے ہیں، اس ضمن میں آپ نے شیخ الکل فی الکل میاں سیدنذیر حسین محدث دہلوی ،مولانا محمدحسین بٹالوی اورشیخ الاسلام علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ کا نام لیاہے جنھوں نے بالخصوص قادیانیت کے استیصال کے لئے ازاول تاآخر کو ششیں جاری رکھیں۔ اس سلسلہ کو جوڑتے ہوئے ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے لکھاکہ موجودہ زمانہ میں بھی ہمارے علماء اس محاذ پر پیش پیش ہیں اوربہ طورمثال میراذکرکرتے ہوئے میرے ’’السراج‘‘ کے اداریہ کے اہم اقتباسات کاعربی ترجمہ تحریر فرمایا ہے،ڈاکٹرصاحب رقم طرازہیں:
’’ومواصلۃ للجھود الدفاعیۃ، وتحذ یراً للناس من الفتن المعاصرۃ، وکشفاً عن دسائس أعداء الدین، دبجت براعۃ أحد خریجی الجامعۃ السلفیۃ، ھوالأخ عبدالمنان عبدالحنان السلفی مقالاً افتتاحیاً فی مجلۃ ’’السراج‘‘ الشھریۃ التی تصدرعن جامعۃ سراج العلوم السلفیۃ فی نیبال، فی عددشھر رجب ۱۴۱۸ھ، وقدجاء فی ھذہ الإفتتاحیۃ أن أعداء الإسلام ینتھزون الفرص فی البلادالتی یعیش فیھا المسلمون کأقلیۃ، ویعانون أنواعاً من الضعف والتخلف والجھل والفقر...................(مجلۃ صوت الأمۃ، فروری ۱۹۹۸م)
آگے ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے ڈیڑھ صفحات میں میرے مضمون کا اختصار پیش کیاہے اور مسلمانوں کومرتدکرنے کے لئے عیسائیوں، قادیانیوں اورہندوؤں کی سرگرمیوں اور منظم کوششوں کا جوتذکرہ میں نے اپنے اداریہ میں کیاہے اسے من وعن ذکرفرمایا ہے، اداریہ کے آخرمیں میں نے لکھاتھا کہ:
’’گویا ارتدادکا یہ فتنہ مختلف شکلوں میں ظاہرہوچکا ہے اورآہستہ آہستہ یہ سیلاب بلاکی شکل اختیار کرتاجارہا ہے، کہ اگراسے روکانہ گیا تواس سے ناقابل تلافی نقصان پہونچنے کا اندیشہ ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ اسلامی مفکرین، مسلم قائدین اوراسلامی تنظیمیں اپنے اپنے خول سے باہر آکران فتنوں کے پس منظرپر غورکریں اوران کے سدباب کے لئے متحدہ جدوجہد کریں،متاثرہ علاقوں میں اپنے دعاۃ و مرشدین بھیج کر اسلام کی حقانیت ثابت کریں، مسلمانوں کو اسلامی عقائد وعبادات کی تعلیم دیں، وہاں مساجد ومدارس قائم کریں اوران کے نونہالوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے آراستہ کریں‘‘۔(ماہنامہ ’’السراج‘‘نومبر ۱۹۹۷ء)
ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے اس اقتباس کو اپنے الفاظ میں اس طرح سے لکھا ہے کہ:
’’وفتنۃ الردۃ ھذہ بأوضاعھا المتنوعۃ وأ شکالھا المختلفۃ تقتضی من المسلمین وخاصۃ من علماء ھم أن یوحّدوا الجھود ویدرسوا الأوضاع بد قۃ ویرسلوا العلماء والدعاۃ إلی المناطق المعرضۃ للخطر، حتی یقوموا بشرح العقید ۃ الإسلامیۃ الحقۃ وینذروا المسلمین من الخطر المدحق بھم، ویُنشؤا المد ارس والمساجد التی یجتمع فیھا المسلمون لتعلم مبادئ الإسلام الحقۃ وللإطلاع علی مکائد الأعد اء ومصائد ھم‘‘
ناچیز راقم کا یہ مضمون اگرچہ یونہی سرسری ساتھا اوراس کے ذریعہ مسلم قائدین کو خوا ب غفلت سے بیدارکرنے کی ایک معمولی کاوش تھی مگر استاذمحترم نے اسے پوری سنجیدگی سے لیا اور اپنے ایک گمنام اورعلم وعمل سے بے بہرہ شاگرد کواس قدرلائق توجہ سمجھاکہ اس کااوراس کی معمولی کاوش کا ذکراپنے اداریہ میں بڑے اوراکابرعلماء کے ساتھ کرکے حوصلہ افزائی فرمائی، اورحقیقت ہے کہ آپ کی اس تحریرکو پڑھ کر بڑاسہارا ملا اور اطمینان ہواکہ ہم صحیح سمت جارہے ہیں ،چنانچہ اس کے بعدہی میں نے نیپال میں قادیانی فتنہ کوبے نقاب کرنے کے مقصد سے ایک کتابچہ مرتب کرکے شائع کرایا۔
اس قسم کے بہت سارے واقعات ہیں جواستاذمحترم رحمہ اللہ کی حوصلہ افزائی کے تعلق سے ان کے شاگردوں کے ذہن ودماغ میں محفوظ ہیں، انھیں یکجا کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کی ہمہ جہت خدمات کو قبول فرمائے ،ان کے علمی ودعوتی کاموں کو صدقۂ جاریہ بنائے اورجماعت وجامعہ کوان کا نعم البدل عطافرمائے۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment