Tuesday, June 15, 2010

ڈاکٹرازہری اوران کی کتاب تاریخ ادب عربی apr-jul 2010

مولاناشفیع اللہ عبدالحکیم مدنی
استادجامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر
ڈاکٹرازہری اوران کی کتاب تاریخ ادب عربی

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ علم وفضل کا گنجینہ تھے، قدرت کی طرف سے ان کو انشاء پردازی ومضمون آفرینی کا بہترین حصہ ملاتھا، ان کا قلم بڑا سیال اورحقیقت نگارتھا، انھوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا اورتصنیف وتالیف، ترجمہ، مضامین ومقالات، اداریئے اورکتابوں پر مقدمے تحریرفرماکرفراست علمی خدمت انجام دی ،چنانچہ انھوں نے بتیس مستقل قلمی یادگاریں چھوڑیں کتابوں کے مقدمات واداریئے ان کے علاوہ ہیں جوہزار ہا صفحات پر پھیلے ہیں۔
موصوف کی قیمتی تالیفات میں سے ایک اہم تالیف’’تاریخ ادب عربی‘‘ ہے جوپانچ جلدوں پرمحیط ہے جس پر آپ کو صدرجمہوریہ ایوارڈ سے نوازاگیا تھا، اس تحریر کے ذریعہ اس اہم کتاب کا مختصرتعارف مقصود ہے۔
عربی ادب کی تاریخ ایک وسیع زمانہ پرمحیط ہے یعنی جب عربی زبان انسانی مافی الضمیر کی ادائیگی اورانسانوں کے درمیان باہم رابطہ وہم کلامی کا ذریعہ بنی ہے اس وقت سے لے کرموجودہ دورتک یہ محیط ہے، اس طویل دورکی تاریخ مرتب کرنا اس زبان کی وجود پذیری وظہور اس کے اصلی گہوارہ اورجائے نشوونماکا پتہ لگانا پھربتدریج اس کی ترقی اوراس میں نظم ونثرکے حالات کاجائزہ لینا، ایک دقیق اور مشکل کام ہے، اسی طرح اس دورکے ماحول ومزاج اورجغرافیائی لحاظ سے اس وقت کے کلام پر تبصرہ کرنا اورہرخطیب یا شاعرکے رجحانات اوراس کے کلام پرتنقید کرناپھر زمرہ بندی کرکے شعراء کو زمروں میں رکھنا بڑی بصیرت چاہتا ہے، بعدکے ادوار میں عربی نظم ونثر کی غیرعربی زبانوں بالخصوص ادب فارسی سے اثرپذیری اورمختلف اثرات کے مظاہرکی نشاندہی کرنا ژرف نگاہی کے ساتھ ساتھ دونوں زبانوں سے پوری واقفیت اورزبانوں کے محاورات شعراء کے ادبی خیالات اورتعبیرات پراظہار کرنے کے لئے بڑی گہری واقفیت چاہتاہے ایسے اہم موضوع پر کوئی تالیف کرنا یقیناًڈاکٹر ازہری جیسے قابل ادیب لوگ ہی کرسکتے ہیں۔
اردوزبان کی وسعت پذیری وترقی کا سفرجاری ہے، دن بدن اس میں نئی نئی کتابیں منظرعام پہ آرہی ہیں، تاریخ ادب عربی کے موضوع پراردو میں شاید کوئی مستقل جامع تالیف موجود نہیں تھی جس سے عربی ادب اوراس کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ، بالخصوص اترپردیش عربی فارسی بورڈ لکھنؤ سے فاضل کا کورس کرنے یا کالج ویونیورسٹیز میں عربی کورس کرنے والے طلبہ استفادہ کرسکیں ،البتہ مصری ادیب احمدحسن زیات کی ’’تاریخ الادب العربی‘‘ کا اردوترجمہ کسی زمانہ میں ہواتھا ، لیکن ترجمہ ترجمہ ہی ہوتاہے،بہرحال اس اہم علمی موضوع پرکسی مستقل اورجامع تالیف ضرورت تھی، چنانچہ اس کتاب کے سبب تالیف پرڈاکٹرصاحب روشنی ڈالتے ہوئے تمہید میں رقمطراز ہیں :۔
’’عربی ادب کی تاریخ کے موضوع پر عرب اورمستشرقین اہل قلم کی متعددمفید کتابیں شائع ہوچکی ہیں بروکلمن، مصطفی صادق الرافعی، جرجی زید ان اوراحمد حسن الزیات کی کتابوں کوخاص مقبولیت وشہرت حاصل ہے، پھربھی یہ موضوع مزید تفصیل وتشریح کا محتاج ہے، دورجاہلیت سے لے کر آج تک کی طویل مدت میں ہردورکے ادبی مظاہر، شخصیات کا علمی، تاریخی وتنقیدی تجزیہ اورفنی وثقافتی خدمات وتاثرات وغیرہ جزئیات میں سے ہرایک پہلو پرروشنی ڈالتے ہوئے عربی ادب کی تاریخ مرتب کرنے کا احساس آج کے علمی دورمیں زیادہ شدید ہوچکا ہے۔
قاہرہ یونیورسٹی میں عربی ادب کے استاذ ڈاکٹر شوقی ضیف نے عربی ادب کی تاریخ کے موضوع پربیش قیمت کام کیاہے، مذکورہ خطوط کی رعایت کرتے ہوئے عربی ادب کی تاریخ کے موضوع پر ان کی کتاب منفردہے ،کتاب کو انھوں نے ’’تاریخ الادب العربی‘‘ کے نام سے موسوم کیاہے پھرہر دورکے لئے ایک مستقل حصہ مخصوص کرکے اس کو اسی دورکانام دیاہے، ’’مثلاً‘‘ العصر الجا ھلی‘‘ اور’’العصر الاسلامی‘‘وغیرہ اردو زبان میں عربی ادب کی تاریخ پرکتابوں کی بیحد کمی ہے حالانکہ عربی زبان وادب سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد میں برابراضافہ ہورہا ہے، اردو میں اس موضوع پر جوچند کتابیں دستیاب ہیں ان سے عربی ادب اورادباء کا سرسری تعارف توضرور ہوجاتا ہے لیکن حالات وشخصیات کاتجزیہ اورہردور کی فنی خصوصیات وتاثرات کے بارے میں واقفیت نہیں ہوتی‘‘ ۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ نے تاریخ عربی ادب کے ہردور اور اس کے شعراء ونثر نگاروں کے حالات پرکافی مواد جمع کیاہے اورسیرحاصل بحث کی ہے جس سے قاری کو موضوع سے متعلق اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
اگرہم’’ تاریخ ادب عربی‘‘ کی پانچوں جلدوں کا جائزہ پیش کریں توتحریر خاصی طویل ہوجائے گی اس لئے ہم صرف جلد اول ہی پراکتفاء کررہے ہیں۔
جلد اول:’’دورجاہلی‘‘ پرمشتمل ہے اس میں ایک تمہید ہے جس میں لفظ ادب کی لغوی واصطلاحی تحقیق ہے، اس کے بعد تاریخ ادب اوراس کی تاریخ کے مختلف ادوار کا تعارف ہے، پھرکتاب کل آٹھ فصلوں پرمشتمل ہے جس میں سے پہلی فصل میں جزیرہ عرب کی تاریخ، دوسری فصل میں ’’دورجاہلی‘‘ کا بیان، تیسری فصل میں جاہلی زندگی کے حالات ،چوتھی فصل میں عربی زبان ،پانچویں فصل میں جاہلی شاعری کی روایت وتدوین، چھٹی فصل میں جاہلی شاعری کی خصوصیات پرروشنی ڈالی گئی ہے، ساتویں فصل میں امرء القیس، نابغہ ذبیانی، زہیربن ابی سلمیٰ، الأعشیٰ، اورکچھ دوسرے شعراء کے تذکرے ہیں اور آٹھویں فصل میں جاہلی دورکی نثرپر گفتگو ہے۔
اس کتاب کی زبان ششتہ وشگفتہ ہے، تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ادباء کے اقوال کی مختصر تصویب یاتردید بھی، توآئیے صرف ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
امرء القیس کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ص:۱۷۲ پرلکھتے ہیں ’’طہ حسین نے امرء القیس کے جملہ اشعار کاانکارکرنے کی کوشش کی ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ امرء القیس کا تعلق قبیلہ کندہ سے ہے جویمنی قبیلہ ہے اوراس کے اشعارکی زبان قریش کی زبان ہے، ا سلئے یہ اشعار موضوع ہیں اور انھیں غلط طورپرامرء القیس کی جانب منسوب کیاگیا ہے، لیکن ہم پہلے یہ واضح کرچکے ہیں کہ قبیلہ کندہ اگرچہ یمنی تھا لیکن اس کی زبان عدنانی تھی، اورقریش کی زبان ہی کو ان میں رواج وبرتری حاصل تھی، شمال کے جملہ شعراء خواہ ان کا تعلق عدنانی قبائلی سے ہویایمنی قبائل سے اسی زبان کو استعمال کرسکتے تھے،ہم نے پہلے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیاہے کہ ’’’امرء القیس سے متعلق اخبار اورروایات اوراس کے اشعارمیں وضع وانتحال کاضروردخل ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مفہوم نہیں لیاجاسکتا کہ اس کے تمام اشعار مشکوک وناقابل اعتبارہیں، البتہ یہ ہمیں بھی تسلیم ہے کہ امرء القیس کی جانب منسوب اشعارمیں بہت تھوڑے اشعار ایسے ہیں جن کی امرؤ القیس کی جانب نسبت پراعتماد کیاجاسکتا ہے‘‘۔
اس مذکورہ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے کہ موصوف طہ حسین جیسے بڑے ادیب سے مرعوب نہیں ہوئے اورنہ آنکھ بند کرکے آگے گذرگئے بلکہ اس کے قول کی کمزوری کو ظاہرکیا اورجوبات حق سے قریب ترتھی اسے قبول کیا، اورامرء القیس کے بارے میں کہتے ہیں کہ صرف جاہلی نہیں بلکہ پوری عربی شاعری کابابائے آدم ہے، اسی کے ہاتھوں عربی شعروشاعری کا حسین ڈھانچہ تکمیل پذیرہوا، اس نے ایک طرف بہت سے اصناف کو وجودبخشا اوردوسری طرف وصف وتشبیہ میں کمال بہم پہونچایا، الفاظ،معانی، تخیلات اوردوسری چیزوں پرپوری توجہ دی اورلفظی ومعنوی محسنات کے استعمال کے لئے راستہ ہموارکیا، تاریخ ادب عربی سے اردو زبان میں ایک شاندار اضافہ ہواہے اوریہ طلبہ وتحقیق کرنے والوں پر ان کا بڑا احسان ہے۔
***

No comments:

Post a Comment