Wednesday, June 2, 2010

علم تفسیر۔تابعین کرام کے عہدمیں March 2010

مولاناعبدالصبورندوی جھنڈانگری
مدیر ترجمان السنۃ،رچھا
علم تفسیر۔تابعین کرام کے عہدمیں

صحابۂ کرامؓ اورتابعینؒ کے مابین تفسیری منہج واسلوب میں کوئی بڑافرق نہیں تھا، اس لئے کہ تابعین نے صحابہؓ سے ہی تفاسیر اخذ کی تھیں،تابعینؒ نے صحابہؓ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے آیات کی تفسیرکرتے وقت بے پناہ احتیاط برتی، وہ بھی تفسیر بیان کرتے وقت حرج محسوس کرتے تھے، چنانچہ سعیدبن مُسَیّب رحمہ اللہ کودیکھیں ،جن کا شمار کبارتابعین میں ہوتاہے، جن کے علم وفضل کا شہرہ دوردورتک تھا، ان سے جب کسی آیت کی تفسیر پوچھی جاتی تووہ خاموش ہوجاتے گویاکہ انھوں نے کچھ سناہی نہیں۔(مقدمۃ فی أصول التفسیر لابن تیمیۃ ص:۱۱۲)
شعبی رحمہ اللہ کوکون نہیں جانتا وہ کہتے تھے:’’خداکی قسم! قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں گذری جس کی تفسیرمیں نے علماء سے نہ پوچھی ہو،کیونکہ اس کی سند اللہ عزوجل تک پہونچتی ہے۔(مقدمۃ فی أصول التفسیر ص:۱۱۳)
تابعین عظام کے یہ اقوال دلالت کرتے ہیں کہ وہ تفسیر کے معاملے میں بہت محتاط تھے، اگران کے پاس یقینی جانکاری نہیں ہوتی تھی تواس سلسلے میں وہ گفتگوکرنا بھی پسند نہ کرتے تھے، علامہ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:’’جوکوئی اپنی شرعی ولسانی معرفت ومہارت کے بل بوتے تفسیر کرتاہے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔(مقدمۃ فی أصول التفسیر ص:۱۱۴)
تابعین کرامؒ کا تفسیری منہج:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تفسیر کی جوبنیادیں قائم کی تھیں، انہی بنیادوں پرتابعین رحمہم اللہ نے بھی کام کیا، البتہ تابعین کرامؒ کے دورمیں اسلامی حکومت کا رقبہ بہت زیادہ بڑھ چکاتھا، مسلسل فتوحات نے منہج کی بنیادوں میں بھی اضافہ کیا، آیئے دیکھتے ہیں کہ تابعین کاتفسیری منہج کن بنیادوں پرقائم تھا ۔
(۱)قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعے(جیساکہ صحابۂ کرامؓ کامنہج تھا)
(۲)قرآن کی تفسیر سنت نبویہ کے ذریعے(جیساکہ صحابۂ کرامؓ کامنہج تھا)
(۳) قرآن کی تفسیر اقوال صحابہؓ کے ذریعے،تابعینؒ نے صحابہؓ سے قرآن کی تفسیرسیکھی تھی، اس لئے وہ صحابہؓ کے اقوال کو مقدم رکھتے تھے، مجاہد بن جبررحمہ اللہ کہتے ہیں’’میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو تین مرتبہ پوراقرآن سنایا اورہرآیت پرتوقف کرتا اوران سے اس کی تفسیر پوچھتا ‘‘۔(مرجع سابق۱۰۲)
(۴) جب تابعین رحمہم اللہ کو قرآن کی تفسیر قرآن میں، یاسنت میں، یااقوالِ صحابہ میں نہیں ملتی تھی تووہ اجتہاد کا سہارالیتے تھے اوروہ اس کے اہل بھی تھے اس لئے کہ وہ عربی زبان اوراس کے لغوی گوشوں کے واقف کارتھے، انھوں نے صحابہؓ سے تفسیر اخذ کی تھی، انھوں نے صحابہ سے بہت کچھ سنااور سیکھا، اس لئے ان کا حق ہے کہ وہ اجتہاد کریں۔
(۵) اہل کتاب(یہود ونصاریٰ) کے اقوال:
یہ اس لئے ہواکہ قرآن کریم نے گذرے ہوئے انبیاء وسابقہ قوموں وامتوں کے احوال وقصے اختصار کے ساتھ بیان کئے ہیں اوران واقعات وقصوں کی تفصیل سے پرہیز کیا ہے، مگربشری نفوس کاطبعی میلان ان واقعات وقصوں کی تفصیل وتکمیل چاہتاہے، چنانچہ جب اسلامی فتوحات کا تسلسل بڑھتاگیا، تودوسری امتیں(اہل کتاب یہودونصاریٰ)بھی اسلام میں داخل ہوتی گئیں، اوراہل کتاب جو توریت وانجیل کے حامل تھے، انھیں ان قصوں کی تفصیل معلوم تھی،جن کا اختصار قرآن میں واردہواہے، پھرانھوں نے لوگوں کے لئے واقعات بیان کرنا شروع کیا، عوام الناس کی ایک بڑی تعداد ان قصوں کی تفصیل سماعت کرنے لگی، پھرمسلمانوں کے اس شوق نے تفسیر کے گھرمیں ایک ایسی جماعت کوداخل ہونے کا موقع فراہم کیا جسے’’اسرائیلیات‘‘ کے نام سے جاناجاتاہے۔
قرآن کی تفسیرمیں اسرائیلی روایتوں کوبیان کرنے میں عبداللہ بن سلام، کعب الاحبار، وہب بن منبہ اورعبدالملک بن جریج کے نام سب سے زیادہ آتے ہیں۔
تابعین کے دورمیں تفسیرکی خصوصیات:۔تابعین کرام رحمہم اللہ کی تفسیر درج ذیل خصوصیات کی حامل تھی:
۱۔تفسیر میں اسرائیلیات کاداخلہ۔
۲۔ پورے قرآن کی تفسیر:
اسلامی فتوحات کا دائرہ جوں جوں بڑھتاگیا، عجمیوں کی بڑی تعداد حلقۂ بگوش اسلام ہونے لگی، اس وقت شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی گئی کہ ان آیات کی تفسیر بھی بیان کردی جائے، جسے صحابۂ کرامؓ نے واضح مفہوم کے باعث چھوڑدیاتھا، اسی لئے تابعینؒ نے ہرآیت کی تفسیر کا اہتمام کیا اگرچہ بہت ساری آیات کے معانی واضح تھے لیکن اہل عجم کے لئے وہ بھی دشوار تھے۔
۳۔ تفسیرکی روایت کا چلن:
تابعینؒ کے دورمیں تفسیری سرمائے کو محفوظ رکھنے اوراسے مضبوطی عطاکرنے کی خاطرروایت کا سلسلہ شروع ہوا، اس سے قبل تفسیر بغیرسند وروایت کے لوگوں کے سینے میں محفوظ تھی، چنانچہ تفسیر کے جوتین مدرسے وجودمیں آئے تھے، ان کی طرف لوگ روایتوں کو منسوب کرنے لگے، اہل مکہ عبداللہ بن عباسؓ ،اہل مدینہ أبی بن کعبؓ اوراہل عراق عبداللہ بن مسعودؓ کے حوالے سے تفاسیر بیان کرنے لگے۔(التفسیر والمفسرون۱؍۱۳۱)
۴۔تفسیرمیں اختلافات:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے عہد میں جس تفسیری سرمائے کوچھوڑاتھا، تابعین کرامؒ نے اپنے اجتہادکے ذریعے اس سرمائے میں اضافہ کیا، لیکن ایک ہی آیت کے متعلق متعدداقوال اورمختلف تفاسیرنے اختلافات کی راہ ہموارکردی۔
۵۔ تفسیر میں مسلکی اختلاف:
تابعین کے دورمیں ہی بعض آیتوں کے متعلق ایسی رائے ظاہر کی گئی جومسلکی حمایت میں تھی اورجس کاحقیقی تفسیرسے کوئی لینادینانہیں تھا۔
۶۔تفسیرمیں سند کااہتمام:
تابعین کرامؒ کے عہدمیں سندوں کااہتمام شروع ہوا، ہرقول اس کے قائل کی جانب منسوب کیاگیا، تاکہ اقوال کی صحت وضعف کی تمیز کی جاسکے۔
مشہور مفسرین:
تفسیر کے باب میں جن تابعین کی خدمات نمایاں رہی ہیں، ان کے نام درج ذیل ہیں:
مجاہدین جبر، سعید بن جبیر،عطاء، عکرمہ،حسن بصری، زیدبن اسلم، قتادۃ بن دعامہ السدوسی، محمدبن کعب القرظی، ابوعالیہ الریاحی، عامرالشعبی،رحمہم اللہ۔
تابعی کی تفسیر کا حکم:
اگرکسی آیت کی تفسیر رسول اکرمﷺ یاصحابۂ کرامؓ سے نہ ملے تواس صورت میں تابعی کی تفسیرکی طرف رجوع کاحکم کیاہے؟ علماء کے آراء اس سلسلے میں مختلف فیہ ہیں:
*علماء کی ایک جماعت جس میں ابن عقیلؒ ، امام احمد بن حنبلؒ اورشعبہؒ شامل ہیں، کہتی ہے کہ تابعی کی تفسیر کومرجع بنانا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ:
۱۔انھوں نے نبی اکرمﷺ سے کچھ نہیں سماعت کیا، لہذا یہ ناممکن ہے کہ اس درجے میں رکھاجائے گویاکہ انھوں نے سب کچھ نبی اکرمﷺ سے سن کر بیان کیاہے۔
۲۔ وہ ان حالات ،قرائن، پس منظر وپیش منظر سے ناواقف تھے جس زمانے میں قرآن نازل ہوا، لہذا ان سے خطا کا امکان بڑھ جاتا ہے آیتوں کے مرادی معنٰی میں۔
۳۔تابعین کی عدالت وثقاہت پرکوئی نص ثابت نہیں ہے،جیساکہ صحابہ کی عدالت پرنصوص وارد ہوئے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جوکچھ رسول اللہﷺ سے منقول ہے، وہ سر آنکھوں پر، جو صحابۂ کرام سے وارد ہواہے وہ بھی سرآنکھوں پر، مگرجوتابعین سے منقول ہے،وہ مجتہد تھے اور ہم بھی اجتہاد کرتے ہیں‘‘۔(فواتح الرحموت بشرح مسلّم الثبوت:ابن عبدالشکور۲؍۱۸۸)
*جمہورعلماء ومفسرین کاکہناہے کہ تفسیر میں تابعی کا قول بھی حجت ہے اس صورت میں جب کسی آیت کی تفسیرسنت یا اقوال صحابہؓ میں نہ ملتی ہو، اس لئے کہ انھوں نے صحابہ سے ہی تفسیر اخذ کیاہے ،وہ صحابہ کی مجلسوں میں حاضر رہے، ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، ان کے علم سے خوب خوب استفادہ کیا، اوروہ کچھ ان سے سناجوان کے علاوہ نہ سن سکے، مشہور تابعی مجاہد رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو تین مرتبہ قرآن سنایا اورہرآیت کی تفسیر ان سے پوچھی، قتادہ بن دعامہؒ کہتے ہیں: قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں کچھ سن نہ رکھا ہوں‘‘۔(طبقات المفسرین للداؤدی ۲؍۴۳)
شعبیؒ کہتے ہیں:’’قرآن کی کوئی آیت ایسی نہ گذری، جس کے بارے میں اپنے اساتذہ (صحابہؓ) سے نہ پوچھا ہو‘‘۔(مقدمۃ فی أصول التفسیر ،ابن تیمیۃ ۱۱۳)
*راجح قول:۔علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس میں تفصیل بیان کی ہے:
(۱) اگرکسی تفسیرمیں تمام تابعین کا اجماع ہوجائے، اس کا اخذ کرنا واجب ہے اوراس کے حجت ہونے میں کسی کوشبہہ نہیں ہوناچاہئے۔
(۲) اگرکسی آیت کی تفسیر میں وہ مختلف فیہ ہیں، توان کا اختلاف کسی کے لئے حجت نہ ہوگا، اس صورت میں قرآن وسنت کی لغت، عربوں کی عام زبان ولب ولہجہ اوراقوال صحابہؓ کی طرف رجوع کیاجاناچاہئے۔(مقدمۃ فی اصول التفسیر ص:۱۰۵)
(۳) اگرتابعی کسی آیت کی تفسیربیان کرتاہے، اورکوئی اس کی مخالفت نہیں کرتا، یا اس پر اجماع بھی ثابت نہیں ہے، ایسی صورت میں بہترطریقہ یہ ہے کہ اس کو اخذ کیا جائے اورحجت بنایاجائے۔
محترم قارئین! آپ نے ملاحظہ کیا کہ تابعین کرامؒ کے دورمیں تفسیر کی کیاحالت تھی،عہدتابعین کے بعدتفسیر تدوین کے مرحلے میں داخل ہوتی ہے، ان شاء اللہ اس کی تفصیل آئندہ پیش کی جائے گی۔ *

No comments:

Post a Comment