Sunday, June 20, 2010

استاذمحترم کی علمی پہچان apr-jul 2010

مولاناعبدالمعید مدنیؔ
استاذمحترم کی علمی پہچان
جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ نے اپنے پیچھے ایک معتدبہ علمی ترکہ چھوڑاہے اردو زبان میں بھی اورعربی زبان میں بھی، ان کا یہ علمی ترکہ ہزاروں صفحات پرپھیلاہواہے، انھوں نے درجنوں کتابیں تالیف اورترجمے کی شکل میں ملت وجماعت کودی ہیں، ہزاروں صفحات پرپھیلے کتابوں کے مقدمے ہیں ،ہزاروں صفحات پرمشتمل عربی اوراردومضامین اورمقالے ہیں۔
یہ سب کیسے ہوپایا اورانھوں نے اتناکچھ کیسے لکھا؟ اپنی علمی کارکردگی کے حساب سے وہ اپنے ہمعصروں میں سب سے آگے نگل گئے، ایسابھی ہے کہ ان کے مقابلے میں ان کے دوسرے بہت سے ہمعصرعلمی اور ذہنی قابلیت میں ان سے کہیں آگے تھے لیکن وہ اپنی علمی سرگرمیوں میں ازہری صاحب سے کہیں پیچھے ہیں، اس تقدم، سبقت اورنمایاں کارکردگی کا سبب کیاہے؟ ہمیں اس کے تین نمایاں اسباب نظرآتے ہیں(۱) انضباط وقت(۲)انضباط حیات(۳) اورانضباط عمل۔
میں نے انھیں جب سے جانا اورجب بھی دیکھا کہ ان کی ترجیحات میں مطالعہ اورتصنیف وتالیف داخل ہے ،اسی طرح آفس کے کاموں کوانجام دینے میں بھی مکمل نظم وضبط کااہتمام، انھیں کبھی مشکل سے بلاضرورت جامعہ کی چہاردیواری سے باہرجاتے ہوئے دیکھا گیا، سارا وقت ضروریات حیات کے بعد صرف تحریری کاموں کے لئے وقف۔
ڈاکٹررحمہ اللہ نے انضباط وقت کااہتمام کیااورانضباط حیات کا بھی اور دونوں میں کامیاب رہے، انضباط وقت کا اتنااہتمام کہ جامعہ میں جب بھی ان کی آفس سے گذرہوا لکھنے پڑھنے میں مصروف، ۸بجے سے ۲بجے تک، پھرعصرکے بعدسے مغرب تک، اوربسااوقات عشاء کے بعدبھی، انھوں نے وقت کی پابندی کی اورجامعہ کی تسہیلات سے بھرپور استفادہ کیا اورجامعہ کے رہنما ورہبربن گئے اوراپنی اسی قیادت کے سبب ملک وبیرون ملک علمی وجماعتی حلقوں میں اپنی پہچان بنالے گئے، کیا اورکیوں سے بحث نہیں، بحث اس سے ہے کہ انضباط وقت سے انسان کیا کچھ حاصل کرلیتا ہے اورکہاں تک وہ پرواز کرسکتاہے، ان کوجامعہ نے پہچان دی اوراسٹیج بھی، اخذ وعطاکا یہ سلسلہ آخری لمحے تک جاری رہا، اس پہچان کے سبب انھیں دنیا کے بے شمار خطوں میں بارہاجانے کا اورافادہ واستفادہ کاموقعہ ملا۔
وقت کے انضباط کا ان کواتنا اہتمام تھا کہ کبھی انھیں لوگوں نے وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا ، ان کے انضباط وقت پرنہ موسم اثرانداز ہوتا تھا نہ گھریلو اورشخصی ضرورتیں، وقت کے انضباط کے لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے، بہت سی خواہشوں کو ختم کرناپڑتا ہے، زندگی کی سرگرمیوں میں ترجیحی رویہ اپناناپڑتاہے، انہماک اورتوجہ کو کام میں لاناپڑتا ہے، ازہری رحمہ اللہ نے یہ سارے جتن کئے اوروقت کی پابندی کا پورا نظم قائم کیا۔
انضباط وقت سے انسان کے کام میں سلیقہ مندی اورسوچ میں نظم وترتیب آجاتی ہے، یہ ایسی حقیقت ہے کہ اسے ہرشخص محسوس کرسکتا ہے، اس انضباط کے نتیجے میں ازہری رحمہ اللہ کے ہرکام میں سلیقہ مندی اورسوچ میں نظم وترتیب موجودتھی، ان کی آفس میں قدم رکھ کرکوئی بھی اس خوبی کو محسوس کرسکتا تھا، صفائی ستھرائی، نظم وضبط اورترتیب وتہذیب ہرشئے میں نمایاں، بدنظمی، پھوہڑ پن اوربے ذوقی کا کہیں کسی جگہ نام ونشان نہیں، ان کی ایک سطری تحریر میں بھی صفائی، نظم اورسلیقہ مندی بولتی تھی۔
انضباط وقت کی طرح انضباط حیات میں بھی وہ منفرد تھے اور اپنے ہم عصروں میں سب سے نمایاں تھے، انضباط حیات میں خود انسان کی اپنی طرز زندگی ،روزمرہ سرگرمیاں خاص کرآتی ہیں پھراس سے منسلک گھریلو وسماجی سرگرمیاں ہوتی ہیں، انضباط حیات کے تحت انھوں نے اپنی ذہنی صلاحیت سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی اوراپنی گھریلو زندگی کی کشتی ایسی مہارت سے کھیتے رہے کہ آل اولاد، بھائی رشتہ دار جس کے اوپرسایہ فگن رہے سب ساحل بکنارہوگئے اوراعلیٰ تعلیم سے مزین ہوگئے، اس دورمیں کم ہی ایسے لوگ ملتے ہیں جواپنوں کواس خوش اسلوبی سے کامیابی کی راہ پر گامزن کرسکیں، یہ آسان کام نہیں ہے بڑی پتہ ماری کا کام ہے ،یہ بات مشاہدہ میں ہوگی کہ بڑے بڑے گھن گرج کے لوگ ہوتے ہیں مگرچراغ تلے اندھیرا،انسان ذاتی اورگھریلو کامیابی حاصل کرتے ہوئے خود اعتمادی حاصل کرلیتاہے اورپھر عویصات کے حل کرنے میں اسے ماہرسمجھا جاتاہے اورسماج میں اسے وقعت حاصل ہوجاتی ہے، انھیں انضباط حیات ،فکر وخیال اورطرز زندگی میں ٹھہراؤ کے سبب اوردیگرمعاون اسباب کی بناء پر اورجامعہ سلفیہ کی قیادت کی بناء پر ازہری رحمہ اللہ کی حیثیت جماعتی حلقوں میں تسلیم شدہ بن گئی تھی اورپھرآج کے دورمیں جوجمالے جائے وہ جم جاتا ہے پھرکسی کو کیا اورکیوں کرنے کی فرصت نہیں ہوتی ہے۔
ازہر مرحوم کی ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ وہ لگاتار اورمسلسل محنت کے عادی تھے اوراس قدرمحنت کرتے تھے کہ جوکام اپنے ذمہ لے لیتے تھے اسے حتی الامکان خوش اسلوبی سے پورا کرتے تھے، مسلسل محنت اورلگاتار جدوجہد ان کی زندگی کی پہچان تھی، محنت سے انسان سرخروہوتا ہے اورلگاتار محنت سے وہ کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتا چلاجاتا ہے اورمحنت کے شیریں پھل اسے مل جاتے ہیں۔
چالیس سالوں تک ان کی لگاتار اورمسلسل محنت کا ثمرہ سامنے ہے، وہ اپنے کازمیں کامیاب ہیں اورشاندارانداز میں کامیاب ہیں، آدمی دولت جمع کرلے، بہت کتابیں لکھ ڈالے، بڑانام کمالے یہی کامیابی نہیں، انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ جس کام میں لگاہے اورجس ماحول میں رہ رہا ہے ان میں اس کے اثرات قائم ہوجائیں اوراس کے اچھے نتائج سامنے آئیں، اس ناحیے سے ازہری صاحب مرحوم اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ کامیاب تھے اورکامیابی ان کی ذات، ان کے گھر اوران کے متعلقین تک پھیلی ہوئی ہے۔
ازہری صاحب کی زندگی کی سب سے نمایاں کارکردگی ان کی نگارشات ہیں، اورنگارشات بھی اردواورعربی دوزبانوں میں ہیں، اورقریب قریب دونوں زبانوں کی تحریرحجم میں بھی یکساں ہیں، اوراسلوب ولب ولہجے میں بھی یکساں رنگ رکھتی ہیں، تحریریں انسان کی علمی، فکری اوراخلاقی صلاحیتوں کاآئینہ ہوتی ہیں، عموما ان کی طبیعت پرسکون ہوتی تھی ٹھہراؤ اور دھیمے پن کی حامل تھی، وہ ہرشئے میں بڑا نپا تلا سوچاسمجھا قدم اٹھانے کے عادی تھے، اس عادت کی آئینہ دارہیں ان کی تحریریں ان کی معروف انتظامی سرگرمیوں کے برعکس ہرقسم کے تنازع سے پاک اورصلح کل والی ہواکرتی تھیں، ان کا تال میل دانشورطبقہ سے بنارہتا تھا نیز ان کی منصبی ذمہ داری بھی تھی اورانسان کے اپنے اہداف ومقاصد حیات بھی ہوتے ہیں، اس لئے ان کا اپنا رویہ بن گیاتھا اوردائرہ فکرونظر اورتحریر نگارش بھی، ان تمام کی چھاپ ان کی تحریروں پرہوتی ہے۔
فکری وفنی اعتبارسے اگردیکھاجائے توان کی تحریریں قابل قدرہیں، ان کی تحریرفنی اعتبارسے سادگی اورپرکاری کے دائرے میں آتی ہے حشو وزوائدسے پاک صاف ستھری تحریر، دونوں زبانوں کی تحریروں میں ان کا اپنا خاص انداز ہے اورپوری جماعت میں ان کی الگ پہچان، جماعت میں ان کی طرح کسی کی الگ متعین پہچان نہیں ہے اوریہ انھیں کثرت مہارت اورتوجہ واہتمام سے حاصل ہوئی ہے، ان کی دونوں زبانوں کی تحریروں میں پختگی پائی جاتی ہے اورعلمی کاموں کے لئے مناسب طرز تحریر، ان ناحیوں سے ہم ہمیشہ ان کے قدردان رہے اوران کے تمام دوسرے ہم عصروں پرانھیں ترجیح دیتے رہے۔
ہندوستان میں دیگرعربی قلمکار بھی ہیں اورمختلف حلقوں میں ہیں، ندوۃ العلماء کا حلقہ ہے اوردیوبند کے اکاد کاعربی قلم کارہیں، ندوہ کے عربی قلم کاروں میں علی میاں کو چھوڑکردیگر قلم کاروں میں معتبرسعید اعظمی، واضح رشید ندوی اوررابع ندوی صاحبان ہیں، بقیہ سب دیگرعربی ندوی قلم کارزبردستی کے قلم کارہیں، ازہری صاحب کا اگران سے مقابلہ کیا جائے تو یہ ضرورنظر آئے گا کہ ندوی صاحبان کی تحریروں میں بھاری بھرکم الفاظ ہیں، گھن گرج ہے اورترادف کی بھیڑ ہے مگران کے مقابلے میں ازہری رحمہ اللہ کی عربی تحریروں میں جوسلاست، روانی، سادگی اورحقیقت نگاری پائی جاتی ہے وہ ان کی تحریروں میں موجودنہیں ہے، ازہری رحمہ اللہ کی عربی تحریریں واضح اورنمایاں ہوتی ہیں اورمتنوع تعبیرات کی حامل ہوتی ہیں ایسا لگتا ہے جیسے انھوں نے احمد امین کی تحریروں کا اثرزیادہ قبول کیاہے، ندوہ کی عربی تحریریں عجمیت اورانشائیت کی طرف مائل ہوتی ہیں اورانشائیت کے چکرمیں تحریریں بناوٹ، تکلف، کھوکھلاپن اورابہام کا شکار ہوجاتی ہیں اور تعبیرات میں تنوع کے بجائے یکسانیت اورمحدودیت پائی جاتی ہے، چونکہ یہاں عربیت نقل اورمشق کی بنیاد پرزیادہ چلتی ہے نحو اوربلاغت میں مہارت یا کم ازکم معتدبہ معرفت کی بنیادپر نہیں چلتی ہے اس لئے تعبیراتی خلا بشدت محسوس کیا جاتا ہے اورپھرایک مصیبت پندارکا ہے، پندارعربی قواعد اسلوب اورتعبیرات میں گہرائی پیداکرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتاہے، قواعد اوربلاغت میں مہارت کوثانوی درجہ دینے کے بعد کوئی شخص کھوکھلی عربی لکھ سکتا ہے اس کے اندر عمق اورگہرائی نہیں آسکتی، ابہام وثقالت کی چھاپ اس پرضرور رہے گی۔
اہل حدیث علماء میں اس وقت جس قدرعربی قلم کار ہیں اورجس قدراچھی عربی لکھ سکتے ہیں دوسرے حلقوں میں نہ ان کے مقابلے میں اچھے عربی قلمکارہیں نہ ان سے زیادہ قلم کارہیں، لیکن ان خبایا کو سامنے آنے،نکھرنے اورسنورنے اوراپناکام کرنے کا نہ کوئی پلیٹ فارم ہے نہ ان کے لئے کوئی راستہ ہے نہ منزل، ساری تسہیلات علمیہ جگلروں کے ہاتھ میں ہیں جوان پر کنڈلی مارے بیٹھے ہوئے ہیں۔
استاذمحترم نے چالیس سال تک عربی تحریرنگاری کا شغل بہ تسلسل جاری رکھا اس میں کبھی ناغہ نہ ہوا، جامعہ کی ساری سہولتیں ان کے ساتھ تھیں، انھیں ہرطرح کی علمی ومادی سہولتیں حاصل تھیں، جامعہ کے ثقل سے انھیں عالمی وعربی پلیٹ فارم ملا ہوا تھا ان کے پاس حوصلہ اورجذبہ تھا کام کرنے کا سلیقہ بھی تھا، انھوں نے ان سب کا بھرپورفائدہ اٹھایا، اس طرح زندگی بھران کی تحریریں شاداب رہیں اوران کے عزم وحوصلے بھی تاباں رہے، اورمخالف ماحول میں بھی انھیں کام کرنے کا یارارہا، یہ بڑی خوبیاں ہیں جوانسان کو باکار،کارآمد اورزندہ وسرسبز بنادیتی ہیں اورلوگ قدردان بھی بنتے ہیں، انھوں نے عظیم علمی مقاصد کی خاطر خون دل جلایا ہے، وقت کی قربانی دی ہے، ساری صلاحیتوں کو جھونک دیاہے تب ان کی شخصیت مسلم ہوئی ہے اوریہ عظیم کام سب کے بس کانہیں ہے۔
چالیس سال کی عربی تحریر یں اور اداریئے، مقالات، کا نفرنسوں کے لئے تحریر کردہ بحوث، کتابوں کے عربی ترجمے اورعربی کتابوں کے مقدمے ہزاروں صفحات پرپھیلے ہوئے ہیں، ان کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں، عجمی ماحول میں عربیت کی شمع جلائے رکھنا صحرا میں چراغ جلانے کے مترادف ہے، ہندوستانی ثقافت سے عرب دنیا کو آگاہ رکھنا، کتاب وسنت کی زبان کو رواج دینا اورقابل نمونہ بن جانا بڑی بات ہے، اس وقت مختلف موضوعات پرعربی زبان میں ان سے زیادہ کس کی صحافتی تحریر ہوگی کم ازکم ہندوستانی اہل حدیثوں میں وہ سب پرفائق ہیں۔
استاذ محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی علمی وادبی نگارشات مختلف موضوعات پرہیں لیکن اصلا ان کا رجحان تعلیم اورادب کی طرف تھا، اورادب وزبان سے ملاجلاکام ترجمے کا ہے، ان کی زیادہ ترتحریریں تعلیم وادب پرہیں اورترجمہ ہیں انھوں نے کئی اردو کتابوں کوعربی کا اورکئی عربی کتابوں کو اردو کا لباس پہنایا ہے اورفارسی کی ایک کتاب کو عربی کا لباس پہنایا ہے، انھیں ترجمہ کرنے میں بڑی مہارت ہوگئی تھی، زندگی بھرکا یہ مشغلہ ان کے لئے بہت دلچسپ مشغلہ تھا، اصحاب بصیرت قلم کاروں اورمصنفوں کی کتابوں کا ترجمہ بسا اوقات تصنیف سے زیادہ کارآمد ہوتا ہے، استاذمحترم نے جن علماء کرام کی کتابوں کا ترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کیا ہے وہ اعاظم علماء سلف میں ہیں ان کی فہرست ملاحظہ ہو علامہ ابن تیمیہ،علامہ قاسمی،شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اورعربی میں جن علماء کی کتابوں کاترجمہ ہواوہ ہیں علامہ گجرانوالہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور قاضی صاحب منصورپوری رحمہم اللہ، ادب میں انھوں نے شوقی ضیف کو اپنارہنما بنایا اوران کے ادبی افکار وآراء کو اردوقالب میں ڈھالا۔
ان کے سواکچھ ناقابل ذکرلوگوں کی کتابوں کو عربی یا اردوزبان میں ڈھالا جیسے عبدالحلیم عویس، نثارفاروقی، یٰسین مظہر صدیقی ،تقی امینی اورعباس محمد عقاد، یہ کتابیں جن کا اردو یا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ رعایت ومروت کے تحت ہوگیا ورنہ وہ قابل اعتنا نہ تھیں، ہوتاہے انسان کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں اورایسے لمحات بھی اورناقابل ذکر اسباب ہوتے ہیں جن کے تحت مرضی کے خلاف بھی انسان کو کام کرناپڑتا ہے یا انسان کو رہنا پڑتاہے، ہرانسان کی زندگی کے ساتھ ایسے واقعات جڑے ہوتے ہیں لیکن اس سے انسان کے دیگر کمالات کی نفی نہیں ہوتی ہے۔
بہرحال ازہری مرحوم کا ترجمہ اردومیں ہویا عربی میں صاف ستھرا اورواضح ہوتا تھا، ترجمہ توبہت سے لوگ کرتے ہیں، لیکن مستند ترجمہ سب کا نہیں ہوتاہے، مستند ترجمہ مستندعلم والوں کا ہی ہوسکتا ہے اورپھرمزاولت، ریاضت اورمحنت اسے نکھاردیتی ہے اوریہ سب ترجمہ کے لئے ضروری ہیں اوروہ ان سے بہرہ مند تھے، کتابوں کے سواانھوں نے بے شمارمضامین کابھی اردوسے عربی اورعربی سے اردومیں ترجمہ کیاہے، عموما ان کے ترجموں کو پسند کیاگیا اورانھیں قبولیت کا درجہ بھی ملا اور اوربہت سی علمی وثقافتی چیزیں جواردو میں تھیں ان سے اہل عرب آگاہ ہوئے۔
ترجمہ کے سواانھوں نے ادب اورتعلیم پربہت کچھ لکھا، ہند وستانی عصری جامعات کے سمیناروں کے لئے انھوں نے عربی یا اردو میں ادب پر بہت سے مقالے تیار کئے، شعرفہمی کابھی انھیں ذوق ملا ہواتھا انھوں نے کئی شعراء کے مجموعہ کلام پرتبصرہ کیااورمقدمہ لکھاہے۔
تعلیم کے مسائل پران کی خاص توجہ تھی، تعلیمی کانفرنسوں میں انھوں نے بہت سے مقالے لکھے ہیں اورخود جامعہ سلفیہ کے نصاب تعلیم کی ترتیب، اہل مدارس کے ذمہ داروں کے ساتھ تعلیمی میٹنگیں، جامعہ سلفیہ کے ساتھ الحاق مدارس کا خاکہ اوران کے لئے تعلیمی رہنمائی کا انھوں نے مسلسل اہتمام کیا، تعلیمی مسائل ان کی ترجیحات میں داخل تھے، ان کے تعلیمی افکارکیا تھے اورموجودہ صورت میں وہ کیا چاہتے تھے تفصیلی طورپر کچھ زیادہ کوئی چیز موجود نہیں ہے لیکن یہ چیز نمایاں ہے کہ جماعتی مدارس میں اصلاح نصاب اورترتیب نصاب کے لئے انھوں نے انتھک محنت کی اورخودبھی اصول فقہ کے لئے ارشاد الفحول کی تلخیص حصول المامول کے نام کی اورعلوم القرآن پر سیوطی کی مشہورکتاب الاتقان کی ترتیب وتہذیب کی، اور بڑی حدتک جامعہ کے اساتذہ کی مشترکہ کوششوں سے جامعہ سلفیہ کا نصاب تیارکیا، اکثراہل حدیث مدارس میں جامعہ ہی کا نصاب چلتا ہے، اس سے ہمیں بحث نہیں کہ نصاب کیساہے؟ اورکس قدرجاندارہے، لیکن بہرحال ان کی محنت شاہکارتھی البتہ جب سے اس نصاب میں دانشوری شروع ہوئی ہے اس کو خچر نصاب تعلیم بنادیا گیا، جامعہ فیض عام مؤکے ایک اجلاس میں ۲۰۰۷ء ؁ میں جوان کی صدارت میں ہوا تھا میں نے خچر نصاب تعلیم کے نقصانات پرتقریر کی تھی، بڑی خوشی کا اظہارکیا اورشکریہ بھی اداکیا۔
ملت کے تعلیمی بحران پر وہ بڑی دلسوزی سے غورکرتے تھے اوراس موضوع پربھی برابر لکھتے رہتے تھے، عربی اردومیں ان کے مقالات کا فی لمبے لمبے شائع ہوچکے ہیں، مسائل تعلیم پر غورکرنا اوران پرکچھ نہ کچھ لکھتے رہنا ان کا علمی رویہ بن گیاتھا۔
عربی مدارس میں بکثرت تعلیم اورنصاب پر پروگرام ہوئے عموما ان میں ڈاکٹر صاحب کی شرکت ہوتی تھی اوراپنی تحریروں کے ساتھ ان میں بھرپورحصہ لیتے تھے،بلکہ قیادت کرتے تھے، جہل وابلہی کے ماحول میں لوگ ان کی ذات کو بساغنیمت جانتے تھے اوراپنے تعلیمی مسائل میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
ادب پربھی انھوں نے لکھا ہے، پانچ جلدوں میں تاریخ ادب عربی پر ان کا کام اس وقت اردومیں سب سے بڑا کام ہے اوریونیورسٹیوں میں عربی ادب کے طلباء اس پرکافی انحصارکرتے ہیں، عربی شاعری پربیٹے کا کام بھی انھیں کا سمجھنا چاہئے، اس طرح اگردیکھاجائے توسب سے زیادہ ان کی تحریر ادب کے موضوع پرہی ہوگی، یعنی کم ازکم بیس فیصد ان کی تحریریں ادب کے موضوع پرہوں گی۔
ترجمے کے بعد اردواورعربی میں ان کی تصنیفات بھی کئی ایک ہیں، ان کا علمی پایہ کیساہے اس سے قطع نظریہ حقیقت ہے کہ ان ساری تحریروں میں ان کی محنت کا رنگ نمایاں رہتاہے، ان کی محنت اورجدوجہد کا یہ عالم تھا کہ ہم جب بھی انھیں یاد کرتے ہیں توان کا یہ امیج ذہن میں سب سے پہلے بنتا کہ تنہائی میں قلم لئے بیٹھے ہیں، تفکرمیں غرق ہیں، افکارکو شکارکرنے میں لگے ہوئے ہیں اورجوں ہی افکارپکڑمیں آئے فوراً انھیں قلمبند کرلیا، ایک اندازے کے مطابق کم وبیش انھوں نے دس ہزار صفحات لکھے ہوں گے۔
کام کی نوعیت کے اعتبارسے دیکھاجائے تو انھوں نے ایک طرح سے منصوبہ بندطریقے سے مستقل نوعیت کا کام کیاہے۔
(۱) صوت الامۃ کی ادارت: چالیس سالوں تک یہ کام مستقلا انھوں نے کیا، چالیس سال کی فائلیں ہی چارسو سے زیادہ شماروں پر مشتمل ہیں، کچھ دنوں سہ ماہی کو اگرالقط کردیں توکم ازکم ان شماروں کی تعداد ساڑھے چارسوبنے گی، ان کا اداریہ مستقلا انھوں نے ہی لکھا ،چندسال گیپ ہوا ہوگا جب وہ علی گڈھ پی .ایچ.ڈی. مکمل کرنے کے لئے مقیم تھے، اس اثناء میں مولانا عبدالحمید رحمانی نے کچھ شماروں کو ترتیب دیاہے، ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ اداریوں کوہی اگرشمارکیا جائے توادارتی تحریریں دوہزارصفحات سے کم نہ ہوں گی۔
(۲) ڈاکٹر صاحب ادارۃ البحوث کے نگراں تھے، انھوں نے اپنی نگرانی میں چارسو سے زیادہ کتابیں چھپوائی ہیں اور ان کا مقدمہ لکھا ہے، کتابوں پر پیش لفظ بھی دوہزارصفحات سے زیادہ ہوں گے۔
(۳) ادب پربھی ان کی تحریریں اصل یا ترجمہ کی صورت میں کم وبیش دوڈھائی ہزارصفحات پرپھیلی ہوئی ہیں، اگرمیں یہ کہوں کہ عربی ادب پراردومیں ان کی تحریریں ہندوستان میں سب سے زیادہ ہیں توشاید بات غلط نہ ہوگی، شاید یہ امتیاز انھیں حاصل ہے، عصری جامعات میں شعبہ عربی سے وابستہ حضرات کے لئے یہ ادبی کارگردی قابل رشک ہے۔
(۴) مقامی وعالمی سمیناروں میں ان کی دوامی شرکت، صدارت اورمقالہ خوانی میں وہ اپنے سارے ہم عصروں سے آگے تھے، ان پروگراموں میں ان کے افکار وکلمات اورخطبات کا حجم بھی بہت بڑا ہے، ان کو اگراکٹھا کیاجائے تویہ بھی ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہوں گے ،ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ چند منٹ کے خطاب کے لئے بھی وہ نوٹس تیار کرلیتے تھے۔
(۵) مقالہ نگاری:اردواورعربی میں ہمیشہ ڈاکٹرصاحب مجلات کے لئے لکھتے رہتے تھے، میں نے ۱۹۶۷ کے ’’معارف‘‘ کے دوشماروں میں سب سے پہلے ان کا ایک مضمون دیکھا پھرمختلف جماعتی اور غیر جماعتی مجلات وجرائد میں ان کے مضامین چھپتے رہے اورجامعہ سلفیہ کے ماہنامہ ترجمان’’محدث‘‘ کے ہرشمارے میں بالالتزام ایک مضمون رہتا تھا، یہ سارے مضامین معتدبہ تعدادمیں ہیں اوراگرانھیں اکٹھا کیاجائے تویہ بھی کئی جلدوں میں آئیں گے۔
(۶) ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ میں اپنے چالیس سالہ دورمیں کئی علمی ادبی اورعالمی محفلیں سجائی ہیں، یہ کتنا کامیاب تھیں اس سے قطع نظر ان سے جامعہ میں علمی چہل پہل قائم رہی، اورعلمی بہاریں آتی رہتی تھیں، ان کے سجانے بنانے اوران کے پیچھے تحریری کاموں کوانجام دینے میں سب سے بڑا ہاتھ ڈاکٹرصاحب ہی کارہتا تھا، اوریہ بھی توہے کہ جامعہ کے سارے تصنیفی وتالیفی ترجمے کے پروگرام انھیں کے بنائے ہوئے توہیں، کم وکیف سے قطع نظر سارا علمی ڈھانچہ اوراس کا سارا رابا ڈھابا انھیں کا ہوتا تھا۔
(۷) ترجمہ کا کام: ڈاکٹرصاحب کی سب سے بڑی پہچان ایک مترجم کی حیثیت سے ہے، ان کے کاموں کا سب سے بڑا حجم ترجمے کا ہے، ابتکار اورتخلیق کے مقابلے میں ترجمہ کا حجم ان کی تحریروں پر حاوی ہے ،یہ ترجمہ کا کام مقصدیت اورعزائم کے برخلاف نہیں ہے، اگرمقصدیت ہے اورانفرادی وسماجی عزائم سے ہم آہنگ ہے توترجمہ کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے، اوراس گلوبل ایج میں ترجمہ کی اہمیت میں بہت کافی اضافہ ہوچکا ہے، بسا اوقات ترجمہ اصل سے زیادہ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے اوراسے زیادہ پذیرائی مل جاتی ہے، علامہ شکیب ارسلان نے حاضرالعالم الاسلامی کو وہ رفعت عطاکی جواصل کو اس کا عشرعشیربھی نہ ملا، ابوزہرہ کے سلسلہ اعلام کو علامہ بھوجیانی نے اردو قالب میں وہ مقام عطاکیا اوراس کی علمی حیثیت ایسی بلند کی جو اصل کو عربی میں میسر نہیں ہے اور اردودانوں کے لئے جس طرح اسے لائق استفادہ بنادیا عربی اصل کی وہ بات نہیں ہے۔
ترجمہ کے سلسلے میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس فن میں امتیاز حاصل تھا اورانھوں نے اس فن کو نکھارابنایا، اکثردیکھاگیا ہے کہ ترجمے میں بھاری بھرکم الفاظ استعمال ہوتے ہیں تولوگوں کے لئے وہ بڑا جاذب نظرہوتا ہے اوراس کی رجاحت کو لوگ تسلیم کرنے لگتے ہیں بغیریہ جانے کہ مؤلف کے مفاہیم کی صحیح ترجمانی ہوئی ہے یا نہیں، ترجمہ ایک فن ہے جس کو ادبی وعلمی ذوق نہ ملا ہو، قواعد وبلاغت کے اصولوں سے آگاہ نہ ہو، لسانی تعبیرات پرپکڑنہ ہو،لسانی شعورو ادراک نہ ہو،ڈکشن مضبوط نہ ہو، وہ صحیح ترجمہ نہیں کرسکتا ہے، وہ عبارتوں پراڑسکتا ہے اورمصنف کی عبارتوں کو ذبح کرسکتا ہے اوراس کے معانی ومفاہیم کو ریت اور مٹی بناسکتا ہے، ترجمہ نام ہے معانی اور مفاہیم کو ایک قالب سے دوسرے قالب میں ڈھالنے کا، ایک لباس بدل کر دوسرا لباس پہنانے کا، اگرلباس حروف ہیکل معانی پر استوارنہ ہوں اوردیدہ زیب نہ بن سکیں اورہیکل معانی کوبرقرار نہ رکھاجاسکے بلکہ اس کے اندر توڑپھوڑ مچ جائے تواسے ترجمہ نہیں تخریب کہیں گے، ایک زبان سے دوسری زبان میں حرف ومعنی کی تشکیل بڑا لطیف اورلطف اندوز کام ہے اورمشکل بھی ، یہ جام وسندان باختن کا کام ہے یہ کام ہرایک سے نہیں ہوسکتا۔
اگرترجموں کے غلطی ہائے مضامین کے عنوان پرکام ہو توایک چشم کشا کام ہوگا، عقیدے کی ایک کتاب کا اردوترجمہ چھپاہے، عربی زبان میں عقیدہ کی تعریف میں ایک عبارت ہے’’العقیدۃ ہی القضایا، المسلمۃ عندالعقل والنقل‘‘ اس کا ترجمہ اس طرح کیاگیا ہے، ’’عقیدہ ایسے فیصلوں کانام ہے جسے عقل ونقل کے ذریعہ کیاجاتاہے’’مترجم بیچارے نے قضایا کو اقضیہ سمجھ لیا ہے اورعقیدہ اس کے نزدیک عقل سے بھی طے ہوتا ہے، سب جانتے ہیں عقیدہ توقیفی مسئلہ ہے اس میں عقل کو دخل نہیں، نصوص الٰہیہ نبویہ موثقہ محکمہ اس کی بنیاد ہوتی ہے اورمشکل یہ ہے کہ اس کتاب کے ترجمے کی توثیق علماء کبار کی ایک ٹیم نے کی اورترجمہ چھپ گیا، بہت سی ایسی مثالیں اورعجائبات ترجمے کی دنیا میں موجودہیں، ایک تفسیر’’اردوئے مبین‘‘ میں ہے اوراس کے پڑھنے والے اس کے مصنف کو دنیاکا امام اکبر سمجھتے ہیں کہ اس جیسا باکمال مصنف دنیا میں پیدانہیں ہوامگر اس کے ترجمہ قرآن میں ہرسطر میں شاید غلطی مل جائے۔
ترجمہ ایک فن ہے یہ کام سب کے بس کانہیں ہے، فن کا ماہرہی یہ کام کرسکتا ہے، ڈاکٹر صاحب اس فن کے ماہر تھے اورمزاولت نے ان کے اس فن کونکھاردیاتھا۔
(۸) تالیف کا کام:ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ نے تصنیف وتالیف کا کام بھی کیا اورعربی اردودونوں زبانوں میں یہ کام کیا اوردونوں زبانوں میں قریباڈیڑھ درجن کتابیں ان کی یادگار ہیں، یہ کتابیں قضایا معاصرہ، سماجی اوردینی مسائل پر ہیں اوراپنے موضوع پر معلومات افزاہیں۔
(۱۰) مکتوبات: ڈاکٹرصاحب نے اپنی عمرکا بیش بہا حصہ جامعہ سلفیہ میں لگایا اوراس کے پالیس ساز منتظم کاراوراندورنی وبیرونی دنیا سے تعلق برقرار رکھنے کے لئے وکیل بنے رہے، جامعہ کے چالیس سالوں کی دستاویزات(قانونی کے استثناء کے ساتھ) نوشتے، سندات، مکاتبات، مذاکرات، نوٹس، تنبیہات، فرمودات، فرامین سب کچھ وہی تیار کرتے رہے ہیں، جامعہ سلفیہ کی تاریخ میں اورمصادر تاریخ میں یہ سارے نوشتے کئی ہزار صفحات کو گھیرے ہوئے ہیں، یہ ایک مثالی اورعظیم کا رنامہ ہے اسے شاہکارکام سمجھئے، یہ کام جس سلیقے، امانت، توجہ اورذمہ داری سے انجام پایا میری معلومات کی حدتک ہندوستان کے کسی دوسرے ادارے میں اس کی نظیرنہیں مل سکتی ہے، جب وہ باحیات تھے تب اس کام کو ڈھنگ ڈھنگ نام دیاجاتا رہاہوگا مگراب اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔
انھیں قربانیوں، سلیقہ مندیوں، محنت، انضباط وقت اورانضباط حیات کا نتیجہ تھا کہ ان کے ہم عصروں میں بہت سے اسپہائے تازی زندگی کی دوڑمیں کئی میدانوں میں ان سے پیچھے رہ گئے اورپوری جماعت میں ان کی حیثیت سب سے نمایاں بن گئی جسے ان کا دشمن بھی تسلیم کرنے پرمجبور ہوگا، انھوں نے اپنے تشخص کوجیسابھی تھا اورجوبھی تھی بچایانکھارا اوربے جا امور میں الجھایا نہیں ،انھوں نے اپنی صلاحیت کوبھرپور طورپر نکھارابنایا،انھوں نے ہرشئے میں سلیقہ مندی کو اپنایا، لباس، نشست وبرخاست، گفتگو، تحریر، تقریر، گھر،آفس، روزانہ تصرفات غرضیکہ ہرشئے سے سلیقہ مندی ٹپکتی تھی۔
دراصل ان کی علمی شخصیت کی تشکیل وتعمیرمیں مصری اساتذہ کا سب سے بڑاہاتھ تھا، ان کو جوماحول اورسرکل ملاوہ علمی تھا، ہندوستان میں ان کو اپنے علمی وطبعی رجحان کے سبب یونیورسٹی طبقہ سے زیادہ قرب حاصل تھا گویہ حلقہ عیاری، جہالت اور سخن سازی میں طاق ہے، اس حلقے سے ا نھیں مادی منفعت جوبھی ملی ہو علمی منفعت کم ہی ملی، بلکہ ان کا استحصال ہوا اورساتھ ہی جامعہ کا بھی، یونس نگرامی، مختار الدین آرزواور نثارفاروقی جیسے شاطر لوگ ازہری جیسے بامروت لوگوں کو چٹکیوں میں اڑانے والے ہوتے ہیں۔
ان کی علمی شخصیت کا ثقل جامعہ سلفیہ کے پلڑے میں کتنا پڑا اس بحث میں نہیں پڑتا، اس سلسلے میں میری رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کا ذکر ضروری ہے کہ جامعہ میں جوکچھ علمی چہل پہل تھی انھیں کی ذات سے تھی ،اس بزم کے دولہا وہی تھے اورجوعلمی ساکھ جامعہ کی بنی اس میں ان کا قیادی رول ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کے اندر بہت سی چھوت چھات کی بیماریاں لگ گئیں جن کی کسی کے پاس کوئی دوانہیں ہے، یہ بیماریاں کس کے سبب متعدی ہوئیں یہ بھی عالم آشکاراہیں، ان بیماریوں کے سبب جامعہ کی حیثیت مرگئی اوراس کی کارگردی سردپڑگئی۔
لوگوں کے عزائم، ارادے، مقاصد، سرگرمیاں اورنیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، ذہنیت اوررویہ بھی الگ الگ ہوتا ہے، اس تفاوت کو مد نظررکھیں اوردیکھیں تو بھی ڈاکٹر صاحب اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظرآئیں گے، میں نے ہمیشہ ان کی قدرکی ہے اورانھیں دوسروں پر فوقیت دی ہے اورآج بھی دل سے انھیں تسلیم کرتا ہوں، میں شاگرد وہ استاذ ،میں خوردوہ بزرگ، میں چھوٹا وہ بڑے لیکن ہماری یہ برائی سمجھئے یا خوبی میرا مزاج کسی کی آقائیت تسلیم کرنے کانہیں ہے، میں اپنے بزرگوں کا احترام لازمی سمجھتاہوں اوران کے احترام کواسلامی تہذیب کی بنیاد مانتاہوں اگرخوردوں اوربزرگوں کے درمیان شفقت ومحبت اوراحترام کاتعلق برقرار نہ رہے توپھرسارے علمی دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں، کبرورعونت کے پھلنے پھولنے کا ماحول بن جاتا ہے، استاذو شاگرد کے تعلق کا تقدس پامال ہوجاتا ہے، میں آج بھی صمیم قلب سے اپنے استاذ اور بزرگ کی قدرکرتا ہوں،مسئلہ یہ ہے جب بزرگوں کی طرف سے بالتواتر بے ضابطگیاں نظرآئیں اورخوردوں کو بلڈوزکیاجانے لگے اورخوردوں کوہرمحفل میں زیربحث بناکرانھیں ڈسکارڈ کرنے کی غیرشعوری کوشش ہوتویہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے ،بیماری کی طرف ایسی حالت میں اشارہ کرناہی پڑتا ہے لیکن پھربھی صبروتحمل کا رویہ ہرحال میں قابل ستائش ہے، اورکسی کا اس طرح کا تصرف اس کی حیثیت کو گرانہیں دیتا ہے نہ اس کے کمالات، مجہودات اورامتیازات کوکم کرتا ہے، زندگی کے بہت سے رخ ہوتے ہیں جن رخوں کے ہوتے انھیں نظر انداز کرنا پڑتا ہے، ان سلبیات اورروگ کے علاج کی بات ہوتو بہت سے باؤلے اسے جامعہ کی حرمت پردست درازی سمجھتے ہیں، ایسی سوچ احمقانہ سوچ ہے۔
ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ ہمارے استاذ تھے ،دورطالب علمی میں انھوں نے میرے اوپربہت شفقت فرمائی ہے، بہت کم لوگوں کوایسی شفقت ملی ہوگی، اوریہ اعتراف بجاہوگا کہ کئی اہم موڑپرانھوں نے ہمارا ہاتھ تھاما ہے، میری تعلیمی زندگی میں اس ناحیے سے وہ ہمارے بہت بڑے محسن ہیں اورجامعہ کے دورتدریس میں ناظم جامعہ مولانا عبدالوحید رحمہ اللہ کے بقول انھوں نے میری نازبرداری کی ہے، اورکہنا بھی صحیح ہوگا کہ تحریرونگارش کی دنیا میں انھوں نے میرے اوپر بڑا اعتبار بھی کیا ہے اورہماری تحریروں اورفکر وخیال کے بڑے قدردان بھی تھے، ایسا بھی ہواہے کہ اگرکبھی عربی وفارسی کی عبارت غیرمفہوم ہوتی تو بلاتکلف تبادلہ خیال کرتے تھے، اورجب بھی ملاقات ہوتی توعمومابڑی محبت اورتوجہ سے باتیں کرتے اورمسلک وجماعت اور علم وادب سے متعلق گفتگو کرتے اورغورسے سنتے، اورعلمی وذاتی امورمیں بھی شفقت ومحبت سے مشورے دیتے، کم ازکم مجھے اپنے بزرگوں میں کسی سے ایسی نصیحت اورشفقت نہیں ملی، ہمارے ان کے درمیان غلط فہمی کے اسباب کئی ایک اکٹھاہوگئے، جامعہ کا نظام میرے لئے نظام جبرتھاجسے میں کبھی نہ جھیل سکا اس کے ساتھ اوردیگرقباحتیں جڑی تھیں جومیرے نزدیک سخت ناپسندیدہ تھیں اوروہ جامعہ کی قوت محرکہ تھے اورقائدانہ رول پلے کرتے تھے، پھربہت سے مسائل میں نقطہائے نظرمیں بڑا بعدبھی تھا، اوربات زیادہ یہ کھلتی تھی کہ فاسقوں، فاجروں، چھوٹے بھیوں اورفسادیوں کو ان کا تقرب حاصل ہوگیا تھا یا ان کی طرف ان کا میلان ہوگیا تھا،جومیرے لئے خلش کا باعث تھا۔
بہرحال وہ جماعت کے ایک ممتاز عالم تھے اوراپنے ہم عصروں میں بہت سے اعتبارسے فائق ان کی محنت قابل رشک، ان کی جہود علمیہ فراواں، ان کی شخصیت موثر اوران کے انداز واطوارخوشنما، اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت فرمائے، ان کی لغزشوں کومعاف کرے اورانھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment