Sunday, June 20, 2010

ملت وجماعت کا گنجینۂ گراں مایہ apr-jul 2010

شمیم احمدندویؔ
ملت وجماعت کا گنجینۂ گراں مایہ
۲۹؍اکتوبر۲۰۰۹ء کی رات میں بیرون ملک کے ایک سفر کے سلسلہ میں میراقیام لکھنؤ میں تھا، کہ رات تقریباً دس بجے مولانا عبدالمنان سلفی کا فون آیا جوکہ سفر حج کے سلسلہ میں خودبھی لکھنؤ ہی میں مقیم تھے اورجامعہ سے لکھنؤ تک کا ان کا سفراسی دن میرے ہمراہ ہی ہواتھا، فون پرانھوں نے یہ المناک خبردی کہ ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا، اس خبر وحشت اثرسے دل پر غم والم کی عجیب کیفیت طاری ہوئی اورجماعت کے ایک مقتدرعالم دین اورعلم وادب کے گنجینۂ گراں مایہ سے مالامال شخصیت کی ناگہانی وفات دل کو تڑپاگئی، میں نے بیماری اوروفات کی تفصیلات جاننی چاہی توفوری طورپر صرف اتنا معلوم ہواکہ بغرض علاج دلی لے جائے گئے تھے کہ وہیں پر وقت موعود آپہونچا، دورحاضرکی اس عظیم علمی وادبی شخصیت سے جماعت کی محرومی اورملت کے ناقابل تلافی زیاں وخسارہ کا احساس قلب پردیرتک طاری رہا، لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ مولانا عبدالمنان سلفی کے ذریعہ ہی اس خبرکی تردید کا فون موصول ہوا اورانھوں نے بتایا کہ وفات کی خبردرست نہیں تھی البتہ دلی میں واقع بتراہاسپٹل میں جہاں ان کا علاج چل رہاتھا وہاں کے ڈاکٹروں نے ہرممکن تدبیر کرنے اورہرطرح کی دوائیں آزمانے کے بعداپنی بے بسی کااظہار کردیا ہے اورمرض میں کوئی افاقہ نہ دیکھ کرشفایابی سے مایوسی ظاہرکردی ہے اورجواب دیتے ہوئے ان کے تیمارداروں کوانھیں گھرلے جانے کی تلقین کردی ہے، چنانچہ ان کے اقرباء ان کو دلی سے واپس لے کرگھرآرہے ہیں، لیکن حالت تشویشناک ہے اورمرض سے صحت یابی کی کوئی امیدباقی نہیں رہی، پھر ۳۰؍اکتوبر کی صبح مولانا عبد المنان سلفی نے یہ اندوہناک خبر دی کہ ازہری صاحب کاکانپورکے قریب انتقال ہوگیا، اس کی تصدیق پھرجامعہ سے آئے ہوئے ایک فون کے ذریعہ بھی ہوگئی جس میں جامعہ کے اساتذہ ۔جن میں ایک بڑی تعداد ان کے تلامذہ اورشاگردوں کی بھی ہے۔ یہ دریافت کرناچاہ رہے تھے کہ جنازہ میں شرکت اوراپنے ہردل عزیز استاد کی آخری رسومات کی ادائیگی میں اپنی موجودگی کی خواہش کو کیوں کرعملی جامہ پہونچاسکتے ہیں، میں نے وہیں سے گاڑی کا انتظام کرکے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اساتذہ کے شریک جنازہ ہونے کی ہدایت کردی اورخودسفر پرہونے کی بناپر جنازہ میں شریک نہ ہوسکنے کے لئے دل مسوس کررہ گیا، پتہ یہ چلاتھا کہ رات میں بعدنماز مغرب یاعشاء نمازجنازہ ہوگی جب کہ اسی رات میں قطرکے لئے میری فلائٹ تھی۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے اپنی فراغت کے بعداور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر کی مجلس عاملہ کاممبراورنائب ناظم منتخب ہونے کے مختصرعرصہ میں جب میں نے جامعہ کے معاملات میں بعض چھوٹے موٹے کاموں اورخطوط وغیرہ تحریر کرنے کے سلسلہ میں عم محترم خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اللہ کا ہاتھ بٹانا شروع کیا اسی وقت سے وقتاً فوقتاً ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کانام کانوں میں پڑتا رہا اورغائبانہ طورپر ان کی شخصیت سے تعارف ہوتارہا اورگزرتے وقت کے ساتھ ان کے متعلق واقفیت بڑھتی رہی، پھرجب ہمارے جامعہ نے جامعہ سلفیہ کے بعض فارغین کی تدریسی ودعوتی خدمات حاصل کیں توان میں موصوف مرحوم کے بعض ہونہار شاگرد بھی تھے جواپنی علمی وادبی صلاحیتوں کی وجہ سے جامعہ میں ممتاز تھے، تو ان کے ذریعہ بھی ازہری صاحب کی مورخانہ بصیرت اورادبی صلاحیت کاتذکرہ کبھی کبھی سنتارہا، لیکن ان کا مکمل تعارف اوران کی شخصیت کے مختلف گوشے اس وقت میرے سامنے نمایاں ہوکرآئے جب جامعہ کی مکمل ذمہ داری مجھ ناتواں کے کندھوں پرآگئی، اس مرحلہ میں ان سے خط وکتابت بھی رہی اورٹیلی فونی رابطہ بھی اور انھوں نے جامعہ کو رواں دواں رکھنے ،خطیب الاسلام رحمہ اللہ کے خون جگرسے سیراب کردہ پودے کی آبیاری کرنے اوران کی یادگاروں کوباقی رکھنے کے سلسلہ میں کچھ مفید مشورے بھی دئے اور ان کی سوانح حیات کتابی شکل میں شائع کرنے کا گراں قدرمشورہ بھی دیا اوراپنے قلبی تعلق اوردلی لگاؤ کابے تابانہ اظہاربھی کیا، یہ چیزیں غائبانہ طورپرجاری رہیں لیکن ملاقات اوربالمشافہ گفتگو کے لئے کوئی موقع نہ مل سکا، اس عرصہ میں میں نے جامعہ کے بعض پروگراموں میں ان کوشرکت کی دعوت بھی دی لیکن وہ اپنی عدیم الفرصتی سے زیادہ غیر معمولی احتیاط پسندی کی بناپرنیپال آنے سے ہچکچاتے رہے اورہمیشہ تذبذب کاشکاررہے اوراس دوران نیپال کے سیاسی حالات بھی ماؤنوازوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی بناپرکافی دگرگوں اورابترتھے، لوگوں کی جان ومال اورعزت وآبرو کاکوئی محافظ نہیں تھا، ملکی حالات بہت ہی مخدوش اورتشویشناک ہوچکے تھے اورہندوستانی اخبارات میں بھی یہاں کے حالات موضوع بحث تھے، اس لئے اس دوران محتاط لوگ ویسے بھی یہاں کا سفر کرتے ہوئے گھبراتے تھے، بہرحال ہم نے ان کو دعوت تودی لیکن غیریقینی حالات کے پیش نظراس پرزیادہ اصرارکرنا مناسب نہ سمجھا اس طرح میں عرصہ تک اس عدیم المثال علمی وادبی شخصیت کی زیارت اوران کے علم وفضل سے استفادہ کرنے سے محروم رہا۔
مئی ۲۰۰۷ء ؁ میں جامعہ سلفیہ بنارس میں’’نواب صدیق حسن خاں: حیات وخدمات‘‘کے موضوع پرایک سمینار کا انعقاد ہوا اس میں جماعت کے مقتدرعلماء کے ساتھ مجھ ناچیز کوبھی شرکت کادعوت نامہ ملا اوراس کی سعادت حاصل ہوئی، میں دیگر مہمانوں کے ساتھ جامعہ کے مہمان خانہ میں مقیم تھا کہ مہمانوں سے ملاقات کے لئے ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری صاحب تشریف لائے ،میں نے دیکھاکہ شیروانی میں ملبوس ایک وجیہ وبارعب شخصیت ہال میں داخل ہوئی، وقارو تمکنت کاپیکر،علمی وجاہت سے معمور، آنکھوں میں ذہانت کی چمک اورپیشانی پرعلوم نبوت کا نور، ظاہری وضع قطع عالمانہ اورگفتگو فاضلانہ لیکن انداز فقیرانہ اورچال ڈھال سے تواضع وخاکساری کااظہار یہ سارے اوصاف بحیثیت مجموعی ان کو اوروں سے ممتاز بنارہے تھے، انھوں نے سب کے پاس تھوڑی تھوڑی دیررک کرخیریت دریافت کی اوران کو دیکھ کرلوگ احتراماً کھڑے ہوگئے، میرا تعارف ان سے صرف غائبانہ تھا میں ان کی صورت سے آشنانہ تھا ،چنانچہ میں نے غیرمعمولی طورسے ان کے احترام وتوقیر کودیکھتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے مولانا عبدالمنان سلفی سے بہت آہستگی سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ توانھوں نے اتنی ہی خاموشی سے جواب دیا کہ ازہری صاحب یہی ہیں، پھر وہ ہماری طرف بڑھے توانھوں نے دوطرفہ تعارف کا باقاعدہ فریضہ اداکیا، یہی میری ان سے پہلی ملاقات تھی، کچھ وقفہ کے بعدجامعہ سلفیہ بنارس کے وسیع وعریض ہال میں پروگرام شروع ہوا توان کے علمی جوہر نمایاں ہوئے اور انھوں نے نہایت ہی شستہ زبان میں نہ صرف پروگرام کی غرض وغایت اوراس کی اہمیت وافادیت پرروشنی ڈالی بلکہ نواب صدیق حسن خاں کی زندگی کے بعض گوشوں اوران کے کارہائے نمایاں پراور ان کی علمی خدمات پرنہایت ہی فاضلانہ تقریرکی، اوراپنے مقالہ کے اقتباسات پیش کئے، اس سے ان کے مطالعہ کی گہرائی اورمتعلقہ موضوع پر معلومات کی وسعت کاخوب خوب اندازہ ہوا، اپنے بلیغ انداز بیاں اوروقیع معلومات کے دریابہانے کی بناپر وہ ہال میں موجود سامعین کی توجہ کا مرکز بنے رہے اورپروگرام کی کامیابی میں ان کا کردارنمایاں رہا۔
گذشتہ سال اکتوبر کے مہینہ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے ملک کی راجدھانی دہلی میں ایک عظیم الشان تاریخی کانفرنس منعقد کرنے کافخر واعزاز حاصل کیا، اس کانفرنس کے لئے جب اعلانات وتیاریوں کاآغاز ہوا توصدراستقبالیہ کے لئے ذمہ داران جمعیت کی نظرانتخاب ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ پرہی پڑی، کیونکہ جماعت میں ان سے زیادہ ذی علم اورمعتبر ومستند شخصیت کوئی اورنظرنہیں آتی تھی اوراس منصب کاحق اداکرنے اوراس کے ساتھ پوری طرح انصاف کرنے کے لئے کوئی اورشخص موزوں نہ معلوم ہوا جوجمعیت کی پوری تاریخ سے واقفیت بھی رکھتا ہو اورجماعت کی تعمیر وترقی سے دلچسپی بھی، ملت کا دردبھی اس کے سینہ میں پنہاں ہواورملت وجماعت کا رمز شناس بھی ہو، ساتھ ہی ملک میں موجود متوازی تحریکات ونظریات کے فوائد ونقصانات پربھی اس کی گہری نظرہو اورجو مورخانہ بصیرت سے مالامال اورعلم وعرفان کی بلندیوں پرفائز ہو، انھوں نے اس منصب وذمہ داری کو شرح صدرسے قبول کیا، اجلاس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اپنے اوقات کو فارغ کیا اورایک بلیغ ووقیع اورپراز معلومات خطبہ استقبالیہ تحریر کیا، میری ان سے دوسری ملاقات جوشومئی قسمت سے آخری بھی ثابت ہوئی، اسی اسٹیج پرہوئی، وہاں انھوں نے اپنے طویل خطبۂ استقبالیہ کے اقتباسات پیش کئے جس میں جمعیت وجماعت کی پوری تاریخ اوراس کے نشیب وفراز اورسردوگرم کردار کو کہیں اختصار اورکہیں شرح وبسط سے پیش کیا، چنانچہ جمعیت وجماعت کی تاریخ جب بھی مستقبل کا منصف مورخ لکھے گا توان کاتذکرہ کئے بغیر یہ تاریخ نہ مکمل رہے گی، جس طرح مرکزی جمعیت اہل حدیث جوماضی میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے نام سے جانی جاتی تھی، ملک کی آزادی کے بعدنشاۃ ثانیہ کا ذکرہوگا تونوگڈھ کانفرنس کے بغیر یہ ذکرمکمل نہیں ہوسکتا اورجب نوگڈھ کانفرنس کا تذکرہ ہوگا توخطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ کے تاریخی خطبۂ استقبالیہ کے بغیر اورمولانا عبدالجلیل رحمانی کے اخلاص اور بے مثال لگن اورجدوجہد کے بغیر یہ تذکرہ ادھورا ہوگا۔
اسی طرح جماعت اہل حدیث نے آزادی ہند کے بعدجن نابغہ روزگار اورعبقری شخصیات کوپیداکیا ان کا جب تذکرہ ہوگا تو ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کو اس میں نمایاں مقام حاصل ہوگا کیونکہ کم ہی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جوبیک وقت کئی طرح کی صلاحیتوں اورمختلف طرح کی خوبیوں سے مالا مال ہوں، وہ انھیں نادرالوجود شخصیات میں شامل تھے جوبیک وقت داعی ومبلغ، مایہ ناز خطیب، ماہرقلمکار ومصنف، حالات حاضرہ سے واقف صحافی ،سیال قلم کامالک، سیاسی مسائل کا ناقدومبصر، اخاذ ذہن ودماغ کاحامل، وسیع مطالعہ سے مالا مال، قوت حافظہ وقوت استحضار سے بہرہ ور، تجربہ کارمدرس ومربی بلکہ مسند درس کی رونقیں جس کے دم سے آباد اوراسٹیج کی رونقیں جس کے دم سے معمورہوں، اسی طرح عربی زبان وادب کی باریکیوں سے واقف اوراردوزبان پرمکمل عبور، دونوں زبانوں کا ماہرانشاء پرداز اورعربی زبان کا صاحب طرز ادیب، فکروفن کی بلندیوں پرفائز اوربحرحدیث کا شناور غرض کہ ایسی لازوال خوبیوں کی مالک شخصیت جس پرکسی بھی قوم کو بجاطورپر نازہوسکتا ہے۔
مشرقی یوپی میں مؤ واعظم گڈھ ایسے مردم خیز اضلاع ہیں جنھیں کئی مایہ ناز شخصیات کا مولدومسکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے، انھیں میں ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کا اسم گرامی بھی شامل ہے اوروہیں جماعت اہل حدیث کے تین بڑے ومعروف ادارے ہیں، جب کہ کئی دیگر چھوٹے وپرائمری ادارے ودینی مکاتب ہیں ،ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ان تینو ں اداروں سے کسب فیض کیا، جامعہ عالیہ عربیہ سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی، جب کہ اس سے قبل دارالعلوم جومرزاہادی پورہ میں واقع ہے وہیں سے تعلیم کا آغاز بھی ہوگیا تھا اورحفظ کی تکمیل بھی وہیں سے کی، جامعہ عالیہ عربیہ کے بعدمؤ کے معروف دینی ادارہ جامعہ اسلامیہ فیض عام میں داخل ہوئے ،جہاں گرچہ عالمیت تک کی تعلیم ہوتی ہے اوراس کے فارغین کو فیضی کہاجاتاہے وہاں عربی زبان وادب اور مروجہ علوم اسلامیہ حدیث وفقہ اورتفسیر وغیرہ میں بڑی حد تک رسوخ وکمال حاصل کیا، لیکن یہاں ان کی تعلیم ثانویہ کے بعد منقطع ہوگئی اورفراغت کی سند انھوں نے یہاں سے نہیں حاصل کیا، بلکہ اس کے لئے انھوں نے مؤ کے تیسرے بڑے ادارہ جامعہ اثریہ دارالحدیث کارخ کیا اوراپنی عالمیت تک کی تعلیم مکمل کرکے سند فراغت یہیں سے حاصل کی، اس طرح مؤ کے تینوں اداروں کے ماہرین فن اورمعروف اساتذہ سے اکتساب فیض کیا اوران کے دروس سے بھرپور فائدہ اٹھایا، جامعہ اثریہ دارالحدیث میں تعلیم کے دوران ہی انھوں نے یوپی بورڈ سے مولوی.عالم اورفاضل کی اسناد بھی حاصل کیں، ان کے ذہن رسا کی منزل صرف عالمیت کی سند نہ تھی بلکہ حصول علم کی حرص وطمع نے ان کو حدپرواز سے آگے جانے کا حوصلہ عطاکررکھا تھا، اس لئے وہ کسی ایک سند پر قانع نہ ہوسکتے تھے، چنانچہ جہاں انھوں نے عالمیت کی سند جامعہ اثریہ دارالحدیث سے حاصل کی وہیں مروجہ سرکاری اسناد میں اعلیٰ ترین سندوں سے اپنی صلاحیت اورعلم وفضل میں چار چاند لگائے، ان کی علمی منزل یہاں بھی نہ تھی بلکہ ان اسناد کی حیثیت توصرف ایک مستقر کی تھی ، جہاں وہ تھوڑی دیرتک سستانے کے لئے رکے اوراس استراحت کے دوران درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن آپ کی منزل مقصود آپ کو مزید بادیہ پیمائی کے لئے آوازدے رہی تھی، جس کو انھوں نے یہ کہتے ہوئے لبیک کہا ؂
مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلیٰ اقبال
کوئی دن اورابھی بادیہ پیمائی کر
چنانچہ ۱۹۶۳ء ؁ میں دنیا کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹی جامعہ ازہر مصرکے تعلیمی وظیفہ پرآپ سوئے ازہر روانہ ہوئے، وہاں آپ نے فیکلٹی آف اصول الدین میں داخلہ لے کروہاں سے M.A.کی باوقار سند حاصل کی، پھریہیں سےP.H.D.کے لئے رجسٹریشن کرایا اور ساتھ ہی دوسال تک قاہرہ ریڈیو کی اردوسروس میں مترجم واناؤنسر کے فرائض بھی انجام دئے، لیکن کچھ وطنی حالات سے مجبورہوکر یاکسی اوروجہ سے پی.ایچ.ڈی. کی تکمیل وہاں سے ممکن نہ ہوئی، وطن واپسی ہوئی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ علم وادب کے اس مایہ ناز سپوت کا طویل علمی سفریہیں پایہ اختتام کو پہونچے ،اسناد سے ان کا کمرہ ضرور آراستہ ہوگیا تھا جس میں حفظ، منشی، مولوی، عالم، فاضل، عالمیت اورایم.اے. کی اسناد شامل تھیں اور یہ اسناد آپ کے دستار فضیلت میں جگمگارہی تھیں، لیکن طلب علم کی پیاس ابھی بھی نہیں بجھی تھی، ۱۹۶۷ء ؁ میں ہندوستان واپس ہونے کے بعدجامعہ سلفیہ بنارس میں مسند درس پر رونق افروز ہوئے ساتھ ہی تحقیق وتصنیف کا سلسلہ بھی شروع کیا، اس وقت علمی دنیا میں ان کی شہرت ہوچکی تھی اوران کی آراء کو قدرکی نگاہ سے دیکھاجانے لگاتھا ،فکروفن کی دنیا میں ایک مفکر ودانشور کی حیثیت سے بھی ان کا چرچا ہونے لگاتھا، لیکن پھربھی افتا وطبع نے علم کے میدان میں قناعت کا سبق نہیں سیکھاتھا، ابھی انھیں اس میدان میں اورہفت خواں سرکرنے تھے، چنانچہ مزید حصول علم کے لئے اورملک کی مایہ ناز اسلامی یونیورسٹی علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے ناموراساتذہ سے اکتساب فیض کرکے اپنی علمی صلاحیتوں کومزید نکھارنا تھا اوراپنی اسناد کی فہرست میں کچھ اور وزن دار اورباوقار ڈگریوں کااضافہ کرناتھا، اس مقصدکے حصول کے لئے پھر ۱۹۷۲ء ؁ میں علی گڈھ کا رخ کیا اوروہاں سے ایم.فل. کی ڈگری حاصل کی پھراس سے تین سال بعد وہیں سے ادب عربی میں پی.ایچ.ڈی. کیا ،واپس پھرجامعہ سلفیہ کارخ کیا، وہاں پر ان کو ہاتھوں ہاتھ لیاگیا اوران کی غیرمعمولی پذیرائی ہوئی، اس سے قبل انھیں ۱۹۶۹ء ؁ ہی میں جب جامعہ سلفیہ بنارس سے ایک عربی مجلہ’’صوت الامۃ‘‘ نکالنے کافیصلہ کیاگیا تھا تواس کا مدیرمسؤل بنایا گیا تھا، کیونکہ جامعہ سلفیہ کے ذمہ داران کو اس عربی مجلہ کو ملک وبیرون ملک اور بلاد عربیہ میں مقبول بنانے کے لئے اس سے بہتر اور معتبرنام نہیں مل سکتا تھا، انھوں نے اپنی خداد اد علمی وادبی صلاحیتوں سے مجلہ کودنیائے علم وادب میں روشناس کرایا اوراس کی مقبولیت کوچارچاند لگائے۔
جامعہ سلفیہ کے سابق ناظم اعلیٰ مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ نے ایک ماہر وکامیاب جوہری کی طرح اس نایاب ہیراکی قدروقیمت کابروقت اندازہ کرلیاتھا لہذا ۱۹۸۷ء ؁ میں ان کو جامعہ کا ریکٹر بنادیاگیا، انھوں نے اپنے اس منصب سے جامعہ کو بہت فائدہ پہونچایا اورملک وبیرون ملک اس کے تعارف کوبہت وسیع کیا اوراس کی نیک نامی وشہرت میں گراں قدراضافہ کیا، ان کو بھی جامعہ سے جولگاؤ تھا اس کوناپنے کے لئے ابھی تک کوئی پیمانہ نہیں بناہے، عمرعزیز کا ایک بڑا حصہ انھوں نے جامعہ سلفیہ کی خدمت میں صرف کیا، جامعہ کے شعبہ نشرواشاعت ۔ جہاں سے سینکڑوں اہم کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ کے بھی نگران اعلیٰ بنائے گئے اوراس طرح اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ جامعہ سلفیہ کی خدمت اوراس کی تعمیر وترقی میں صرف کیا، فاضل وقت کو کتابوں کی تصنیف وتالیف ،ترجمہ وتبییض،کتابوں کے مقدمات تحریرکرنے اور’’صوت الامۃ‘‘ کا افتتاحیہ لکھنے میں صرف کیا، اس طرح ان کا وقت بہت ہی مصروف اورعلمی مشاغل سے معمور گذرا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے وقت میں بھی بہت برکت عطاکی تھی اورہمت وحوصلہ اورجوش وولولہ سے بھی نوازاتھا، کسی بڑے سے بڑے علمی کام سے وہ نہیں گھبرائے ،نہ ہی ذمہ داریوں کے قبول کرنے سے ہراساں ہوئے اورنہ ہی نامساعد حالات سے دل شکستہ وحواس باختہ ہوئے، غرض کہ ایسی شخصیات کسی بھی قوم وجماعت کا قابل فخر سرمایہ ہوسکتی ہیں اورصدیوں میں کبھی کبھی پیداہوتی ہیں اورایسی بے نظیر صلاحیتوں کی حامل لوگوں کے لئے ہم بجاطورپر کہہ سکتے ہیں ؂
اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
اذا جمعتنا یاجریر المجامع
***

No comments:

Post a Comment