Tuesday, June 15, 2010

ڈاکٹرازہریؔ اورمولانا منظر apr-jul 2010

مولانا عبدالباقی مظہرؔ
منظراکادمی، سمرا، سدھارتھ نگر

ڈاکٹرازہریؔ اورمولانا منظر

استاذمحترم ڈاکٹر علامہ مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ گونا گوں اوصاف وکمالات سے متصف تھے، منجملہ دیگرخوبیوں کے ان کا یہ وصف بھی بڑانمایاں تھاکہ موصوف اکابرعلماء اورجماعت کی مقتدرشخصیتوں کابھرپور احترام کرتے اوران کی خدمات کا اعتراف کرنے میں کبھی کمی نہ آنے دیتے، مولاناعبدالمبین منظررحمہ اللہ جماعت کے نامورعالم دین، مشفق مدرس ومربی، شعلہ بار مقرروخطیب، متعددعلمی واصلاحی کتابوں کے مصنف و مؤلف، کامیاب مناظر اور اسلامی شاعرتھے اور اپنے مدرسہ شمس العلوم سمراکی خدمت کے ساتھ جمعیت وجماعت کے پلیٹ فارم سے بھی دعوتی وتنظیمی خدمات آخری سانس تک انجام دیتے رہے، ذیل کے مختصرمضمون میں مولانامنظرؔ رحمہ اللہ کے فرزند مولانا عبدالباقی مظہرنے اپنے والدمحترم اورڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کے درمیان خوشگوار علمی ودعوتی تعلقات پرروشنی ڈالی ہے اورمیرے اس دعویٰ کو بہ طورمثال ثابت کیاہے کہ ازہری رحمہ اللہ کے یہاں اپنے اکابر علماء وافاضل اورہم عصروں کے لئے کس قدراحترام کے جذبات پائے جاتے تھے۔(ادارہ
محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ جماعت اہل حدیث کے عظیم مفکر، اردووعربی ادب پریکساں عبوررکھنے والے بہترین اسکالر اورجامعہ سلفیہ بنارس کے روح رواں تھے، آپ کے سانحۂ ارتحال سے جماعت اہل حدیث ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ سوگوارہے۔
اکتوبر ۱۹۸۹ء ؁ میں والد مکرم مولانا عبدالمبین منظررحمہ اللہ کی وفات کے بعدڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ سے میری بارہا ملاقات ومراسلت رہی بحمداللہ میں نے آپ کو خوردنوازی اوراخلاق فاضلہ میں یکتا اورلائق محمود پایا، والد رحمہ اللہ کی حیات وخدمات پر مشتمل کتاب’’نقوش منظرؔ ‘‘ کی اشاعت کا موقع رہا ہو یا آپ کی دوسری کتابوں کی اشاعت کا مرحلہ آپ نے ہمیں مفید مشورہ دیا اورکلمات خیرکے ساتھ ہماری کوششوں کوسراہا۔
والد مکرم مولانا عبدالمبین منظرؔ رحمہ اللہ اورڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے باہمی تعلقات بہت ہی خوشگوار تھے اوردونوں بزرگ ایک دوسرے کی قدرکرتے اورملتے جلتے رہتے تھے جس کا اظہار ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ نے یوں کیا ہے:
’’مولانا عبدالمبین منظر ؔ کانام زمانۂ طالب علمی میں سناتھا لیکن بات چیت اورتبادلۂ خیالات کاموقع بنارس میں قیام کے دوران میسرہوا‘‘۔(نقوش منظر:ص:۹)
’’منظرصاحب جامع کمالات شخصیت کے مالک تھے، علم وفضل کی جس بلندی پروہ فائز تھے اس کے بعدتواضع وخاکساری مشکل ہوتی ہے لیکن مرحوم کی ذات میں یہ جوہربے حدنمایاں تھا، جامعہ سلفیہ میں جب بھی وہ آتے اساتذہ وطلباء کے ساتھ بے حد محبت کے ساتھ ملتے کسی تکلف کے بغیرخندہ پیشانی سے بات کرتے اور اپنی علمی زندگی کے سبق آموز واقعات سناکرطلبہ کے حوصلے بلند کرتے، اسپتال میں آخری بارچند اساتذہ کے ساتھ جب ان سے ملاقات ہوئی تووہاں بھی اپنے علمی مباحثوں کے احوال سناکرہم لوگوں کو محظوظ کیا‘‘۔
’’بعض دینی جلسوں میں ان کے ساتھ شرکت کااتفاق ہوا یہ جمعیت میں ان کی نظامت کازمانہ تھا دوسرے مقررین کے ساتھ میں نے بھی حاضرین کی سمع خراشی کی بعدمیں انھوں نے اصرارکیا کہ ان منتشرخیالات کومرتب کردوں تاکہ وہ جمعیت کی طرف سے شائع ہوجائیں، یہ مرحوم کی ذرہ نوازی اورحوصلہ افزائی تھی ورنہ جوکچھ میں نے کہاتھا اس میں اتنی جان نہ تھی‘‘۔(نقوش منظر:ص۱۰،۱۱)
مندرجہ بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے کی قدردان تھیں، والد رحمہ اللہ کی زندگی میں کوئی ایسا موقعہ نہ آیا کہ وہ ڈاکٹرصاحب پرکچھ لکھتے مگرڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ کووالد صاحب پرلکھنے کابارہا موقع ملااورآپ نے پوری فراخدلی کے ساتھ والدصاحب کے کارناموں کوقوم وملت کے سامنے واضح کیا۔
۱۴۱۹ھ ؁ میں ڈاکٹر صاحب والد صاحب کی کتاب’’عقائد اسلام‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تحقیق وتصنیف پرموصوف کی قدرت اوراس باب میں ان کے مفید ووقیع کارناموں کودیکھ کردل میں خیال آتا ہے کہ اس بالغ نظر عالم،توحید وسنت کے شیدائی، اصلاح وتبلیغ کے رمزشناس اورسادہ ومخلص اہل قلم کے تئیں جماعت کافرض تھا کہ ہرطرح کی مصروفیات وتفکرات سے انھیں آزاد کرکے قلمی جہادپرلگادیا جاتا اوراس میدان میں ڈوب کر وہ علوم کتاب وسنت کی خدمت میں مصروف رہتے لیکنتجری الریاح بمالاتشتھی السفن۔(مقدمہ عقائد اسلام)
والد رحمہ اللہ نے درس وتدریس اوردعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ بریلویوں، دیوبندیوں ، مرزائیوں اورعیسائیوں سے کئی مناظرے بھی کئے ہیں اوراللہ کے فضل سے اس میدان میں وہ ہرجگہ کامیاب بھی رہے،چنانچہ آپ کی اس خدمت کے حوالہ سے ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ یوں لکھتے ہیں:
’’مولانا عبدالمبین منظررحمہ اللہ کے حالات زندگی اورعلمی مشاغل سے آگاہی رکھنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ موصوف کو مناظرہ پر قدرت حاصل تھی، حق بات کی توضیح اورتوحید وسنت کے موضوع پر پیداہونے والے شکوک وشبہات کے ازالہ کے لئے موصوف ہمہ وقت تیار رہتے تھے اورمخاطب کے مشکل کو سمجھتے تھے اوراسی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل ہوتی تھی‘‘۔(الظفرالمبین: جمادی الاولیٰ ۱۴۱۵ھ ؁)
اوروالد رحمہ اللہ کی تصنیف ’’سبیل الرشاد‘‘ کی اشاعت کے موقع پر ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ انھیں باتوں کویوں لکھتے ہیں:
’’منظر صاحب کاعلم وسیع اورنظر گہری تھی آپ تعبیر وبیان کی نزاکتوں سے بھی بخوبی واقف تھے اس لئے مسائل پربحث میں آپ کا انداز بہت دل نشین ہے اپنے دعویٰ کے اثبات اورمخالف کی تردیدمیں آپ ایسا اندازاختیار کرتے ہیں کہ بات دل میں اترجاتی ہے‘‘۔(سبیل الرشاد :۱۴۱۴ھ ؁)
والدصاحب رحمہ اللہ نے شعروشاعری کے ذریعہ بھی دین اسلام کی خدمت کی ہے آپ کی شاعری پر ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے یوں لکھاہے:
’’جماعت اہل حدیث کے ناموررکن اوربابصیرت عالم مولانا عبدالمبین منظرؔ رحمہ اللہ کاشمارایسے ہی شعراء میں ہے جن کاکلام کتاب وسنت کی صحیح ترجمانی اوراس کی تبلیغ واشاعت کے باب میں ممتاز ہے ‘‘۔ (زمزمہ حق:۶ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ ؁)
اوروالد محترم رحمہ اللہ کی شاعری کے حوالہ سے ایک دوسری تحریر میںیوں رقم طرازہیں:
’’مولانا عبدالمبین منظررحمہ اللہ کی شاعری کابیشترحصہ مذہبی شاعری کے ذیل میں آتاہے لیکن اس میں فنی محاسن کی کثرت ہے، منظرؔ صاحب اسلامی تعلیم کے ماہراورفن شاعری کے استاد تھے لہذا مذہبی طبقہ کی نفسیات پران کی نظرتھی ،جہاں کہیں انھوں نے اسلام پر عمل کی دعوت پیش کی ہے یامسلمانوں کے اندر پھیلے ہوئے غلط عقائد واعمال کی تردید کی ہے وہاں ان کے کلام میں معنویت وتاثیر اورتعبیر کاحسن موجود ہے‘‘۔(نغمۂ حیات آفریں:جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ ؁)
اوراسی موقع پر جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر اورجامعہ سلفیہ کے متعلق والد رحمہ اللہ کی نظم کاذکرڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ یوں کرتے ہیں:
جھنڈانگر کامدرسہ نعمۃ العلوم جواب سراج العلوم ہے اپنی خدمات کے لئے مشہورہے منظر صاحب کی نظم میں مدرسہ کے لئے ان کا تاثر سنئے:


۱۹۸۰ء ؁ میں جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس نے موتمرالدعوۃ والتعلیم منعقد کی تھی اس میں حرم مکی کے امام شیخ محمد بن عبداللہ السبیل ؍حفظہ اللہ پہلی بار ہندوستان تشریف لائے تھے بہت سے دوسرے عرب مشائخ بھی موجودتھے پوراماحول حجازوعرب کے رنگ میں ڈوباہوا تھا،منظرؔ صاحب اسی موقع پر اپنی نظم میں کیاخوب کہتے ہیں:
حجازی مے پلایئے، حجازی لے سنایئے
خوش آمدید و مرحبا، بعزو ناز آیئے

(نغمۂ حیات آفریں جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ ؁)
محترم قارئین یہ ہے ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ اوروالد صاحب رحمہ اللہ کی باہمی ملاقات اورایک دوسرے کی قدردانی اورعلمی ودینی محبت کی مختصر سرگذشت آج یہ دونوں شخصیتیں اللہ کوپیاری ہوچکی ہیں اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ دونوں کے حسنات کوقبول فرمائے اورجوبھی علمی فیوض وہ چھوڑگئے ہیں انھیں جاری رکھنے کی سبیل پیدا کرے اوران کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے اورہم کم علموں کو بھی دینی خدمت کی توفیق دے ۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment