Sunday, June 20, 2010

ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ جماعتی وذاتی اخلاق کے تناظرمیں apr-jul 2010

مولاناابوالعاص وحیدیؔ
پرنسپل جامعہ عربیہ قاسم العلوم ،گلرہا،بلرامپور

ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ
جماعتی وذاتی اخلاق کے تناظرمیں
اس عالم فانی میں حیات وموت کا سلسلہ جاری ہے، روزانہ بیشمار لوگ پیدا ہوتے ہیں اوران گنت افراد موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں، رفت وبودکے یہ مناظر سب کے سامنے ہیں، بہت سے لوگ پیداہوئے ،پلے اوربڑھے اورضروریات زندگی کی تکمیل کرکے راہی ملک عدم ہوگئے اوردوسرے لوگ جوابھی زندہ ہیں اپنی افتا وطبع کے مطابق حصول مقاصد میں لگے ہوتے ہیں، دراصل یہ خدائی نظام کاکرشمہ ہے جوقیامت تک جاری وساری رہے گا، قرآن کریم میں ایک مخصوص پس منظرکے ساتھ اس الٰہی نظام کاذکرکیا گیاہے:۔
(من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہٗ ومنھم من ینتظر ومابدلوا تبدیلا)(الأحزاب:۲۳)
مومنین میں کچھ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہواعہد سچ کردکھایا، ان میں سے بعض لوگوں نے اپناعہد پوراکردیا، اوربعض منتظرہیں، اورانھوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔
حیات وموت کے اس اٹل خدائی نظام کے تحت ہرسال ملّی وجماعتی سطح کی بڑی بڑی شخصیات رخصت ہوجاتی ہیں اوراپنے پیچھے بہت سے دینی وعلمی اورفکری وادبی آثار ونقوش چھوڑجاتی ہیں، انھیں عظیم شخصیات میں سے ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ(۱۹۳۹ء۔۲۰۰۹ء) بھی ہیں، جن کے بہت سے علمی وادبی کارنامے ملت وجماعت کے لئے عظیم سرمایہ ہیں۔
اب تک ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ پر مختلف اندازسے بہت کچھ لکھا گیاہے اورمستقبل میں لکھاجائے گا، ان شاء اللہ، میں اس مقالہ میں بڑے اختصار کے ساتھ ان کے جماعتی وذاتی اخلاق واوصاف پرروشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا، اس لئے کہ جماعتی وذاتی کردارہرانسان کی شخصیت کے دواہم پہلوہیں، واللہ ھو الموفق وھو المعین۔
جماعتی اخلاق:ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ جماعت اہل حدیث کے ایک ممتاز فردتھے، ان کے اندرپورے طورپر جماعتی مزاج پایاجاتا تھا، ان کو پختہ یقین تھا کہ مسلک اہل حدیث مذہب اسلام کی صحیح ترین تعبیروتشریح کانام ہے جو عہد نبوی، عہدصحابہ اورعہدتابعین کے اعتقادی وفقہی مزاج کاترجمان ہے ،بنابریں ان کے جماعتی اخلاق کے حوالہ سے چندباتوں کاذکر کیاجارہاہے۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ مختلف تعلیمی وثقافتی سرچشموں سے سیراب ہوئے،ابتدائی تعلیم اورحفظ قرآن کریم کی تکمیل حنفی ادارہ دارالعلوم مؤمیں کی،اس کے بعدثانویہ ،عالمیت اور فضیلت کی تکمیل بالترتیب مؤہی کے مشہور سلفی مدارس جامعہ عالیہ عربیہ ،جامعہ فیض عام اورجامعہ اثریہ دارالحدیث میں کی، پھردوسال کے تدریسی عمل کے بعدجامع ازہرمصرمیں تعلیم حاصل کی، اس کے بعدکچھ دنوں تدریسی مصروفیت رہی، پھردویاتین سال مسلم یونیورسٹی علیگڈھ میں رہ کرایم.فل. اورپی.ایچ.ڈی. کی ڈگریاں حاصل کیں، اس کے بعدتادم حیات سردوگرم برداشت کرتے ہوئے بالترتیب وکیل الجامعہ اور صدرعاملہ کی حیثیت سے جامعہ سلفیہ بنارس میں تعلیم وتربیت اورعربی واردوصحافت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
عام طورپر دیکھاجاتا ہے کہ جولوگ اس طرح دینی وعصری درسگاہوں سے استفادہ کرتے ہیں اوراس طرح تعلیمی ڈگریاں ان کے پاس ہوتی ہیں وہ فکری وعملی طورپرآزادی کے شکارہوجاتے ہیں، ان کے اندرتجدد پسندی آجاتی ہے ،وہ شکل وصورت اوروضع قطع میں ماڈرن بن جاتے ہیں اورعلمائے دین کو روایت پرست اوردقیانوس کے القاب سے نوازتے رہتے ہیں، مگرہمارے ممدوح ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ اپنی زندگی میں فکری وعملی اباحیت میں مبتلا نہیں ہوئے، انھوں نے پورے طورپرخالص اسلامیت اورصحیح سلفیت کی حفاظت کی اورفکری وعملی طورپر تجددپسندی سے محفوظ رہے، ان کے اس دینی مزاج اورجماعتی اخلاق کااندازہ ان کے تراجم وتالیفات سے واضح طورپرکیا جاسکتا ہے ،جیسے’’مسئلۃ حیاۃ النبی ﷺ ‘‘(عربی ترجمہ)’’زیارۃ القبور وحکمھا‘‘(عربی ترجمہ)’’رحمۃ للعالمین‘‘للعلامۃ القاضی محمدسلیمان المنصورفوری رحمہ اللہ (عربی ترجمہ) ’’حرکۃ الانطلاق الفکری و جھود الشاہ ولی اللہ الدھلوی فی التجدید‘‘للشیخ محمداسماعیل السلفیؒ (عربی ترجمہ) ’’موقف الإسلام من المرأۃ ‘‘ (اردوتالیف)’’حجیۃ الحدیث الشریف‘‘ للشیخ محمداسماعیل السلفیؒ (عربی ترجمہ)’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘لشیخ الإسلام ابن تیمیۃؒ ‘‘ (اردوترجمہ)’’مختصر زادالمعاد‘‘لشیخ الإسلام محمدبن عبدالوہابؒ ‘‘ (اردوترجمہ)اور’’قضایا کتابۃ التأریخ الإسلامی وحلولھا‘‘للدکتور محمدیاسین مظہرالصدیقی‘‘(عربی ترجمہ) وغیرہ،یقیناًان تراجم وتالیفات میں جناب ازہریؒ کے دینی وجماعتی مزاج کا عکس بھی ہے اوران کے جماعتی اخلاق کی تشکیل میں ان کا دخل بھی ہے، مولانا عبداللہ مدنی؍حفظہ اللہ نے بہت درست لکھا ہے کہ جب انھوں نے علامہ محمداسماعیل سلفیؒ کی تصنیف’’تحریک آزادئ فکر اورشاہ ولی اللہ کے تجدیدی مساعی‘‘کے عربی ترجمہ کا آغاز کیا، اس کتاب نے حضرۃ الدکتور کے اندرخوشگوار تبدیلی پیداکی، جس کے اثرات تاعمرظاہر رہے، ان کے اعمال جس پرشاہد ہیں۔(ماہنامہ نورتوحید،نومبرودسمبر۲۰۰۹ء ؁ ،خصوصی اشاعت)
*محترم ڈاکٹر ازہری ؒ کا جودینی وجماعتی منہج فکرتھا، وہ مختلف انداز سے اس کے فروغ واشاعت کی بھی کوشش کرتے تھے، چنانچہ انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس میں مختلف موضوعات پرعالمی کانفرنس وسمینارمنعقد کئے،جن میں مختلف مکاتب فکر کے اصحاب علم اوردینی وعصری جامعات کے مفکرین کو مدعوکیا اورجامعہ سلفیہ کے حوالہ سے تحریک اہل حدیث اورسلفی منہج فکر کو متعارف کرایا،اسی بناپرمیرا احساس ہے کہ سلفیت کاجوتعارف جامعہ سلفیہ کے ذریعہ ہواہے اس میں ازہری صاحب کی کوششوں کابڑا دخل ہے، اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف اعتبارسے جامعہ سلفیہ کے عروج وارتقاء میں بھی ازہریؒ صاحب کی مختلف کوشش اورلگن شامل رہی ہے، مگریہ قابل ذکر تلخ حقیقت ہے جسے احباب جماعت جانتے ہیں کہ جناب ازہریؒ صاحب نے مولانا محمدرئیس ندویؒ کی طرح جامعہ کے ذمہ داران کی ناقدریوں کی وجہ سے اپنی زندگی کاآخری حصہ بڑے دردوکرب کے ساتھ گذاراہے۔
*جناب ڈاکٹر ازہریؒ کے جماعتی اخلاق کے سلسلہ میں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ وہ اگرچہ علمی وادبی کاموں میں مصروف رہتے تھے، اس کے باوجود ضلعی،صوبائی اورمرکزی سطح پرجماعتی تنظیم سے عملی طورپر وابستہ رہے، جماعتی تنظیم میں جوگروپ بندی، علاقائیت اورعصبیت نظرآتی ہے ممکن ہے اس میں ازہری صاحب کاکچھ رول رہاہو،مگرمجھے اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ وہ جماعتی تنظیم کوقائم ودائم اوربارآور دیکھناچاہتے تھے۔
ذاتی اخلاق:ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہریؒ کے جماعتی اخلاق کے ضمن میں کئی ایسے امورکاذکر آیاہے جن کا تعلق ان کے ذاتی اخلاق واوصاف سے بھی ہے جیسے مومنانہ شکل وصورت، وضع قطع اورطرزفکروغیرہ، مگراس عنوان کے تحت کچھ خالص ذاتی اخلاق واوصاف کاذکرکرنا چاہتاہوں،جن سے بہت سے موجودہ علماء وصحافی محروم نظرآتے ہیں۔
*اس سلسلہ میں سب سے پہلی چیز صلوات خمسہ وغیرہ کی پابندی ہے، میرا جب بھی جامعہ سلفیہ بنارس جاناہوا یا کسی کانفرنس وسمینار میں ان کے ساتھ شریک ہوا توان کوتمام نمازوں میں صف اول میں اس طرح پایاکہ وہ کسی رکعت میں مسبوق نہیں رہتے تھے، موجودہ بدعملی کے دورمیں یقیناجناب ازہریؒ صاحب کایہ وصف بڑا اہم ہے،علماء وطلبہ اوردعاۃ ومبلغین کواس پرخصوصی توجہ دیناچاہئے، عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام مالکؒ نے مؤطا میں ذکرکیاہے کہ وہ مختلف صوبوں کے گورنروں کوصلوات خمسہ کی مواظبت ومحافظت کی تاکید کرتے رہتے تھے اورانھیں لکھتے رہتے تھے کہ جوشخص نماز کوضائع کرنے والاہوگا وہ ہرچیز کوضائع کرسکتاہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو صلاۃ اوردوسری تمام دینی عبادات کی محافظت کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)
*ازہری صاحب کے ذاتی اخلاق میں دوسری اہم چیز تدریسی وصحافتی کاموں میں انہماک اورپابندی اوقات ہے، وقت پرنماز میں حاضری، وقت پردرس گاہ میں جانا، وقت پرآفس میں آنا اوروقت پر کھانا اوردیگر معمولات، یقیناًانسانی زندگی میں پابندی اوقات اورکاموں میں توجہ وانہماک کی بڑی اہمیت ہے، اس سے مختلف علمی ودینی کام جلدی اوراچھے انداز میں ہوتے ہیں، اسی لئے مذہب اسلام اپنے ماننے والوں میں پابندی اوقات کامزاج پیداکرتاہے، مگرافسوس آج کل علماء وطلبہ اوقات کی پابندی سے غافل نظرآتے ہیں اوروقت کی بالکل قدرنہیں کرتے، فالی اللہ المشتکی۔
*ڈاکٹرازہریؒ جلال وجمال دونوں اوصاف سے متصف تھے، البتہ ان کی شخصیت میں رعب وجلال کا پہلوغالب تھا، میں نے خودمشاہدہ کیاہے کہ صلاۃ کے دوران طلبہ ان کے بغل میں کھڑے ہونے سے گھبراتے تھے اورجامعہ کے اساتذہ مرعوبیت کی وجہ سے بڑے ادب وتواضع کے ساتھ ان سے ملتے تھے، وہ اپنی علمی مصروفیات کی وجہ سے کم آمیز بھی تھے اورمجلسی آدمی نہیں تھے اسی لئے دوسروں کے لئے ہم نشینی کے مواقع بہت کم فراہم کرتے تھے، دراصل کسی بھی سنجیدہ اورمصروف شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ بہت زیادہ مجلسی نہ ہو، آج کل مختلف دینی اداروں میں اساتذہ وعلماء کی جومجلسیں ہوتی ہیں ان میں عام طورپرغیبت، چغلی، سازش اورلایعنی گفتگو ضرورہوتی ہے ،اس لئے بہت زیادہ ہم نشینی کاعادی ہونادرست نہیں ہے۔
یہ توازہری صاحب کاجلالی پہلو تھا،اسی کے ساتھ ان کا جمالی پہلوبھی قابل ذکر ہے، وہ کم آمیز ضرورتھے جس کی وجہ ذکرکی گئی ہے، مگرجب لوگ ان سے ملاقات کرتے تووہ بڑی خندہ پیشانی سے ملتے،ان کی احوال پرسی کرتے اورحسب موقع چائے وغیرہ سے ضیافت کرتے، مجھ جیسے خردوں کے ساتھ ازہریؒ صاحب کایہی سلوک ہوتاتھا، جامعہ سلفیہ بنارس میں جب بھی میں نے آفس میں ان سے ملاقات کی ہے انھوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے گفتگوکی ہے اورکبھی کبھی چائے وغیرہ سے نوازا بھی ہے، ایک بارازہریؒ صاحب سے میں نے ملاقات ان دنوں کہ جب وہ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کاعربی میں ترجمہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہاکہ اس کتاب کی جلد دوم میں بعض امورمحل نظرہیں، جیسے قاضی محمدسلیمان منصورپوریؒ نے جہاں رسول اللہﷺکے اہل وعیال اوراولادواحفاد کاذکرکیاہے توانھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حسن عسکریؒ (جنھیں اہل تشیع گیارہواں امام کہتے ہیں) کے یہاں ایک لڑکا محمد پیداہواتھا جوچارسال کی عمرمیں غارمیں روپوش ہوگیا، حالانکہ صحیح تحقیق یہ ہے کہ حسن عسکریؒ لاولد فوت ہوئے تھے، ان کے یہاں کوئی لڑکا نہیں پیداہواتھا، یہ افسانہ محمد بن نصیرنامی ایک شخص نے گھڑا ہے،اہل تشیع کی ایک شاخ فرقۂ نصیریہ اسی کی طرف منسوب ہے،اس نے یہ افسانے اس لئے گھڑا تاکہ بارہویں امام کاتصورباقی رکھاجاسکے، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ’’منہاج السنۃ‘‘میں مفصل بحث کی ہے۔
دوسری بات میں نے ازہری صاحب سے یہ کہی کہ قاضی محمدسلیمان منصورپوریؒ نے حضرت حسین رضی اللہ کے تذکرہ میں جہاں یزیدؒ بن معاویہؒ کاذکرکیا ہے انھیں یزید پلیدکہاہے، یزیدؒ کے بارے میں یہی نقطۂ نظر مولانامحمدرئیس ندویؒ کا بھی ہے، جیساکہ انھوں نے اپنی غیر مطبوع کتاب’’قول سدید برائے محبان یزید‘‘میں یہی موقف اختیار کیاہے۔
چونکہ مذکورہ دونوں باتیں محققین کے منہج کے خلاف ہیں اس لئے میں نے ازہری صاحب سے کہا کہ ان دونوں مقامات پرمختصر حاشیہ ضرور لگادیجئے گا وہ میری باتیں سن کرخاموش رہے، مجھے اندیشہ تھاکہ کہیں جلال میں نہ آجائیں مگرمسکراتے ہوئے کہا کہ تم لوگ تواسی طرح کی باریکیاں نکالتے رہتے ہو،میں نے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کاعربی ایڈیشن نہیں دیکھاہے، معلوم نہیں کہ انھوں نے ان قابل مواخذہ مقامات پرحاشیہ لگایاہے یانہیں۔
ڈاکٹر ازہریؒ صاحب کی ایک اورذاتی خصوصیت یہ تھی کہ وہ حددرجہ نظیف الطبع تھے، ان کی نظافت پسندی کے اثرات ان کے مزاج،لباس اورآفس وغیرہ تمام چیزوں میں دکھائی دیتے تھے، اس حقیقت کااعتراف ہراس شخص کوہے جس کاسابقہ ان سے رہاہے، ان کی نظافت پسندی کے بارے میں مولانا محمدمظہراعظمی استادجامعہ عالیہ عربیہ مؤکی درج ذیل تحریر قابل مطالعہ ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر صاحب کی نظافت بھی مسلم ہے، وہ حددرجہ نظیف اورصفائی پسند تھے، ہماری مسجد میں جب ان کو خطبہ دینارہتا توہم لوگ خاص خیال رکھتے، ایک مرتبہ جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعدکہاکہ دیکھو مصلی میں کوئی بدبوتونہیں آرہی ہے، ہم لوگوں نے سونگھ کردیکھا توہم لوگوں کو کچھ محسوس نہیں ہوا، اس کے بعدہم لوگ یہ کرتے تھے کہ جب آپ کوخطبہ دینارہتا تومصلی پر سجدہ کرنے کی جگہ عطرلگادیاکرتے تاکہ کسی قسم کی بوکا تصوربھی نہ ہو۔
کچھ دنوں پہلے مسجدپر مصلیوں کے لئے تولیہ لٹکادیاکرتے تھے تاکہ وضوکے بعدلوگ پونچھ لیاکریں، آپ نے دیکھا توبہت ناپسند کیا اورکہاکہ تمام مصلیان اسی ایک دوتولیہ سے باربارپونچھتے ہیں جس کی وجہ سے تولیہ گنداہوجاتا ہے اورمہکتا بھی ہے، اس لئے یہاں تولیہ نہیں رکھنا چاہئے اورپھراسی دن سے تولیہ کا سلسلہ بندکردیاگیا‘‘۔
مولانا مظہراعظمی صاحب ازہریؒ صاحب کی نظافت پسندی کے بارے میں مزید لکھتے ہیں:
’’ایک سمینار میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ انھیں کے کمرے میں تھا، صبح کے وقت میں نے بوٹ برش نکالا، اپنااورڈاکٹرصاحب کاجوتا صاف کردیا، کچھ دیرکے بعدجب سمینار ہال میں جانے کاوقت آیا تو ڈاکٹرصاحب نے جوتاپونچھنے کے لئے ایک کپڑا نکالا اور پھردیکھا توجوتا صاف ہے، جوتے کے پاس بوٹ برش دیکھ کرسمجھ گئے اورکہنے لگے کہ ہم لوگ توصاف کرنے کے لئے کپڑا رکھتے ہیں، مگرآپ بوٹ برش رکھتے ہیں، اس کے بعدکپڑا رکھنے کے بارے میں بتایاکہ جب ہم لوگ مصرمیں ریڈیوپرکام کرتے تھے توا س وقت ٹریننگ میں بتایاگیاتھاکہ آپ دو رومال رکھیں ایک چہرہ صاف کرنے کے لئے اوردوسرا جوتایاکرسی صاف کرنے کے لئے تاکہ کپڑا پراگندہ نہ ہو‘‘۔(ماہنامہ نورتوحید کرشنانگر ،نومبرودسمبر۲۰۰۹ء)
*جناب ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کے ذاتی اخلاق واوصاف کے متعلق سے ان کی خردنوازی بھی ہے، جس کا تجربہ ان کے شاگردوں کے علاوہ ان معاصرعلماء کو بھی ہے جوعمرمیں ان سے چھوٹے ہیں، وہ اپنے شاگردوں اورعزیزوں کی علمی رہنمائی کرتے، علمی کوششوں پران کی ہمت افزائی کرتے اورمفید مشوروں سے نوازتے۔
ذاتی طورپر مجھے خود ان کی شفقت وعنایت اورخردنوازی کا کئی بار تجربہ ہوا ہے ایک بارکا واقعہ ہے کہ ۱۹۹۶ء ؁ میں میرے کاغذات جمعیۃ احیاء التراث کویت بھیجے گئے مجھے اس موقع پر بعض ممتاز شخصیات کے توصیہ کی ضرورت تھی، میرابنارس جاناہوا تومیں نے جناب ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ صاحب سے کہا کہ میرے تعلیمی وتدریسی، دعوتی وتبلیغی اورملی وجماعتی کاموں کوسامنے رکھتے ہوئے ایک عربی توصیہ لکھ دیجئے!اس وقت انھوں نے یہ کہہ کرٹال دیا کہ آپ توخود دوسروں کے لئے توصیہ کھتے ہیں ،آپ کو توصیہ کی کیا ضرورت ہے، میں مایوسں اوربددل ہوکر واپس آگیا،ان دنوں میں سراج العلوم کنڈوبونڈیہار میں مدرس تھا، واپس آنے کے بعدیہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ جناب ازہری رحمہ اللہ صاحب نے عربی میں میرے بارے میں ایک خصوصی توصیہ لکھ کر بائی پوسٹ جامعہ کے پتہ پربھیج دیا، جومجھے ایک ہفتہ کے اندرموصول ہوگیا، مجھے بڑی خوشی ہوئی اوران کی اس خردنوازی پرمیرے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلیں، مجھے اب تک ان کی اس خردنوازی کا واقعہ یادہے جومیں کبھی بھول نہیں سکتا۔جزاہ اللہ احسن الجزاء۔
یہ تھے ڈاکٹرازہریؒ کے جماعتی وذاتی اخلاق واوصاف جویقیناًملت وجماعت کے لئے مشعل راہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی لغزشیں معاف فرمائے، ان کی نیکیاں قبول کرے، ان کی قبرکو نورسے بھردے اورانھیں جنت الفردوس کامکین بنائے۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment