Sunday, June 20, 2010

ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کی حیات وخدمات کا مختصرجائزہ apr-jul 2010

عبدالمنان سلفیؔ
ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کی حیات وخدمات کا مختصرجائزہ
۱۴۳۰ھ ؁ مطابق ۲۰۰۹ء ؁ کو مادرعلمی جامعہ سلفیہ بنارس اوراس کے ذمہ داران،اساتذہ،طلبہ اورفارغین کے لئے اگر عام الحزن قراردیا جائے توشاید بیجانہ ہوکہ اس سال جامعہ کے کے تین باکمال اورنامور اساتذہ یکے بعد دیگرے رحلت فرماگئے، سب سے پہلے ۹؍مئی ۲۰۰۹ء ؁ کو رئیس المصنفین والمحققین حضرۃ الاستاد مولانا محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ کی رحلت کا سانحہ پیش آیا اورکچھ دنوں بعد جامعہ کے قدیم اور علوم عقلیہ ونقلیہ کے ماہر مدرس استاذ گرامی مولانامحمدعابد رحمانی رحمہ اللہ کی وفات کے صدمہ سے ہم دوچارہوئے اور۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ بروزجمعہ جامعہ سلفیہ کے صدر، وکیل الجامعہ، مشفق مدرس ومربی اورآسمان صحافت کے نیرتاباں اورمیدان تصنیف وتالیف وترجمہ کے شہسوار مفکرجماعت علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی وفات کا صدمہ ہم سب کو سہناپڑا، یہ تینوں گرامی قدر شخصیات اپنے اپنے طورپر ملت وجماعت کا قیمتی سرمایہ تھیں، ان کی زندگی میں ممکن ہے کچھ لوگ ان کی اہمیت پورے طورپر محسوس نہ کرسکے ہوں مگر اب ہرچہارجانب دوردورتک نظردوڑانے پر ان کا نعم البدل توکجا بدل بھی دکھائی نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ ان سب کی بال بال مغفرت فرمائے۔(آمین)
استاذمحترم ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی شخصیت بڑی ہمہ جہت اوران کی خدمات کادائرہ بڑا وسیع ہے، اس لئے اس مختصر مضمون میں ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پرروشنی ڈالنا اورتمام خدمات کا مفصل تذکرہ ناممکن ہے ،تاہم اختصار کے ساتھ آپ کی حیات وخدمات کا ایک جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،واللہ الموفق۔
ولادت ،تاریخ پیدائش اورخاندانی پس منظر:۔ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی پیدائش شمال مشرقی ہندوستان کے معروف صنعتی قصبہ مؤ ناتھ بھنجن میں ۸؍اگست ۱۹۳۹ء ؁ میں ہوئی، مؤناتھ بھنجن اولاً ضلع اعظم گڈھ کے تحت ایک معمولی قصبہ تھا پھربہت جلد صنعت وحرفت میں ترقی کرکے اس نے ایک بڑے قصبہ کی حیثیت پائی اورتھوڑے ہی دنوں بعدیہ ایک شہر کے طورپر متعارف ہوا اوراسے اعظم گڈھ سے علیحدہ کرکے ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔
مؤناتھ بھنجن شروع ہی سے مختلف امتیازات وخصوصیات کا حامل رہا ، یہ مقام کپڑوں کی بُنائی خصوصاً ساڑیوں کی صنعت میں عالم گیر شہرت رکھتا رہا ہے، یہاں ہرمسلک اورنظریہ کے عربی اوراسلامی مدرسوں کی کثرت ہے، تیس چالیس برس قبل جب اس کی حیثیت ایک قصبہ سے زیادہ نہ تھا تب بھی یہاں صرف اپنی جماعت اہل حدیث کے کم ازکم تین ادارے پورے آب وتاب کے ساتھ علم کی نشر واشاعت میں مصروف تھے اورہرسال یہاں سے سیکڑوں علماء دستار فضیلت لے کر اپنے اپنے گھروں کو واپس جاتے تھے، اوراب توجماعتی اورغیرجماعتی تعلیمی اداروں کی تعداد پہلے سے بھی زیادہ ہے، ان مدارس کی برکت سے مؤناتھ بھنجن ماضی قریب میں جماعت کے نامور مدرسین کامرکز رہا ہے اورجس زمانہ میں اس سرزمین پرمولاناعبداللہ شائق مؤی، مولاناشمس الحق سلفی، مولانا عبدالمعید بنارسی اورمولانا مصلح الدین اعظمی رحمہم اللہ جیسے اساطین فن اپنے علمی فیوض کی سوغات لٹارہے تھے واقعی یہ قصبہ’’ بغداد ہند‘‘ کہلانے کا مستحق تھا، مؤناتھ بھنجن اوریہاں کے مسلمانوں کی اپنی ایک علیحدہ شناخت رہی ہے وہ اپنی تہذیب وثقافت ،بول چال، وضع قطع اور رکھ رکھاؤ میں ایک خاص پہچان بنائے ہوئے تھے، لنگی ،کرتا اورخاص قسم کی ٹوپی ان کی پوشاک تھی اوراپنے اس خاص لباس کے سبب یہ ہرجگہ پہچان لئے جاتے تھے، ان جملہ خصوصیات کے ساتھ مؤناتھ بھنجن مردم خیز بھی رہا ہے اوراس کی خاک سے بڑے بڑے علماء فضلاء، محدثین ومفسرین،محققین ومصنفین، ادباء وشعراء نے جنم لیاہے اورعلم کی خدمت میں ان کے نام سرفہرست لکھے جاتے ہیں۔
گوناں گوں امتیازات کے حامل اس مردم خیز شہرمیں ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ نے ایک سیدھے سادے موحد خاندان میں آنکھیں کھولیں، آپ کے والد الحاج محمدیٰسین رحمہ اللہ کوئی عالم فاضل شخص تونہ تھے مگردین پسندی اورعلماء نوازی کی خوبی ان کے اندر ضرورتھی،مجھے یاد پڑتاہے کہ مولانا مختاراحمد ندوی رحمہ اللہ سابق امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے ایک موقعہ پر ’’البلاغ‘‘ کے خصوصی کالم ’ ’مشاہدات‘‘ میں مؤ اور اہالیان مؤکاتذکرہ کرتے ہوئے ایک جلسہ کا بھی ذکرکیا تھا جس میں شیرپنجاب فاتح قادیان علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تشریف آوری ہورہی تھی، اسٹیشن سے قیام گاہ تک مولانا کو لانے کے لئے اس زمانہ میں کسی معقول سواری کا انتظام نہ تھا تو ایک بگھی تلاش کی گئی اورمولانامختاراحمد ندوی کے والد اورڈاکٹر ازہری کے والد (رحمہم اللہ) نے گھوڑے کے بجائے خوداسے کھینچ کراسٹیشن پہونچایا اوراس پرسوار کرکے مولاناکو قیام گاہ تک لائے۔
ڈاکٹرصاحب کے دادیہال میں توکوئی عالم دین نہ تھے تاہم آپ کے نانا مولانا محمدنعمان رحمہ اللہ شیخ الکل فی الکل میاں سیدنذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے آخری دورکے تلامذہ میں سے تھے نیزاردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے شاگردتھے اورجنوبی ہندکے عمرآبادکو جنھوں نے اپنی دعوت وتعلیم کا مرکز بنایا تھا، والدہ بھی کسی حد تک تعلیم یافتہ ،وسیع المطالعہ اور دوراندیش خاتون تھیں، انھیں بزرگوں کے زیرسایہ ازہری رحمہ اللہ کی نشوونما ہوئی۔
تعلیم:۔ازہری صاحب کی تعلیم کا آغاز ان کے محلہ میں واقع جماعت کے قدیم ترین ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ سے ہوا، اورحفظ قرآن کی تکمیل ۱۹۵۲ء ؁ میں مرزاہادی پورہ مؤمیں واقع معروف دیوبندی تعلیمی ادارہ دارالعلوم مؤکی شاخ سے کیا، اورعربی کی ابتدائی جماعتوں کی تعلیم مدرسہ عالیہ عربیہ میں حاصل کی، اس دورمیں فیض عام بڑے بڑے مشائخ اورنامور مدرسین کا مرکز تھا، آپ نے فیض عام کا رخ کیا اوروہاں کے اساتذہ سے کسب فیض کیا مگرتکمیل ۱۹۶۲ء ؁ میں مولانا عبداللہ شائق مؤی کے زیر تربیت جامعہ اثریہ دارالحدیث سے کیا جسے مولاناشائق نے فیض عام سے علیحدہ ہونے کے بعد قائم کیا تھا، اسی دوران موصوف نے عربی فارسی بورڈ الہ آباد سے مولوی، عالم اور فاضل وغیرہ کے امتحانات بھی اچھے نمبرات سے پاس کئے۔
جامعہ ازہرمصرکا رخ:۔ ازہری صاحب نے فراغت کے بعدکچھ دنوں تک مؤمیں تدریسی خدمت انجام دی، اور۱۹۶۳ء ؁ میں آپ نے جامعہ ازہرمصر کا رخ کیا، ان دنوں سعودی عرب اوردیگر خلیجی عرب ممالک میں اس انداز کے جامعات نہ تھے جیسے اب ہیں، اس لئے ہندوستان کے ذہین اورباذوق طلبہ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے اپنے خاص اخراجات پر جامعہ ازہر مصرجاتے تھے، بہرحال ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کو مصر جانے میں کامیابی ملی، جامعہ ازہر کے کلیہ اصول الدین میں آپ کا داخلہ ہوا اوروہاں رہ کرآپ نے ایم. اے.کی سند حاصل کی، دوبرس تک آپ نے قاہرہ ریڈیوکے شعبۂ اردومیں اناؤنسر اورمترجم کے فرائض بھی انجام دئے، آپ ازہر ہی سے ڈاکٹریٹ کا کورس بھی مکمل کرناچاہتے تھے مگربعض اسباب کی وجہ سے آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور۱۹۶۷ء ؁ میں آپ ہندوستان واپس تشریف لے آئے، اورجامعہ سلفیہ بنارس جوابھی نیانیا قائم ہواتھا اس سے وابستہ ہو کر علمی، دعوتی اورتدریسی خدمات کی انجام دہی میں لگ گئے۔
ڈاکٹریٹ کی ڈگری:۔ جامعہ سلفیہ بنارس میں اپنی دعوتی، صحافتی اورتصنیفی خدمات انجام دینے کے دوران ۱۹۷۲ء ؁ میں مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے شعبہ عربی میں ایم.فل. میں داخلہ لیا اوراس کی تکمیل کے بعد ۱۹۷۵ء ؁ میں ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی، ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے آپ نے ابن عبدالبر قرطبی کی ’’أحادیث بہجۃ المجالس‘‘ جلدثانی کی تخریج وتحقیق کی اور۷۰۰ صفحات پرمشتمل اس مقالہ میں کتاب کی تحقیق وتخریج کے ساتھ کتاب کی دونوں جلدوں کی فہرست سازی کی۔
ممتازاساتذہ:۔ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ نے اپنے تعلیمی مراحل میں جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا ان میں چندممتاز اورنامور اساطین علم وفن کے اسماء یہ ہیں :مولانا عبدالعلی صاحب،مولانا عبدالمعید بنارسی، مولانا عبدالرحمن صاحب، مولانامفتی حبیب الرحمن فیضی، مولانا عبداللہ شائق ،مولانا شمس الحق سلفی، مولانا عظیم الدین مؤی، ڈاکٹرعلی عبدالواحد وافی، ڈاکٹر شوقی ضیف وغیرہم۔
عملی زندگی اورہمہ جہت خدمات:۔ ۱۹۶۷ء ؁ میں ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ جب مصرسے ہندوستان واپس آئے توجامعہ سلفیہ بنارس میں تعلیمی افتتاح کا یہ دوسرا سال تھا، جامعہ سلفیہ بنارس کے بالغ نظرناظم مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ کی مردم شناس نگاہ نے ڈاکٹر ازہری کی خفیہ صلاحیتوں کو تاڑلیا اوراس گلشن رسول کی آبیاری کے لئے آپ کو منتخب کرلیا اورآپ کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کو بھی اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جامعہ سلفیہ بنارس کی شکل میں ایک باوقار پلیٹ فارم عطاکیا اور موصوف جامعہ سلفیہ کی خدمت میں جی جان سے جٹ گئے، تدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف اورترجمہ کا سلسلہ بھی شروع ہوا، اورجب ۱۹۶۹ء ؁ میں جامعہ سے عربی ماہنامہ نکالنے کافیصلہ ہوا توآپ کو اس کا مدیرمسؤل منتخب کیا گیا اورشیخ الجامعہ استاذ محترم مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ آپ کے معاون مقررکئے گئے، پھرجب آپ کی سربراہی میں علمی کاموں کااورجامعہ سے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوااوراس مقصدسے ادارۃ البحوث العلمیہ کا قیام عمل میں آیا توآپ اس کے ڈائریکٹر اورنگراں مقررکئے گئے،اسی طرح جامعہ کے تعلیمی وتربیتی نظام کو بہترسے بہتربنانے اورملک وبیرون ملک جامعہ کے تعارف کے لئے آپ کو وکیل الجامعہ کا منصب تفویض کیا گیا، اس طرح اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ ڈاکٹرصاحب نے جامعہ کی خدمت کے لئے وقف کردیا، ذیل میں آپ کی بعض نمایاں خدمات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
تدریسی خدمت:۔ ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے ۱۹۶۸ء ؁ سے باقاعدہ جامعہ سلفیہ بنارس میں عربی ادب کے استاد کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کیا اورپورے تسلسل کے ساتھ عالمیت فضیلت اورتخصص کے مراحل میں اہم کتابوں کادرس دیتے رہے، تاریخ الادب العربی ،البلاغۃ الواضحۃ، مقدمہ ابن خلدون اور المعلقات السبع جیسی کتابیں ہم لوگوں نے آپ سے پڑھی ہیں، آپ کے اندر ایک اچھے مدرس کی تمام ترصلاحیتیں موجودتھیں، وقت کی پابندی آپ کا امتیازی وصف تھا، مختلف علمی وانتظامی امورکے ہجوم کے باوجود گھنٹی کا وقت ہوتے ہی درس گاہ میں تشریف لے جاتے، پورے عالمانہ وقارسے طلبہ کو پڑھاتے ،تساہلی اورغفلت پر طلبہ کی سرزنش کرتے اور وقتاً فوقتاً نصیحت کے موتی لٹاتے،تقریباً ۴۰؍برسوں تک موصوف تدریس سے وابستہ رہے، دارالحدیث سے فراغت کے بعدفیض عام میں بھی کچھ دنوں تک اورڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے کے دوران مسلم یونیورسٹی میں بھی کم وبیش ایک برس تدریس کا فریضہ انجام دیا۔
علمی ،فکری اورعملی تربیت:۔ جامعہ سلفیہ بنارس میں طویل المیعاد تدریسی فریضہ کی انجام دہی کے ساتھ ڈاکٹرازہری نے طلبہ کی علمی وعملی تربیت پر خصوصی توجہ دی اورطلبہ کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدارکرنے کی قابل قدرکاوش فرمائی، کلاس روم سے لے کر مسجد تک آپ طلبہ کی نقل وحرکت پرنظررکھتے تھے،طلبہ کی انجمن ’’ندوۃ الطلبہ‘‘ کی کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لئے آپ نے روایتی خطابت وصحافت کے ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرام منعقد کرنے پر بھی توجہ دلائی اوراس کے خوش گوار اثرات سامنے آئے، طلبہ کو عربی لکھنے اوربولنے کی ہمیشہ نصیحت فرماتے اوراس سلسلہ میں حوصلہ افزائی فرماتے، جن طلبہ کا میلان صحافت وانشاء پردازی کی جانب ہوتا انھیں باقاعدہ تربیت دیتے، لکھنے کا سلیقہ سکھاتے، ان کے عربی واردومضامین شائع کراتے، ازہری صاحب کے حوالہ سے بعض لوگوں نے یہ لکھ دیا ہے کہ وہ سخت گیرتھے لیکن میرے خیال میں وہ سخت گیر نہیں بلکہ ایک اصول پسند اورمشفق استاد ومربی تھے اورسب کو وہ بااصول زندگی گزارتے دیکھنا پسند کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ان کے سامنے اصول سے انحراف کرتا توفطری طورپرانھیں یہ ناگوارخاطرگزرتا اورپھر کسی قدرخفگی کابھی مظاہرہ ہوجاتا اورہم طلبہ کو خاص طورسے ’’پڑھے لکھے جاہل ہونے ‘‘کی سندمل جاتی ۔
ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ طلبہ کی فکری تربیت کے لئے بھی ہمیشہ کوشاں رہے، کتاب وسنت سے منحرف جماعتوں اور تحریکوں کے مسموم اثرات سے اپنے طلبہ کو محفوظ رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً محاضرات اوردروس بھی دیتے، درسگاہ میں کبھی اس تعلق سے کوئی بات آجاتی تو ان نظریات کی فکری کج روی کی وضاحت تفصیل کے ساتھ طلبہ کے سامنے پیش کرتے، انھیں ایسی کتابوں کے مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے جن سے منہج سلف کی وضاحت ہوتی۔
طلبہ کی عملی تربیت میں ازہری صاحب بلاشبہ سخت گیرتھے ،وہ علم کے میدان طلبہ کی جانب سے ہونے والی سستی اورغفلت کو کسی حد تک انگیز کرلیتے تھے مگران کی عملی کمزوری کو کسی قیمت پر گوارہ کرنے کے قائل نہ تھے،ان کا کہنا تھا چند باعمل علماء تیار کرنا بے عمل مولیوں کی کھیپ تیار کرنے سے بدرجہا بہترہے، ازہری صاحب نماز باجماعت کے سخت پابند تھے اذان کے معاً بعد مسجد میں تشریف لے آتے، تکبیراولیٰ کے ساتھ وہ نماز اداکرتے، وہ چاہتے تھے کہ سارے طلبہ بھی اسی کا التزام واہتمام کریں۔
دعوت وتبلیغ:۔دعوت وتبلیغ کے وسیع مفہوم کے اعتبارسے ازہری صاحب کی پوری زندگی تدریس، مضمون نگاری اور تصنیف وتالیف میں گذری تاہم جلسہ جلوس اوردعوتی پروگراموں کی شرکت کے اعتبارسے بھی موصوف کبھی کبھاراس کے لئے وقت نکال لیتے تھے، اس میدان میں سرگرم شمولیت کے سبب چونکہ آپ کے علمی کاموں کے متاثرہونے کا اندیشہ تھا اس لئے وقتاً فوقتاً بعض اہم اہم دعوتی جلسوں میں شرکت فرماتے تھے، اورموقعہ کی مناسبت سے خطاب کرتے تھے، آپ کا خطاب مدلل اورعلمی ہونے کے باوجود عام فہم ہوتا تھا اور عوام وخواص سبھی مستفید ہوتے تھے۔
زمانہ طالب علمی میں استاذ محترم مولانا محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ کے گاؤں بھٹیا ضلع سدھارتھ نگر میں ایک جلسہ تھا جس میں شرکت کی منظوری ڈاکٹرصاحب نے دے رکھی تھی، جلسہ کے انتظام وانصرام کے لئے ندوی صاحب رحمہ اللہ دوایک روز قبل گھرچلے آئے تھے اورڈاکٹرازہری رحمہ اللہ اوربعض بنارسی بزرگوں کو جلسہ میں لانے کی ذمہ داری میرے سپرد تھی، غالباًیہ ۱۹۷۸ء ؁ یا اس کے آس پاس کی بات ہوگی، بذریعہ بس ہم نے بنارس سے سفر شروع کیا، جس بس پرہم بیٹھے وہ براہ راست بھٹیا سے متصل قصبہ بلوہا ہوتے ہوئے بانسی اورککرہوا جاتی تھی مگر اعظم گڈھ سے پہلے ہی وہ بس خراب ہوگئی، دوسری بس سے گورکھپور اورپھروہاں سے تیسری بس سے ہم شب کو۸،۹ بجے بلوہا پہونچے، استقبال کرنے والے مایوس ہوکرجاچکے تھے ،وہاں سے بھٹیا کی مسافت چھ سات کیلو میٹر سے کم نہ تھی، راستہ بھی نامانوس اورانجانا تھا، تاہم ڈاکٹر صاحب پیدل چلنے کے لئے تیار تھے ، مگر راستہ کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا، میں چہل قدمی کرتے ہوئے سڑک پرآگے بڑھا توپولیس اسٹیشن نظرآیا صحن میں تھانہ انچارج کرسی لگائے بیٹھے تھے ،میں بلا جھجھک ان کی خدمت میں حاضرہوگیا، اورآداب عرض کرنے کے بعد انھیں جب صورت حال سے آگاہ کیا اوربتایا کہ ایک بڑے عالم کو میں بھٹیا جلسہ میں لے جاناچاہتا ہوں اوراس کے لئے آپ سے مددکی درخواست کررہا ہوں توکمال مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس. او.صاحب میرے ہمراہ ازہری صاحب کے پاس آئے اور علیک سلیک کے بعدکہا کہ مجھے افسوس ہے کہ اس علاقہ میں آپ کو زحمت ہورہی ہے اگر آپ یہاں رات گذارنا چاہیں توآپ حضرات کے لئے قیام وطعام کا مناسب انتظام کیا جاسکتاہے، اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی سواری نہیں ہے اوراگر پیدل ہی جانا چاہتے ہیں تومیں آپ کی رہنمائی اورحفاظت کے لئے دوہوم گارڈ س کو آپ کے ہمراہ کردیتاہوں وہ آپ کو آپ کی منزل تک چھوڑآئیں گے، ازہری صاحب نے ایس. او. صاحب کا شکریہ اداکیا اورفرمایا کہ مجھے اپنے لوگوں کے ہمراہ ہی جانے دیجئے ،چنانچہ فوراً ہمارے سامان ہوم گارڈس نے سائیکلوں پر باندھا اورشب کے ۹؍بجے کے بعد ہمارا قافلہ بھٹیا روانہ ہوا ازہری صاحب کے علاوہ اس قافلہ میں ندوی صاحب رحمہ اللہ کے دو بنارسی عقیدت مند بزرگ بھی تھے ان میں ایک تو جامعہ کے مخلص کارکن تھے جنھیں لوگ ماما کہہ کرپکارا کرتے تھے جو بلامعاوضہ جامعہ کی دیکھ بھال میں بڑے سرگرم تھے، دوسرے بزرگ کا نام ذہن میں نہیں ہے،بہرحال ازہری صاحب اوریہ دونوں بزرگ رات کے اندھیرے میں پیدل بھٹیا کی جانب چل پڑے، ہوم گارڈس آگے آگے چلے اورہمارے ممدوح اوربنارسی بزرگان درمیان میں ہوئے اورمیں ان کے پیچھے چلتارہا ،کچھ دورچلنے کے بعد اتفاق سےP.W.D. کا ایک ٹرک ہمارے ہی راستے پر جاتے ہوئے مل گیا، ہوم گارڈس نے اس پرہمیں سوار کرادیا اور ہم کسی طرح افتاں وخیزاں ناہموارراستہ پر ٹرک کے پچھلے حصہ میں کھڑے ہچکولے کھاتے بھٹیا کے قریب پہونچ گئے اور اتر کرجلسہ گاہ کا رخ کیا اورہمارے رہنما ہوم گارڈس حضرات ہمارے سامان کے ساتھ کچھ دیر بعد وارد ہوئے ، اس دعوتی سفرمیں ہمارے ممدوح ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کوظاہرسی بات ہے بے پناہ زحمت ہوئی مگر آپ نے اس کا اظہار نہ کیا بلکہ سیدھے جلسہ گاہ اوراسٹیج پر پہونچے ،اگلے دن آپ نے جلسہ گاہ میں جمعہ کا خطبہ اسلام کی آفاقیت کے موضوع پر دیا ،خطبہ بڑا وقیع اوربلیغ تھا اورہرعام وخاص کو متاثرکرنے والاتھا، شام کو اجلاس عام کی صدارت بھی فرمائی اور بڑی پُرمغز تقریرفرمائی۔
جیساکہ پہلے لکھا گیاہے کہ ازہری صاحب جلسہ جلوس کے آدمی نہ تھے تاہم کبھی کبھار دعوتی اجتماعات اور تبلیغی جلسوں میں شرکت بھی فرماتے تھے، میرے اپنے علم کے مطابق اس سلسلہ میں موصوف نے بہار،بنگال، جھارکھنڈمہاراشٹر(ممبئی) اوریوپی کے متعدد خطوں اورعلاقوں کا سفر کیاتھا۔
جون ۲۰۰۹ء ؁ میں جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیرمحترم مولانا عبدالسلام سلفی نے اپنے آبائی ضلع سدھارتھ نگر(نوگڈھ) کی تین بستیوں میں یکے بعددیگرے سلسلہ وار دعوتی جلسوں کا اہتمام کیاتھا، ڈاکٹرازہری نے موہانہ چوراہا اورمسلم انٹرکالج مہدیا میں منعقدہوئے پروگراموں میں بہ حیثیت صدرشرکت کی تھی اور بڑا جاندارخطاب کیا تھا۔
دعوتی اجتماعات کے علاوہ آپ جمعہ اور عیدین کے خطبات کا بھی اہتمام کرتے تھے، جمعہ کے خطبات کسی خاص مسجد میں بالالتزام دینے کا اہتمام تونہ تھا تاہم عیدین کے خطبات آپ اپنے آبائی وطن مؤکے محلہ ڈومن پورہ کی عیدگاہ میں پابندی سے دیاکرتے تھے۔
علمی کانفرنسوں اورسمیناروں میں شرکت:۔ ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ بالغ نظرعالم دین تھے اس لئے انھیں قومی اوربین الاقوامی علمی کانفرنسوں اورسمیناروں میں مدعوکیا جاتاتھا اورآپ ان پروگراموں کی اہمیت کے پیش نظر ملک وبیرون ملک سفر کی زحمت بھی گوارہ فرماتے تھے اوراپنے محاضرات ومقالات کے ذریعہ شرکاء کو فیض پہونچاتے تھے، اکثرکانفرنسوں میں آپ میر مجلس مقررہوتے اورصدر کی باوقار کرسی کی زینت بنتے، شیخ اسعداعظمی حفظہ اللہ نے صوت الامۃ کے جلد نمبر(۴۱)شمارہ نمبر(۱۱) میں دودرزن سے زائداہم مؤتمرات وندوات کا ذکرکیاہے جن میں آپ کی شرکت ہوئی۔
تصنیف وتالیف وترجمہ:۔ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کا اصل میدان تصنیف وتالیف ہی تھا، موصوف نے مکمل تخطیط اورمنصوبہ بندی کے ساتھ یہ علمی خدمت انجام دی اور اپنی گراں قدر تصنیفات وتالیفات کے ساتھ ساتھ ناموراہل علم کی کتابوں کے ترجمے بھی کئے، یہ موضوع تفصیل طلب ہے بلکہ اس لائق ہے کہ اس پرباقاعدہ کتابیں اورتحقیقی مقالات لکھے جائیں، لہذا اس تعلق سے زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے صرف آپ کی تصنیفات وتالیفات اورتراجم کا اجمالی تذکرہ کیاجارہا ہے اس سے آپ کی قدآور علمی شخصیت کا اندازہ اہل نظر لگاسکیں گے۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کے بھانجے اورتربیت یافتہ برادر فاضل جناب شیخ اسعدالاعظمی نے ’’صوت الامۃ‘‘کے ذوالقعدہ ۱۴۳۰ھ کے شمارہ میں آپ کی تصنیفات، تحقیقات اورعربی واردو ترجموں کا اجمالی ذکرکیاہے اس کے مطابق آپ کی مستقل عربی واردو تصنیفات کی تعداد (۱۷) تحقیقات وتعلیقات وتہذیبات کی تعداد(۵) اورفارسی یا اردوکی معرب کتابوں کی تعداد(۱۴) اورعربی سے اردومیں مترجم کتابوں کی تعداد(۸) ہے،اس طرح ڈاکٹرصاحب کے علمی انتاجات کی مجموعی تعداد (۴۴) ہوئی، ان میں آپ کی تالیف تاریخ ادب عربی(پانچ جلدیں) خاتون اسلام،نیز ابن تیمیہ کی ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی ’’مختصر زادالمعاد‘‘، علامہ قاسمی کی ’’اصلاح المساجد‘‘ کے اردوترجمے نیز قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری کی اردوتالیف’’ رحمۃ للعالمین ‘‘،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی’’ قرۃالعینین بتفضیل الشیخین أبی بکروعمر‘‘ او رنواب صدیق حسن خاں کی’’ الاکسیرفی اصول التفسیر‘‘ مولانامحمداسماعیل گجرانوالہ کی کتاب تحریک آزاد�ئ فکر اورشاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی نیز حجیت حدیث کے عربی ترجمے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اورمحققین اہل علم نے ان خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ان تصنیفات ،تحقیقات وتراجم کے علاوہ آپ نے ۸۰۰ سے زائد علمی مقالات تحریر فرمائے ہیں جن میں تقریباً ۴۰۰سے زائد کتابوں پر آپ کے لکھے گئے مقدمے بھی شامل ہیں۔
آپ کے ان ٹھوس علمی کاموں کو دیکھ کرتعجب ہوتاہے کہ تدریسی وانتظامی امورمیں باقاعدہ مصروف رہنے والی شخصیت کو ان کاموں کی فرصت کیسے ملی ہوگی، لیکن جس نے آپ کوقریب سے دیکھا ہے وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ اللہ کے فضل وکرم کے بعداس میں سب سے زیادہ دخل آپ کی مسلسل محنت اورمنصوبہ بندکاوش کا ہے، آپ پوری پلاننگ اور تخطیط کے ساتھ اپناہرکام انجام دیتے تھے اور کبھی ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے تھے۔
صحافت:۔ مستقل تصنیف وتالیف وعربی اردوترجموں کے ساتھ ساتھ آپ نے طویل المدت صحافتی خدمات بھی انجام دیں اورعربی واردو دونوں زبانوں میں آپ نے کم وبیش ۴۱برسوں تک پورے تسلسل کے ساتھ لکھا اورخوب لکھا، جامعہ سلفیہ بنارس پہونچنے کے ساتھ ہی آپ نے عربی زبان میں ایک ماہنامہ نکالنے کا آغاز کیا، پہلے یہ ’’صوت الجامعہ‘‘ کے نام سے کئی سالوں تک نکلتارہا، پھربعض قانونی دشواریوں کے سبب اس کا نام’’مجلۃ الجامعۃ السلفیہ ‘‘رکھا گیا اورآخرمیں یہ ’’صوت الأمۃ‘‘ کے نام سے شائع ہوتارہا ،شعبان۱۳۸۹ھ مطابق نومبر ۱۹۶۹ء ؁ سے شوال ۱۴۳۰ھ مطابق اکتوبر ۲۰۰۹ء تک یہ عربی مجلہ پوری پابندی کے ساتھ اپنے علمی وتحقیقی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے آپ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ،ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ اہم حساس اور سلگتے موضوعات پر ہرشمارہ میں اداریہ تحریر فرماتے ،مضامین لکھتے، جامعہ سلفیہ بنارس کے نشاطات قلمبند کرتے اوراہم کانفرنسوں اورسمیناروں کی روئیداد مرتب کرکے شائع فرماتے، اس فضیلت میں بھی معاصرعلماء میں شاید ہی کوئی آپ کا شریک قرارپاسکے۔
عربی کے علاوہ جامعہ سلفیہ بنارس کے اردو ماہنامہ ’’صوت الجامعہ‘‘ اردو اور’’محدث‘‘ میں بھی آپ نے بکثرت مضامین لکھے ہیں، بلکہ استاد مکرم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے جامعہ سلفیہ سے مدینہ منورہ چلے جانے کے بعد’’ محدث‘‘ کے اکثر ادارئے ازہری صاحب ہی کے قلم سے ہیں، محدث کے اداریوں اورمضامین کے علاوہ آپ کے گراں قدر مضامین ندوۃ الطلبہ کے سالنامہ ’’المنار‘‘اوردیگر جرائد ومجلات میں بھی گاہے گاہے شائع ہوتے رہے ہیں،اس طرح ہزاروں صفحات پرمشتمل یہ مضامین ومقالات مسلمانان عالم کی دینی ،علمی ودعوتی اورمعاشرتی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔
ادارۃ البحوث الاسلامیہ:۔ تدریس، تصنیف، ترجمہ، تحقیق اوردعوت وارشاد کے ساتھ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ صاحب کاایک علمی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس میں اشاعتی شعبہ’’ ادارۃ البحوث الاسلامیہ ‘‘کے نام سے قائم کیا اوراس کے زیراہتمام عربی، اردو، ہندی اورانگریزی زبانوں میں چارسوسے زائد علمی، ادبی، دینی ،دعوتی، تاریخی اور تحقیقی کتابیں شائع کرائیں، اس شعبہ کے قیام کے پہلے روز سے آخری سانس تک آپ اس کے نگراں اورذمہ داررہے اورتمام چھوٹی بڑی مطبوعات پرگرامی قدر علمی مقدمے تحریر فرمائے، میرے اپنے علم کی حدتک اتنی ساری کتابوں پر تقریظات اورمقدمات لکھنے کا اعزاز بھی شاید کسی کے حصہ میں آیا ہو، اس سے موصوف کے مطالعہ کی وسعت کا اندازہ ہوتاہے ،کہ آپ نے ہرفن کی کتابوں پرمقدمات لکھے اورمتوازن انداز میں اس موضوع کا تعارف اوراس کی اہمیت قارئین کی خدمت میں پیش فرمائی۔
تعلیمی اداروں کی تاریخ میں محض چالیس برس کی مدت میں چارسو سے زائد کتابوں کی اشاعت اپنی جگہ خود ایک ریکارڈ ہے ،جامعہ سلفیہ بنارس کو یہ سعادت اللہ کے فضل کے بعد استاذ محترم ہی کے کاوشوں سے حاصل ہوئی ہے۔وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
جمعیت وجماعت سے وابستگی:۔ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ چونکہ منہج سلف کے مخلص علم بردار تھے اسی لئے اس منہج کی حامل جماعت اہل حدیث کے منصوبوں اور پروگراموں سے انھیں قلبی لگاؤ تھا، موصوف جمعیت وجماعت کے بڑے بڑے پروگراموں میں اکثرصدر، کنوینر، مجلس استقبالیہ کے صدر یا کسی اہم ذمہ دار کے طورپر شرکت فرماتے اورپروگرام کو آرگنائزکرتے، گذشتہ کئی برسوں سے آپ کی حیثیت جمعیت کے پالیسی سازکی تھی، جمعیت کے تعلیمی، دعوتی اوررفاہی پروگراموں کی تخطیط کرتے اوراس میں رنگ بھرنے کے لئے ذمہ داران کی مکمل رہنمائی فرماتے، آپ کے اندر مسلکی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، عقائد سے لے کرعبادات ومعاملات اوراخلاقیات تک میں وہ سلفی منہج سے سرموانحراف کے قائل نہ تھے، رواداری کا جذبہ ان میں بلاشبہ پایاجاتا تھا مگر منہج سے ہٹ کر صلح کلّی کی پالیسی کے وہ سخت خلاف تھے، اسی مسلکی غیرت وحمیت نے انھیں جماعت کی آنکھوں کا تارا بنادیا اوراہل حدیثان ہند کے دلوں کی دھڑکن بن چکے تھے۔
ازہری صاحب اورجامعہ سلفیہ:۔ یہ عنوان اہم بھی ہے اورنازک بھی، اہم اس معنٰی میں کہ اس حوالہ سے کچھ لکھے بغیر آپ کا سوانحی خاکہ مکمل ہی نہیں ہوسکتا کہ آپ کی تمام ترعلمی ،دعوتی، تدریسی اورتصنیفی سرگرمیوں کا محور ومرکز جامعہ سلفیہ ہی رہا ہے اور آپ نے اپنی ساری خدمات اسی کے پلیٹ فارم سے انجام دیں اورنازک بایں طورکہ اس حوالہ سے بعض ایسے تلخ حقائق ہیں کہ جن کاذکر بعض لوگوں کی دل آزاری کا باعث ہوگا، خیر میں اس بحث میں پڑنانہیں چاہتا، عقلمند اں را اشارہ کافی است۔
حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ۴؍دہوں تک جامعہ سلفیہ اورڈاکٹر ازہری دونوں لازم وملزوم رہے ہیں، یعنی کسی ایک کا ذکردوسرے کے بغیر تشنہ اورنامکمل قرارپائے گا، ازہری صاحب جب جامعہ سلفیہ تشریف لائے تو یہ ننھا منا پودا تھا، وہاں تعلیمی سلسلہ شروع ہوئے محض دو برس ہی گذرے تھے، ازہری صاحب نے آنے کے بعد اس ننھے منے پودے کو اپنے خون جگرسے سیراب کرکے اسے ایک تناور درخت کی شکل دی، اپنی ساری توانائیاں اورصلاحیتیں اس کے فروغ وترقی کے لئے وقف کردیں، سوتے جاگتے ،اٹھتے بیٹھتے، سفر وحضر ہروقت اور ہرموقعہ پر جامعہ کے علمی ارتقاء کے منصوبے تیار کرتے، بالغ نظر اورمردم شناس ناظم جامعہ مولانا عبدالوحید سلفیؔ رحمہ اللہ سے تبادلۂ خیالات کرتے اورمل جل کر انھیں عملی جامہ پہناتے، ناظم صاحب رحمہ اللہ بھی ڈاکٹر صاحب پر پورا اعتماد کرتے، ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے اور ان کی تجاویز اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے، اس میں ادنی بھی مبالغہ نہیں کہ جامعہ سلفیہ بنارس نے چند برسوں میں ترقی اور عروج کے جس مقام پر قدم رکھا تھا اس میں سب سے بڑا دخل انھیں دونوں بزرگوں کی مخلصانہ کوشش اورعمل پیہم ہی کا تھا۔
جامعہ سلفیہ بنارس اوراس کے ذمہ داران نے بلاشبہ ڈاکٹر ازہری کو اپنے علمی، فکری، دعوتی اورانتظامی جوہر دکھانے کا موقعہ اورپلیٹ فارم دیاتھا مگر یہ حقیقت ہے کہ ازہری صاحب نے جامعہ سلفیہ کو اس سے کہیں زیادہ لوٹایا اورایک وقت وہ بھی آیا کہ بعض حساس اورذمہ دار حضرات نے برملاکہا کہ ازہری صاحب جامعہ سلفیہ سے نہیں بلکہ جامعہ ازہری صاحب سے ہے، ممکن ہے اس میں کوئی مبالغہ ہومگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں شاید ہی کسی کو تامل ہو کہ جامعہ سلفیہ کی تعمیروترقی میں سب سے اہم رول ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ ہی کا ہے جنھوں نے اپنی بھاری بھرکم اورقدآور علمی شخصیت ،اپنے ذاتی اثرورسوخ اورجہدپیہم سے جامعہ کو ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہونچایا اور دیکھتے دیکھتے اسے برصغیر کے نمایاں اورچنیدہ تعلیمی، دعوتی اور نشریاتی اداروں کی فہرست میں ممتاز مقام دلایا۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں دینی اداروں کی تاریخ میں اکثروبیشتر اس قسم کے تاریخی گھپلے اور گھٹالے ہوتے رہے ہیں کہ خون جگر کسی نے جلایا، محنت اورجدوجہد کسی نے کی اورسہرا کسی اورکے سرباندھ دیاجاتا ہے اور ایسے مخلصین اوران کی مساعی جمیلہ کوبھول کربھی یادنہیں کیاجاتا، امیدکہ جامعہ سلفیہ اپنے اس محسن عظیم کے حوالہ سے اس غلطی کااعادہ نہ ہونے دے گا۔
اولاد واحفاد: ۔ہزاروں روحانی اولاد کے علاوہ آپ کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ اوردوبیٹے اوردوبیٹیاں قابل ذکرہیں، یہ سارے بال بچوں والے ہیں، آپ کے بڑے صاحبزادے جناب سلمان احمد دمام کے ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اوروہیں اقامت پذیرہیں جب کہ دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر فوزان احمد جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبۂ عربی میں لیکچرار کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں اورکسی حد تک اپنے والدبزرگوارکے علمی کاموں کے وارث ہیں۔
مرض ووفات:۔ ازہری صاحب کی صحت قابل رشک تھی اوروہ کسی مزمن بیماری سے محفوظ تھے، اچانک اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ کے اوائل میں جسم کے بالائی اور بائیں حصہ میں دردکا احساس ہوا، بنارس کے اطباء اورڈاکٹروں سے علاج ہوا مگرجب افاقہ نہ ہوا توڈاکٹرفوزان سے مشورہ کے بعد آپ کو بذریعہ طیارہ ۱۸؍اکتوبر کوبتراہاسپٹل دہلی لے جایاگیا، متعدد چیک اپ اورجانچ کے بعدعلاج شروع ہوا، مگرایک ہفتہ بعدڈاکٹروں نے آپ کی صحت سے متعلق مایوسی کا اظہارکیا اورآپ کوگھرلے جانے کا مشورہ دیا ،چنانچہ ۲۹؍اکتوبرکو ایمولینس کے ذریعہ آپ کو آپ کے وطن مؤ لایاجارہا تھا کہ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ بروزجمعہ بوقت سواپانچ بجے راستہ میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، اناللہ واناالیہ راجعون۔
آپ کی وفات کی خبربجلی کی سرعت کے ساتھ پورے ہندوستان میں پھیل گئی، اعلان کے مطابق ۳۰؍اکتوبر کو بعدنماز مغرب ڈومن پورہ کی بڑی عیدگاہ میں ہزاروں تلامذہ، عقیدت مندوں، اورسوگواروں نے جامعہ سلفیہ بنارس کے نائب صدر استاذمحترم مولاناشاہد جنیدسلفی کی امامت میں نماز جنازہ اداکی اورپھر آپ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیاگیا۔
اللہ تعالیٰ استاذمحترم کی بال بال مغفرت فرمائے اورآپ کے جملہ علمی ودعوتی اورتصنیفی خدمات کو قبول فرماتے ہوئے انھیں رفع درجات کاذریعہ بنائے۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment