Sunday, June 20, 2010

ڈاکٹرازہریؔ ۔۔۔چند یادیں apr-jul 2010

مولانا عبدالحنان فیضیؔ ؍حفظہ اللہ
مفتی و شیخ الحدیث جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر
ڈاکٹرازہریؔ ۔۔۔چند یادیں

جو بادہ کش تھے پُرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقاء دوام               لا ساقی!
بخاری شریف ’’کتاب العلم‘‘ میں قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ذکرکی گئی ہے کہ آخری زمانہ میں علوم دین ختم ہوجائیں گے اورجہالت کا دوردورہ ہوگا ،کتا ب العلم ہی میں ایک باب’’کیف یقبض العلم‘‘قائم کرکے امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ علم دین ختم ہونے کی کیا صورت ہوگی اور اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ذکرکی ہے جس میں بیان کیاگیا ہے کہ ’’علم دین کا اٹھایا جانا علماء دین کی وفات کے ذریعہ ہوگا ‘‘،اسی نظام کے تحت عرب وعجم کے بہت سارے ائمہ محدثین، فقہاء مجتہدین اور علماء کبار موت کے آغوش میں چلے گئے اورجاتے رہتے ہیں اورآئندہ بھی یہ سلسلہ تاقیامت قائم رہے گا، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، ڈاکٹرصاحب کی وفات کا حادثہ بلاشبہ ملک وملت اور جماعت کے لئے باعث رنج وغم توہے ہی مگر آپ کی جدائی سے جامعہ سلفیہ کو ناقابل تلافی خسارہ پہونچا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان کا نعم البدل عطافرمائے اورڈاکٹرصاحب کوجنت الفردوس میں جگہ دے کر ان کی دینی وملی اورجماعتی خدمات کو قبول فرمائے اوران کی بشری کوتاہیوں سے درگذرکرے ۔(آمین)
مرحوم کا تعلق شہر مؤ ناتھ بھنجن سے تھا جو کچھ برسوں پیشتر تک ضلع اعظم گڈھ کے زیرانتظام تھا ، اعظم گڈھ متعدد خصوصیات و امتیازات کے ساتھ ساتھ بڑامردم خیزواقع ہواہے، اس کی سرزمین سے بڑے بڑے اور نامورعلماء وفضلاء، محدث ومفسر، صحافی ومؤرخ ،ادیب وشاعر اورمدرس ومربی پیداہوئے جن کی علمی،دعوتی اوراصلاحی خدمات کے اثرات ہمیشہ محسوس کئے جاتے رہیں گے ،ان عبقری شخصیتوں میں مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوری ،شیخ الحدیث مولاناعبیداللہ رحمانی مبارکپوری اورمولانا شبلی نعمانی وغیرہ کا نام بہ طور مثال لیا جاسکتا ہے، اورخاص وہ شہر’’ مؤ‘‘ جہاں ہمارے ممدوح ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی ولادت ہوئی اس کی خاک سے مولانا ابوالمکارم،مولانا محمداحمد ،مولانا عبدالعلی ،مولانا عصمت اللہ رحمانیؔ ، مولانا عبداللہ صاحب شائق،مولانا مفتی عبدالعزیز ،مولانا مفتی حبیب الرحمن،مولانا فیض الرحمن اور اردوکے نامورشاعر فضا ابن فیضی جیسی عبقری شخصیتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے علوم وفنون کی بے مثال خدمات انجام دیں، اللہ تعالیٰ ان سب پررحم فرمائے اوران کی قبروں کو نورے سے بھردے۔(آمین)
ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ کی تعلیم کاآغاز انھیں کے محلہ ڈومن پورہ سے ہوا،جہاں بہت سارے اکابر علماء پیداہوئے ،ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ نے سب سے پہلے حفظ کلام اللہ کا شرف حاصل کیااوراس کی برکت سے مختلف علوم وفنون میں عروج وارتقاء کے منازل نہایت برق رفتاری سے طے کرتے ہوئے علم و فضل کے بلند وبالامقام پرپہونچ گئے، اورقلیل مدت میں تصنیف وتالیف، تدریس وتربیت اور بحث وتحقیق میں یکتائے روزگار ہوگئے، خودکئی اہم علمی ،ادبی اوراصلاحی کتابیں لکھیں عربی واردوکی متعدداہم کتابوں کے ترجمے کئے،تقریباً چالیس برسوں تک عربی واردومیں مسلسل مضامین لکھتے رہے اورساتھ ہی سیکڑوں کتابوں پر مقدمات وتقریظات تحریرفرمائے، اکابراہل علم موصوف سے اپنی کتاب کامقدمہ لکھانے میں فخرمحسوس کرتے تھے اورموصوف بھی ایسے علماء کی خواہشات پوری کرنے میں کسی حیل و حجت سے کام نہ لیتے تھے۔
میں ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کوزمانہ طالب علمی سے جانتاہوں، جس زمانہ میں راقم مدرسہ فیض عام مؤ میں زیرتعلیم تھا ازہری صاحب بھی اس وقت وہیں طالب علمی کی زندگی گذاررہے تھے اورمجھ سے جونیئر تھے، ان دنوں مؤطلبہ کا مرجع اور علماء کا مرکزتھا، مولاناعبداللہ شائق، شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفی، مولانامصلح الدین اعظمی، مولانا عبدالمعیدبنارسی،مولانا محمداحمد مؤی، مفتی حبیب الرحمن رحمہم اللہ جیسے نامور مدرسین وہاں موجودتھے اورپورے آب وتاب کے ساتھ علم کی روشنی بکھیررہے تھے۔
میرے فیض عام کے رفقاء درس میں مولانا مظہرحسن ازہری،مولانا امان اللہ فیضیؔ ( بہار) ، مولانا ابو مظہر اور مولانا ابوالمظفر وغیرہم قابل ذکر ہیں، جب کہ معاصرین میں مولانا عبد الرحمن مبارکپوری حفظہ اللہ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ ، شیخ محمد عطاء الرحمٰن مدنیؔ ،مولانا عبد الحمید رحمانیؔ اورڈاکٹرحافظ عبدالعلی مؤی وغیرہم لائق ذکرہیں، ان میں مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کے سوا سب مجھ سے جونیئر تھے بلکہ مؤخر الذکر دونوں قابل قدر شخصیات مجھ سے کئی جماعت نیچے کی جماعتوں میں پڑھتے تھے، اس زمانہ میں ذہین، باذوق اورمتفوق طلبہ ہندوستان میں مدرسوں سے فراغت کے بعد مزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے جامعہ ازہر مصرکارخ کرتے تھے، میرے بعض ساتھیوں اور معاصروں نے بھی ازہرجانے کا منصوبہ بنایا، مگرجن خوش بختوں کی قسمت نے یاوری کی اورجوازہرگئے وہ تینوں ہی اتفاق سے مؤ کی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے(۱)ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ(۲) مولانامظہرحسن ازہری(۳)ڈاکٹر حافظ عبدالعلی ؍ حفظہما اللہ، میرے دل میں بھی حصول علم کا شوق تھا اورازہرجانے کی خواہش رکھتا تھا مگرزادِراہ میسرنہ ہونے کے سبب میری یہ آرزوپوری نہ ہوسکی، باقی میرے ان تینوں معاصر رفقاء کواللہ نے موقعہ دیا اورانھوں نے ازہر پہونچ کر اپنی صلاحیتوں کوچارچاند لگایا اورپھر علمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
ہمارے ممدوح ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ جامعہ ازہرسے جب واپس وطن آئے توجامعہ سلفیہ بنارس کے بالغ نظر اورمردم شناس ناظم مولاناعبدالوحید سلفی رحمہ اللہ نے آپ کی خدمات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور علمی، تدریسی، دعوتی، قلمی اورانتظامی صلاحیتوں کوپوری آزادی کے ساتھ اجاگر کرنے کے لئے انھوں ڈاکٹر صاحب کوجامعہ سلفیہ کا وقیع پلیٹ فارم دیا اورمحترم ازہری صاحب ناظم مرحوم کی آرزؤں کے مطابق جامعہ کی خدمت میں لگ گئے اور آخری سانس تک جامعہ کی متنوع خدمت انجام دیتے رہے۔
جس وقت ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری جامعہ سلفیہ تشریف لائے وہ جامعہ کا بالکل ابتدائی دور تھا، ابھی اس کے قیام پرچند برس ہی گذرے تھے، علم و ادب کے اس گلشن کو ایک ہونہار ،جفاکش اور مخلص مالی کی ضرورت تھی اور اللہ نے اس کا انتظام ازہری صاحب کی شکل میں کرادیا،بلا شبہ جامعہ سلفیہ بنارس کوان کی تشریف آوری سے ایک نئی زندگی ملی اوراس کے عروج وترقی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ،موصوف نے عرب وعجم کے اندر جامعہ سلفیہ کومتعارف کرانے میں انتہائی نمایاں کرداراداکیا، عرب وعجم کی بہت ساری کانفرنسوں اورعلمی مجالس میں تشریف لے جاکر جامعہ کے شایانِ شان نمائندگی فرمائی،اور اس کے علمی شعبہ’’ادارۃ البحوث العلمیۃ‘‘ کی سرپرستی فرماکر اور عربی،اردب،انگریزی اور ہندی زبانوں میں سیکڑوں علمی،دعوتی اور تحقیقی کتابوں کی اشاعت کراکے جامعہ کے علمی وقار میں اضافہ کیا، اوریہ حقیقت ہے کہ جامعہ سلفیہ کو بام عروج تک لے جانے میں محترم ازہری صاحب کارول بڑااہم رہا ہے اور ان کے احسانات سے جامعہ کبھی بھی سبکدوش نہیں ہوسکتا۔
جامعہ سلفیہ میں چارسالہ قیام اوروہاں تدریسی فریضہ انجام دینے کے دوران ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ نے مجھ ناچیز کو اپنی عظیم عنایتوں اوراحسانوں سے نوازا جس کا میں صدق دل سے معترف ہوں اورآئندہ بھی تاحیات معترف واحسان مندرہوں گا اوران احسانات وعنایات کاشکریہ دعاکے ذریعہ کرتارہتاہوں ، غالبا ۱۹۷۳ ء کی بات ہوگی جب جامعہ سلفیہ بنارس نے تدریسی خدمت انجام دینے کیلئے مجھے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی، جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے ناظم اور میرے مشفق استاد خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤف رحمانی رحمہ اللہ نے ایثار کرکے مجھے وہاں جانے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی کہ جب بھی بنارس سے آپ واپس ہوں گے تو جامعہ سرا ج ا لعلوم میں ہی آنا ہوگا، بہر حال میں جامعہ سلفیہ بنارس گیا مگر وہاں کی آب و ہوا مجھے راس نہ آسکی،بلڈ پریشر کاعارضہ لاحق ہوگیا اور جسم میں فیلیا کااثر بھی ظاہر ہوا اور بالآخر چار سال کے بعد مجھے بنارس سے جھنڈانگر واپس آنا پڑا،جامعہ سلفیہ میں چار سالہ قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب ہمہ وقت میری ہمت افزائی کرتے اور میرا حوصلہ بڑھاتے رہتے ، چنانچہ تفسیر بیضاوی اور منطق کی قدرے مشکل کتاب قطبی پڑھانے کے لئے اساتذہ جلدی تیار نہ ہوتے تھے، ازہری صاحب نے میرا نام لیا ،میں پرانے مدرسین جن میں کئی ایک میرے استادبھی تھے ان کے سامنے ان کتابوں کے پڑھانے کی حامی کیسے بھرتا لیکن ازہری صاحب نے پورے اعتماد اور وثوق سے جب یہ کہا کہ’’ کیا آپ وہی عبد الحنان نہیں ہیں جو فیض عام میں تھے‘‘ تو ان کی اس بات سے مجھے قوت ملی اور ان کتابوں کی تدریس اپنے ذمہ لی اور تفسیر بیضاوی چاروں سال پڑھاتا رہا اور پھر جب جامعہ سراج العلوم واپس آیا تو تقریبا بائیس چوبیس سال تک اسے پڑھاتا رہا، تین چار سال قبل جب تفسیر بیضاوی نصاب سے خارج کی گئی تو اس کی تدریس کا سلسلہ موقوف ہوا۔
جامعہ سلفیہ میں علالت کے دوران ڈاکٹر صاحب میری ہرطرح سے ہمہ وقت ہمت افزائی فرماتے اوربرابر مجھے تسلی ودلاسہ دیتے، کبھی کبھار کلاس میں آجاتے اورفرماتے تھوڑا پڑھایئے، زیادہ محنت نہ کیجئے، اگرمشکل معلوم ہوتوکلاس ہی میں نہ آیئے،ایک بارکسی امتحان کے بعد چھٹی ہورہی تھی، جامعہ کے ذمہ داران نے اساتذہ پر پابندی عائد کررکھی تھی کہ کوئی بھی استادامتحانی کاپیاں چیک کئے بغیر گھر نہ جائیں گے، اس فیصلہ سے مجھے سخت الجھن تھی ، میں اپنی علالت کے سبب جلد از جلد گھر اپنے بچوں میں پہونچنا چاہتا تھا،اس کی خبر ازہری صاحب کو ہوئی، انھوں نے کہا کہ اپنی ساری کاپیاں مجھے دیجئے اور آپ اطمینان سے گھر جائیے، چنانچہ میرے اس محسن نے سیکڑوں کی تعداد میں میری امتحانی کاپیاں چیک کیں، اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر دے، اہل علم کی قدر دانی،ہمت افزائی اور ان کی معاونت درحقیقت ازہری صاحب کی زندگی کا ایک نمایاں باب ہے۔
ڈاکٹرازہری کے خسراورحضرت مولانا محمدصاحب حفظہ اللہ کے والدمحترم مولانا عبدالعلی رحمہ اللہ چھ سال تک میرے ممتحن رہے ہیں، جماعت ثالثہ سے ثامنہ تک میراامتحان لیتے رہے،موصوف انتہائی باصلاحیت اورلائق وفائق استاذاورجامع العلوم والفنون تھے ،مولانا محمد صاحب بھی اکابرعلماء اہل حدیث میں سے ہیں اورخوشی ہے کہ ان کے فرزندگرامی مولانااسعد اعظمی بھی علم وتحقیق کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرچکے ہیں اور جامعہ سلفیہ میں اپنے ماموں ازہری صاحب کے کاموں کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ چندتاثرات تھے جوبہ مشکل ضبط تحریرمیں لے آئے گئے، اللہ تعالیٰ ازہری صاحب کی مغفرت کرے اوران کی خدمات کوان کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment