Wednesday, June 16, 2010

ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ اور ان کی عربی طرزِ تحریر apr-jul-2010

ڈاکٹرلیث محمد لال محمدعمریؔ مکی
ندوۃ السنۃ،اٹوابازار، سدھارتھ نگر

ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ
اور ان کی عربی طرزِ تحریر
اس جہانِ رنگ وبومیں ابتدائے آفرینش ہی سے لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے، یہ سلسلہ اس دارِ فانی کے فناکا منہ بولتاثبوت ہے ،اکثروبیشتر لوگ آتے ہیں اورچلے جاتے ہیں، ان کے نام ونشان مٹ جاتے ہیں، دنیا انھیں بھول جاتی ہے،اس لئے کہ انھوں نے اپنے پیچھے یادوں کاکوئی سلسلہ نہیں چھوڑا۔مگر کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کے محاسن واوصاف حمیدہ کے باعث چلے جانے کے بعدبھی دنیاانھیں یادرکھتی ہے ،وہ دنیائے علم وادب میں تصنیفات وتالیفات، تراجم وتحقیقات ،مضامین ومقالات کے انمٹ نقوش چھوڑجاتی ہیں جن سے ان کی یادیں ذہنوں میں تازہ رہتی ہیں،ان کے بعددرس وتدریس اورتلامذہ کی شکل میں علم ینتفع بہ کی ایسی عملی تفسیر باقی رہ جاتی ہے جوان کے لئے صدقہ جاریہ کا کام کرتی رہتی ہے، انھیں ہستیوں میں سے ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کی بھی ہستی ہے جوبتاریخ ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ بروزجمعہ داغ مفارقت دے کراس دارفانی سے داربقاکو چل بسے، اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت عطاکرے ۔(آمین)
مجھے آپ کی سیرت کے ایک خاص گوشے ’’ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کی عربی طرزتحریر‘‘ کواجاگر کرناہے، لیکن اس سے پہلے آپ کے ایک خاص وصف کاذکرکئے بغیرنہیں رہ سکتا کہ میراخود اس سے سابقہ پڑچکا ہے، لکھنے پڑھنے اورمیدانِ تصنیف وتالیف سے منسلک رہنے والوں کی آپ دل کھول کر تشجیع اورہمت افزائی کرتے تھے ،بڑکپن کا احساس اس راہ میں کبھی حائل نہ ہوا، چنانچہ جب میں نے اپنی کتاب’’تیسیرالنحو‘‘ پرتبصرہ لکھنے کی خواہش ظاہرکی، توپورے شرح صدرکے ساتھ آپ نے قبول فرمایا،قارئین حضرات میں سے جن لوگوں نے آپ کا تبصرہ پڑھاہوگا وہ میری رائے سے اختلاف نہیں کریں گے، آپ کی تشجیع وہمت افزائی سے یقیناًعلمی کاموں کے لئے مجھے بے پناہ حوصلہ وتوانائی ملی، اللہ تعالیٰ ہمارے دیگربڑے لوگوں کوبھی اس کی توفیق بخشے ۔(آمین)
ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی عربی طرز تحریر:
ادب نام ہے طرزِ ادا وتخیل کی ندرت کا،جس قدران دونوں میں ہم آہنگی ہوگی اتنا ہی ادیب عروج سے قریب ہوتاجائے گا،مواداوراسلوب بیان اس کے زمین وآسمان ہیں، بغیر ان دونوں کے یکجا ہوئے دنیا ئے ادب آبادنہیں ہوسکتی، یہ تو ہوسکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا سہارا لے کرکوئی ادیب میدانِ ادب میں نمایاں ہوجائے، لیکن ثبات ناممکن ہے، ہر دلعزیزی تو ممکن ہے لیکن ہمہ گیری واستحکام نصیب ہونا مشکل ہے۔
ادب کے نمایاں ہونے میں طرز تحریر اورمواد کاتناسب کیاہے؟ اس کا فیصلہ آسان نہیں، لیکن عام طورپر یہ رائے ہے کہ موادکی اہمیت اس سلسلے میں زیادہ ہے، اس لئے کہ جس پایہ کا خیال ہوتاہے، اسی مرتبہ کے الفاظ بھی ساتھ ہی ساتھ دماغ میں ابھرآتے ہیں ،کوئی خیال بغیر الفاظ کا سہارا لئے ہوئے ذہن میں نہیں آتا، مواد کے ذخیرے سے تخیل جب کوئی موضوع چنتاہے تو الفاظ ہی اس کو ہیئت عطاکرتے ہیں، گویا خیال زندگی ہے اورالفاظ پیکر، ظاہر ہے کہ زندگی بغیرپیکرکے آسانی سے نہ دیکھی جاسکتی ہے نہ سمجھی جاسکتی ہے، مگراس کے وجودسے انکارنہیں کیا جاسکتا ،روح بغیر قالب کے ہماری سمجھ میں آئے یانہ آئے مگرماننے والوں کے نزدیک اس کا ہونامسلم ہے، بہرحال روح بغیرجسم کے اورجسم بغیر روح کے بے معنی تونہیں، مگرناقابل فہم ضرورہے، ان دونوں کاساتھ ناگزیرہے، دنیا زیادہ تر ظاہری وجسمانی حسن سے متاثر ہوتی ہے، روح کی رعنائی کا بھی معیار اسی کوسمجھتی ہے ،معنوی وباطنی حسن کو دیکھنا آسان کام نہیں، اسی لئے توکہا گیاہے کہ ؂
عشق کا حسن کہاں دیکھ سکے اہل جہاں
ورنہ یوسف سے زیادہ تھا زلیخا کا جمال
بہ لفظ دیگرعموماًطرزِ تحریر واداکے حسن کا جادو ہی سرچڑھ کربولتاہے، غالب کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ دنیائے شاعری میں ان کے ابتدائی نقوش باوجود تخیل کی ندرت کے کوئی جگہ ادب میں نہ پاسکے، لیکن جب انھوں نے زبان وبیان اورطرزِ ادا کی رعنائی میں معقول اضافہ کرلیا تووہی سب سے بلندجگہ پرنظرآئے،اگروہ ایسانہ کرتے توانھیں یہ بلندی نصیب نہ ہوتی۔
اس تناظر میں جب ہم ازہری صاحب کی عربی تحریروں کاجائزہ لیتے ہیں تووہ طرز تحریرکے اعلی مقام پرفائز نظر آتے ہیں، پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ بے پناہ ذخیرۂ الفاظ کے مالک ہیں، وہ آپ کے ذہن میں اس طرح مستحضراور آپ کے سامنے اس قدردست بستہ کھڑے محسوس ہوتے ہیں کہ موقع ومحل کے اعتبارسے مطلوب الفاظ بے ساختہ خود بخود نوک قلم پر آجاتے ہیں، ان کا ایسا برمحل استعمال کرتے ہیں خصوصاً افعال کے صلات کو ایسی مہارت سے برتتے ہیں کہ پڑھنے والے کو کہیں سے بھی آپ کے غیرعرب ہونے کا شبہ نہ ہو، جبکہ برصغیرکے دوسرے لکھنے والوں کے یہاں اس سلسلے میں ایسی لغزشیں پائی جاتی ہیں جوان کی عجمیت کی چغلی کھاتی ہیں، آپ کے یہاں مشکل وبھاری بھرکم الفاظ کا بے تکا استعمال نہیں ملتا، جس سے اسلوب اور طرز تحریر کی رونق ورعنائی جاتی رہے، جب کہ دوسرے حضرات اسی کو معیار ادب سمجھ بیٹھے ہیں، ان کی تحریروں میں مشکل ترین اوربھاری بھرکم الفاظ کی ایسی بھرمار ہوتی ہے جس سے وہ نہایت بوجھل اوربھدی ہوجاتی ہیں، اپنا حسن وجمال کھوبیٹھتی ہیں، قارئین کے ذوق پرایسی گراں گذرتی ہیں کہ وہ ان سے متنفرہوجاتے ہیں، کچھ لوگوں کی تحریروں میں بہ تکلف وزبردستی مترادفات کی ایسی کثرت پائی جاتی ہے جس سے شبہ ہونے لگتا ہے کہ لکھنے والا احساس کمتری میں مبتلاہے، اورمترادفات کی بے جاکثرت سے اپنے اس احساس کو مٹانا چاہتاہے، آپ کی تحریروں میں اس طرح کاشائبہ تک نہیں ملتا، آپ کے جملوں میں بلاکی ہم آہنگی، ترکیبوں میں شدید ارتباط، عبارتوں میں دریا کی روانی وسلاست پائی جاتی ہے، اسلوب ایسا جاذب وپرکشش کہ قاری کھنچتا چلاجائے، تحریر اگر مضمون ومقالہ کی صورت میں مختصر ہوتواسے ختم کئے بغیر دم نہ لے، فقروں کی زنجیروں سے ایسی مترنم آواز ابھرتی ہے جوکانوں میں رس گھول دے۔
خشکی مذہبی تحریروں کا ایک لازمی جزء سمجھ لی گئی ہے، آپ کی اکثرعربی تحریروں کا تعلق مذہبی امورسے ہے، لیکن مذکورہ صفات سے متصف آپ کی طرز تحریر کاکمال ہے کہ انھیں بھی گل وگلزار بنادیاہے۔
خلاصہ یہ کہ آپ کی طرز تحریر ایسی عمدہ کہ لطافت وشادابی سطر سطر سے عیاں اورآمد وبے ساختہ پن لفظ لفظ سے نمایاں ہے، اسی طرزِ تحریر کے باعث جب عصرحاضر کے ہندوستانی ادباء کی تاریخ مرتب کی جائے گی توآپ کا شمار صف اول کے ادیبو ں میں ہوگا۔

1 comment:

  1. अल्लाह जज़ाए खैर दे डाक्टर लैस साहब को.उन्हों ने अजहरी साहब रहिमहुल्लाह के अरबी तर्जे तहरीर और उसकी खोसुसियात पर इज्मालन बरी अच्छी रौशनी डाली है.दर्हकिक़त इस मौज़ू पर मुख्तलिफ जवानिब को सामने रख कर तफसील से लिखने की ज़रूरत है.किन किन मौज़ुआत पर डाक्टर अजहरी साहब ने कलम उठाया और किस तरह हर मौजू पर उस की तबीअत के एतेबार से खास उस्लूब इख्तेयार किया,इसे तहकीकी अंदाज़ में पेश करने की ज़रूरत है. मसलन उन की किताब "हकिक़तुल अदब वावाजिफतुहू" का उस्लूब सौतुल उम्माह के एदारियों के उस्लूब से मुख्तलिफ है. इसी तरह उर्दू ज़बान में उनकी किताब "खातूने इस्लाम" का उस्लूब "मुख़्तसर ज़ादुल माआद"(उर्दू)से अलग है.डाक्टर लैस साहब अल्लाह के फज्लो करम से बासलाहियत और मुतामक्किन आलिम हैं. अगर अल्लाह से तौफीक तलब करते हुए कुछ मज़ीद वकत इस जानिब लगा सकें तो ये जमात पर एहसान होगा. अल्लाह उनके इल्म और वकत में बरकत अता फरमाए. आमीन.
    अल्बत्ता जो शेर डाक्टर साहब ने ज़िक्र किया है
    عشق کا حسن کہاں دیکھ سکے اہل جہاں
    ورنہ یوسف سے زیادہ تھا زلیخا کا جمال
    मैं समझता हूँ कि हज़ार हम कहें कि ये शेरी मुबालगा आराई और परवाजे तखय्युल है.इस के बावोजुद उसे कुबूल नहीं किया जा सकता.और हम मानें या न मानें उस से नबी की शान में गुस्ताखी बिलकुल साफ़ दिखाई देती है.जिस से बचने ही में आफियत है.
    वस्सलामो अलैकुम वराह,मतुल्लाहे वाबराकतुह.

    ReplyDelete