Wednesday, June 2, 2010

گرجا پرشاد کوئرالہ کی رحلت Editorial , March 2010

تجلیات
شمیم احمدندویؔ
گرجا پرشاد کوئرالہ کی رحلت
ملک میں ایک سیاسی عہد کا خاتمہ

دارالحکومت کٹھمنڈو میں’’نیشنل مسلم فورم نیپال‘‘ کا ایک اہم اجلاس ۲۰؍۲۱؍مارچ کو ہورہا تھا، یہ پورے ملک کے مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ہے جس میں ہرمکتب فکر کے مسلمانوں کی شمولیت ہے اورجومسلمانوں کے سیاسی وسماجی حقوق کے لئے ہرسطح پرجدوجہد کرتی ہے اورحالیہ برسوں میں مسلمانوں کے بعض مطالبات کو حکومت سے منظور کرانے میں اسے خاطرخواہ کامیابی ملی ہے۔
ملک میں اس وقت جدید خطوط پر اورجدید نظام حکومت کے تحت دستور سازی کا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے، یہ دستورہی طے کرے گا کہ اس ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا آیا انھیں دیگربرادران وطن کے ساتھ مساوی حقوق حاصل ہوں گے یا انھیں دوسرے درجہ کا شہری بن کرجینے کے لئے مجبورہونا پڑے گا، اورپھر سب سے بڑی اورقابل غور بات یہ کہ یہاں مسلمانوں کا دین وایمان اوران کا عقیدہ محفوظ ہو گا یا نہیں اورانھیں اپنی شرعی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہوگی یا عائلی قوانین میں انھیں اکثریت کے سامنے سپرانداز ہونا پڑے گا ،یہ ساری چیزیں ابھی مشکوک ہیں اور حکومت کی نیت واضح نہیں ہے، ایسے میں دستور ساز کمیٹی کے لئے انتخاب ہوا جس میں پورے ملک سے 600نشستوں والی پارلیمنٹ میں ۱۷مسلمان بھی منتخب ہوکرآئے جوکہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے کافی کم تعداد ہے پھربھی کسی قدریہ اطمینان تھا کہ دستورمیں مسلمانوں کے حقوق کے لئے یہ متحدہ طورپر آواز اٹھائیں گے اوران حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے پارٹی مفادات سے اوپراٹھ کر ملت اسلامیہ نیپالیہ کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں گے لیکن افسوس کہ یہ توقعات پوری ہوتی نظرنہیں آرہی تھیں، اورادھر وقت تیزی سے گزرتا جارہا تھا اوردستور سازی کا کام اپنے آخری مراحل میں پہونچ رہاتھا، ایسے میں ضرورت محسوس ہوئی کہ ملک کی متحدہ ونمائندہ اسلامی تنظیم نیشنل مسلم فورم نیپال قوم وملک کی مناسب رہنمائی کا فریضہ انجام دے اور اپنی ملی ذمہ داریوں کواداکرے،اس لئے ایک فوری اجلاس کا فیصلہ کیا گیا۔
۲۰؍مارچ اس اجلاس کا پہلادن تھا جس کی کارروائی کامیابی کے ساتھ جاری تھی اس میں ملک کے دورونزدیک کے مختلف علاقوں وسیاسی پارٹیوں کے تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اورتقریباً نصف ممبران پارلیمنٹ اس میں شریک بھی ہوئے، فورم کی مجلس شوریٰ ومجلس عاملہ کے ممبران اور اضلاع کے نمائندے بھی شریک بزم تھے، کٹھمنڈو کا ایک بڑاہال اس کے لئے منتخب کیا گیا تھا، مسلم مسائل پربحث زوروشورسے جاری تھی اوراس کے مختلف پہلوؤں پر مقررین روشنی ڈال رہے تھے، بیشتر مقررین ملک کی زبان نیپالی میں اظہار خیال کررہے تھے اوردستورکی ان شقوں اورپہلوؤں کی نشاندہی کررہے تھے جہاں ہمارے ساتھ ناانصافی اورحق تلفی ہورہی تھی یا ہوسکتی تھی، سامعین گوش برآواز تھے کہ اسی دوران بعض حاضرین کے موبائل پر موصول ہوئی کچھ خبروں کے بعد سامعین میں اضطراب وبے چینی محسوس کی گئی پھرکچھ سرگوشیوں اورکانا پھوسیوں کے درمیان انا ونسرنے اٹھ کریہ المناک وحسرت ناک خبرسنائی کہ نیپالی کانگریس کے سبھاپتی(صدر) اورملک کے سابق وزیراعظم گرجاپرشاد کوئرالہ اب اس دنیا میں نہیں رہے اورملک ایک فیصلہ کن وحساس مرحلہ میں ایک مردآہن اورزبردست قوت ارادی کے مالک اورسیاسی شعورسے مالامال شخصیت کی قیادت سے محروم ہوگیا، اورایک ایسے نازک لمحہ میں جب کہ ملک ایک نئے نظام حکومت کے خدوخال طے کرنے میں مصروف ہے اورنیا آئین ترتیب وتکمیل کے آخری مرحلہ میں ہے ملک نے ایک ایسی شخصیت کو کھودیا جو کسی بھی خلفشار وانتشار سے عہدہ برآہونے اورکسی بھی نازک صورتحال سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
گرجا پرشاد کوئرالہ جنھیں سیاسی حلقوں میں دوست ودشمن سبھی کی جانب سے احتراماً ’’گرجابابو‘‘ کے لقب سے یاد کیاجاتا تھا اورسبھی ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اورپیچیدہ گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت کا اعتراف کرتے تھے اوران کی یہی صلاحیت تھی کہ انھیں پانچ بارملک کا وزیراعظم منتخب کیا گیا اوران کی قیادت پراعتماد کیاگیا۔
گرجا پرشاد کوئرالہ یوں تو نیپالی کانگریس کے صدرتھے لیکن تمام سیاسی پارٹیوں میں عزت واحترام کی نظرسے دیکھے جاتے تھے، اورملک میں ان سے بڑا قدآورلیڈر کوئی پیدانہیں ہوا، انھیں سیاست اپنے والد بی.پی. کوئرالہ سے وراثت میں ملی تھی جنھوں نے پہلی بارشاہی حکومت کے خلاف ایک مؤثرتحریک چلاکراس کے ایوانوں میں زلزلہ برپاکردیا تھا اورجمہوریت کی جانب مضبوطی سے قدم بڑھادئے تھے، لیکن شاہی حکومت کا اقتدار بھی ابھی مضبوط تھا اورعوام میں اس کی جڑیں بھی گہری تھیں،لیکن اس سے زیادہ طاقت کا توازن اس کے حق میں تھا اس لئے انھیں خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔
تاہم قیام جمہوریت کی ان تحریکات میں جن میں نیپالی کانگریس کا قائدانہ کردارتھا گرجا پرشاد کوئرالہ اپنی پارٹی اوراپنے والد کے دست وبازو بنے رہے، جہاں وہ سیاست کے بنیادی اصول بھی سیکھتے رہے اورجمہوریت کے لئے راہ بھی ہموار کرتے رہے 2039بکرمی سال میں ان کے والد کی وفات ہوئی جس کے بعد تحریک میں مزید تیزی آئی،شاہی حکومت کو اقتداراعلیٰ سے محرومی کسی طرح گوارہ نہ تھی اس لئے عوامی تحریک کو بزورطاقت دبانے کی ہرممکن سعی وتدبیرکی گئی، گرجاپرشاد پرشاہی عتاب نازل ہوا اورانھیں اپنے دیگر کئی ساتھیوں کے ساتھ ملک بدری اورجلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی، اورکئی سال تک انھوں نے پڑوسی ملک ہندوستان کے شہر بنارس اوردیگر مقامات میں مقیم پناہ گزین کے طورپرزندگی کے بیش قیمت ایام گزارے لیکن جمہوری حقوق کی حصولیابی کے لئے ان کی تگ ودوجاری رہی، 2046ب سال میں ایک نئے آندولن کا آغاز ہوا جس نے ملک گیرتحریک کی شکل اختیار کرلی، اس کی قیادت بھی کمیونسٹ پارٹیوں کے تعاون کے ساتھ نیپالی کانگریس کے ہاتھ میں ہی تھی، چندہفتوں کی پرامن اورپھرپرتشددتحریک کے بعد راجہ بریندر کو عوامی خواہشات کے سامنے سرجھکاناپڑا اورانھیں اس بات پرمجبور ہوناپڑا کہ پارلیمنٹ کی قانون ساز اوربااختیار ادارہ کی حیثیت تسلیم کرلیں ورنہ اس سے پہلے اگرچہ پارلیمنٹ تھی لیکن سارے اختیارات کا سرچشمہ نارائن ہیٹی درباریعنی ایوان شاہی تھا، ملک کے لئے سارے فرمان وہیں سے صادرہوتے تھے اورممبران پارلیمنٹ کی حیثیت راجہ کی جی حضوری وکاسہ لیسی کرنے والے خوشامدی درباریوں جیسی تھی، حتی کہ وزیر اعظم کی تقرری کا اختیاربھی راجہ ہی کے پاس تھا،دیگر وزرائے مملکت کا انتخاب بھی راجہ کی صوابدید پرہی منحصرتھا، گویاکہ اختیارات سے عاری ایک نام کی پارلیمنٹ تھی، لیکن ۲۰۴۶سال کی تحریک جمہوریت کے بعدراجہ کو پہلی بارعوامی احساسات کے سامنے سپرڈالنے پرمجبورہوناپڑا، یہ گرجا پرشاد کوئرالہ اوران کے سینئرساتھیوں گنیش مان سنگھ اورکے پی بھٹرائی کی پرامن تحریک کا نتیجہ تھا،لیکن اس تحریک کی کامیابی کے پیچھے گرجا پرشاد کوئرالہ کا ہی دماغ کام کررہاتھا جسے انھوں نے عوامی رابطوں کے ذریعہ ملک گیر تحریک میں تبدیل کردیا تھا، اس طرح پہلی بار پارلیمنٹ کو یہ اختیارات حاصل ہوئے کہ ملک کی فلاح وبہبود کے لئے آزادانہ طورپر قوانین بناسکے اورفیصلے صادر کرسکے، لیکن اقتدار اعلیٰ ابھی بھی راجہ کے ہی ہاتھ میں تھا، جوملک کے آئینی صدرمملکت کی حیثیت سے اپنی صوابدید پرپارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا اختیاررکھتا تھا اورملک کی مسلح افواج کی کمان اسی کے ہاتھ میں تھی جسے استعمال کرنے کا حق بھی صرف اسے حاصل تھا، یہ وسیع حقوق واختیارات کئی بارپارلیمنٹ کے وقارکومجروح کرنے کا باعث بنے اسے نیپالی دستور کی اصطلاح میں آئینی راج تنترکہاگیا گویاکہ اختیارات کا مرکز گرچہ اب بھی ایوان شاہی ہی تھا لیکن اسے آئین ودستور کے تابع رکھاگیاتھا،گویاکہ اس نئے دستورمیں جمہوریت بھی تھی اورشہنشاہیت بھی،لیکن پارلیمنٹ کو حاصل ہونے والے یہ جزوی اختیارات بھی اس شاہی مطلق العنانی کے مقابلہ میں بسا غنیمت تھے جس کے بارے میں نیپالی میں ایک مشہورجملہ زبان زد خاص وعام تھا اوراسی پرعمل بھی کہ ’’راجہ کو مکھے لے آئین ہو‘‘ یعنی راجہ کافرمان شاہی ہی دستورہے اس میں کسی چوں چرا کی گنجائش نہیں، لیکن ۲۰۴۶کے اس آندولن کے بعد ملک کا ایک دستور مرتب ہوا جس میں پارلیمنٹ کی آئینی وقانون سازی کی حیثیت کو تسلیم کیاگیا، یہ ایک بڑی پیش رفت تھی جو ملک کے باشعور سیاستدانوں کی بدولت ممکن ہوئی جس کے سرخیل وروح رواں گرجا پرشاد کوئرالہ تھے کہ کسی خوں ریزی وتشدد کے بغیرانھوں نے ملک میں قیام جمہوریت کے خوابوں کوتعبیر عطاکیا۔
نئے دستور کے تحت ملک میں انتخابات ہوئے جس میں نیپالی کانگریس، امالے(کمیونسٹ پارٹی) نیپال سدبھا وناپارٹی اورراجہ کی حمایت یافتہ راشٹریہ پرجاتنترپارٹی سمیت ایک درجن سے زائد چھوٹی بڑی پارٹیوں نے حصہ لیا، نئے دستور کے تحت اس پہلے پارلیمانی انتخاب میں نیپالی کانگریس پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی اوراسے حکومت سازی کا موقع ملا، اورگرجا پرشاد کوئرالہ کو ملک کی پہلی منتخب حکومت کا وزیراعظم تسلیم کیا گیا جب کہ اس سے قبل عارضی حکومت کی وزارت عظمیٰ کاتاج کے پی بھٹرائی کے سرپررکھاگیاتھا۔
گرجاپرشاد کوئرالہ کی سیاسی زندگی کا سفربہت طویل ہے جو ۶دہائیوں سے زائد عرصہ پرمحیط ہے اوریہ سفرجہد مسلسل اورقربانیوں وحصولیابیوں سے عبارت ہے، انھوں نے کئی بارملک کو سنگین بحرانوں سے نکالا ہے اوراپنی سوجھ بوجھ ،قائدانہ صلاحیت اوردوراندیشی کا لوہامنوایا ہے، انھوں نے اپنے طویل سیاسی سفر میں کئی نشیب وفراز دیکھے،کبھی پارٹی کے اندر سے انھیں مخالفتوں ومخاصمتوں کا سامنا کرناپڑا اوران کی قیادت کو چیلنج کیاگیا توکبھی رہ رہ کرشاہی حکومت کی جانب سے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے اوراختیارات کا ناجائز استعمال کیاگیا، اوربارہا جمہوریت کوآمریت سے خطرات لاحق ہوئے لیکن گرجاپرشاد کوئرالہ کی آہنی شخصیت تھی کہ ہرخطرہ وصورت حال کا پامردی سے مقابلہ کیا اورجمہوریت جس نامکمل شکل میں بھی تھی اس کی حفاظت کی،لیکن ان کی سیاسی زندگی میں ملک کے لئے جوسب سے سنگین بحران سامنے آیا وہ ماؤنوازوں کی پرتشدد تحریک کی صورت میں تھا اور اس سے جمہوریت ہی نہیں ایک وقت ایسا آیا کہ ملک کا وجودہی خطرہ میں پڑگیاتھا ،پوراملک تشددکی آگ میں جل رہا تھا، انسانی جان ومال اورعزت وآبرو کی کوئی قیمت نہ تھی، پوراملک خوف وہراس کا شکارتھا اورمستقبل غیریقینی، راجہ کے زیرکنٹرول مسلح افواج بھی ماؤنوازوں سے نپٹنے اورصورت حال کوبدلنے سے عاجز وقاصرتھی، ماؤنوازوں کی مسلح وپرتشددتحریک گرچہ کانگریسی دوراقتدار میں ہی شروع ہوئی تھی لیکن راجہ کے عدم تعاون اوربروقت فوج کے استعمال کی اجازت نہ دینے کی بناپر اس پرقابونہیں پایاجاسکا اورتشدد وخون خرابہ کادائرہ وسیع سے وسیع ترہوتا گیا، یہاں تک کہ پارلیمانی انتخاب کو بھی غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کرناپڑا کیونکہ ماؤنوازوں کی پرتشدد کارروائیوں کی بدولت حالات انتہائی ناساز گاربلکہ ناگفتہ بہ ہوچکے تھے،ایسے میں راجہ کوپارلیمنٹ تحلیل کرنے اوراپنے دستوری اختیارات استعمال کرنے کا موقع مل گیا اس طرح جمہوریت کا یہ پہلا دوربہت مختصر ثابت ہوا یعنی ۲۰۴۷ب میں قائم شدہ جمہوریت کو راجہ نے صرف ۱۲سال بعد ۲۰۵۹ب سال میں کالعدم قرار دے کرسارے اختیارات ازسرنواپنے ہاتھ میں لے لئے، راجہ کا یہ فیصلہ سیاسی پارٹیوں کے لئے حیرتناک اورناقابل برداشت تھا لیکن اس وقت ماؤنوازوں کی دہشت گردی اس قدر عروج پرتھی کہ ہرآدمی کو صرف اپنی جان ومال اورعزت وآبروکی فکرتھی، یہی وجہ ہے کہ راجہ کے اس جمہوریت شکن اقدام کے رد عمل میں کوئی عوامی احتجاج سامنے نہیں آیا اورہرآدمی صرف اپنی ذات کی فکرکرنے تک محدو د ہوگیا ،ملک کی صورت حال بہت مخدوش تھی اورصرف جمہوریت ہی نہیں بلکہ ملک کا وجود وبقابھی خطرہ میں تھا اورایسے میں عوام ماؤنوازوں کی جارحانہ وسنگدلانہ کارروائیوں اورفوجی زیادتیوں کے درمیان چکّی کے دوپاٹوں کی طرح پس رہے تھے نہ کوئی ان کا پرسان حال تھا اورنہ ان کے لئے کوئی جائے پناہ اورجائے فریاد، ایسے میں جب ملک انتہائی سنگین بحران کے دورسے گزررہا تھا گرجا پرشاد کوئرالہ کی ذات ہی مرکز امید ثابت ہوئی اوراس وقت جب راجہ کے فیصلوں کے خلاف کسی کو دُم مارنے کی مجال نہ تھی اورماؤنوازوں کے مظالم سے ملک کو اورخود اپنی ذات کو بچانے کی کوئی تدبیرنہ تھی ایسی نازک گھڑی میں گرجاپرشاد کوئرالہ ان چند لیڈروں میں سے ایک تھے جنھیں اپنی ذات سے زیادہ ملک کے مستقبل کی فکر تھی۔
راجہ نے امن وامان کی بگڑتی صورت حال کا حوالہ دے کر زمام اقتدار توضرور اپنے ہاتھ میں لے لیاتھا لیکن اس میں کوئی بہتری آنے کے بجائے روزبروزحالات بدسے بدترہوتے گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ ملک کے بیشترحصوں بالخصوص دورافتادہ پہاڑی اضلاع پرعملاً ماؤنوازوں کا کنٹرول ہوگیا، برادران وطن کا خون ارزاں ہوگیا اورپانی کی طرح بہتا رہا ،یہ سب سے سنگین صورت حال تھی جس کا سامناگرجاپرشاد کوئرالہ اپنی طویل سیاسی زندگی میں کررہے تھے ایسے میں ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لئے انھوں نے اپناسب کچھ داؤں پرلگادیا، اگرچہ وہ کمیونسٹ فکرکے ہمیشہ سے مخالف تھے اورسب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی(امالے) ان کی سب سے بڑی حریف پارٹی تھی اورماؤنوازوں کی مسلح جدوجہد اور ان کی پرتشدد سرگرمیاں نظرانداز کئے جانے کے لائق نہیں تھیں لیکن جب انھوں نے حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کے بعدیہ محسوس کرلیا کہ نہ توراجہ کی مسلح افواج کو ماؤنواز تحریک کو کچلنے میں کامیابی مل سکتی ہے اور نہ ماؤنواز خون خرابہ اورقتل عام بند کرسکتے ہیں توبہرصورت نقصان ملک کا اور ملک کے بے قصورعوام کا ہی ہوگا،ایسے میں انھوں نے ان کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ مفاہمت ومصالحت کاتلخ گھونٹ پینا بھی گوارہ کرلیا، اس طرح ان کے زیر قیادت نیپالی کانگریس وماؤوادیوں سمیت ۸پارٹیوں کا دلّی میں اجتماع ہوا اور۱۲ نکاتی سمجھوتہ تشکیل پایا یہ ان کی ایک اہم کامیابی تھی کہ مسلح ماؤوادیوں اورخونی انقلاب کاخواب دیکھنے والے جنونیوں کومذاکرات کی میز پربیٹھنے کے لئے مجبورکردیا، اوریہ ان کی مقبولیت اوران کی قیادت پراعتماد کا ہی نتیجہ تھاکہ ان تاریخ ساز اورفیصلہ کن لمحات میں ان کو تمام پارٹیوں نے اپنا صدر منتخب کیا ،جب کہ ان مختلف الخیال پارٹیوں کے نمائندوں کاکسی ایک شخص کی قیادت پرمتفق ہونا بادی النظر میں محال نظر آتا تھا، اب گرجا پرشاد کوئرالہ کی حیثیت محض نیپالی کانگریس کے سبھاپتی کی نہ تھی بلکہ ان کی حیثیت پورے ملک کے غیرمتنازعہ اورمتفقہ قائد کی ہوگئی تھی۔
راج شاہی کے خلاف جنگ اور تحریک بحالی جمہوریت کی قیادت جب گرجا پرشاد کوئرالہ کے پاس آئی توانھوں نے اس خوش اسلوبی کے ساتھ ملک کو بحران سے نکالا کہ ہرشخص موافق ہویامخالف ان کی قائدانہ صلاحیت اوران کی سیاسی سوجھ بوجھ کامعترف ومداح ہوگیا، کیونکہ جہاں ایک طرف وہ کمیونسٹ پارٹیوں اوران ماؤنوازوں کوساتھ لے کرچل رہے تھے جوہرمسئلہ کا حل صرف تشددوطاقت کے ذریعہ نکالے جانے میں یقین رکھتے تھے تودوسری طرف ان کے مقابلہ میں راجہ کی وہ شاہی سیناتھی جوہرتحریک کوبزورطاقت کچلنے کی قائل تھی ایسے میں ملک میں جس قدر بھی خون خرابہ نہ ہوتاکم تھا،لیکن حیرت انگیز طورپرملک میں اتنابڑا سیاسی انقلاب آگیا اورپورے ملک میں صرف ۱۷ آدمیوں کی ہلاکت ہوئی جب کہ اس سے قبل ماؤنوازوں کی دس سالہ پرتشددجدوجہد میں تقریباً ۲۰ہزارآدمیوں کواپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑاتھا اوراتنی بڑی ہلاکت کے بعدبھی ماؤنواز آخرتک اپنے مقصد (یعنی حصول اقتدار) سے اتنے ہی دورتھے جتنے اپنی تحریک کے آغاز میں تھے،لیکن گرجاپرشاد کوئرالہ کی پُرعزم اورباشعورقیادت کانتیجہ تھا کہ صرف ۱۵دن کی عوامی تحریک اورپُرامن احتجاج اورصرف ۱۷آدمیوں کی ہلاکت کے بعدملک سے ڈھائی سو سالہ شاہی اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اورجمہوری انقلاب کا مطلوبہ ہدف حاصل کرلیاگیا، یعنی جوکام بے گناہوں کے قتل عام اورگولہ بارودسے ممکن نہ ہوا اسے ایک مرد آہن نے اپنے ناخن تدبیرسے حل کرکے دکھادیا۔
اب گرجا پرشاد کوئرالہ کی ذات نگاہوں کا مرکز تھی اورملک کے عوام کی امیدوں کا محور،اوراپنے اس منصب کوانھوں نے بھرپور طریقہ سے محسوس کیا، ایسانہیں ہے کہ شاہی حکومت کی اقتدارسے بے دخلی کے بعدسب کچھ خاموشی کے ساتھ پلک جھپکتے درست ہوگیاہو، بلکہ بے شماررکاوٹیں آئیں اورکئی بارسیاسی مشکلات کا سامنا کرناپڑا، ماؤنوازوں نے کبھی بھی اس صورت حال کاتصور نہیں کیاتھا جو ان کو درپیش تھی وہ انتخابات کے راستہ مسند اقتدارپرقابض ہونے کے بجائے بزورطاقت اسے حاصل کرنا چاہتے تھے اوراپنے منصوبہ کے تحت ملک کو خالص کمیونزم ریاست میں تبدیل کرناچاہتے تھے ،جمہوریت ان کی کبھی منزل نہیں رہی اورماؤنواز لیڈر پرچنڈ نے اس کا بارہا وبرملا اظہاربھی کیا کہ یہ جمہوریت صرف ہمارا ایک پڑاؤ ہے ،ہماری منزل نہیں، لیکن گرجاپرشاد کوئرالہ نے ان کی ایک نہ چلنے دی، ان تمام سیاسی سرگرمیوں کے دوران ان کی رہائش گاہ’’بلواٹار‘‘ کوایک اہم مرکز کی حیثیت حاصل تھی جہاں جاکرتمام بڑی پارٹیوں کے لیڈران سیاسی رہنمائی اورفکری روشنی حاصل کیاکرتے تھے۔
اس سفر میں بڑے نشیب وفراز آئے اورملک کی سیاسی کشتی ہچکولے کھاکھا کرآگے بڑھتی رہی اورجب بھی ایسا لگا کہ ماؤنوازوں کے برپاکئے ہوئے طوفان میں پھنس کر یہ کشتی ڈوب جائے گی توایک ناخدانے آگے بڑھ کر پتوار سنبھالے اور اسے گرداب سے نکال کرساحل قرارپر پہونچادیا،اسی ناخداکو نیپالی عوام گرجاپرشاد کوئرالہ کے نام سے جانتے ہیں اوراس کانام عزت وعقیدت سے لیتے ہوئے انھیں ’’گرجا بابو‘‘کہتے ہیں۔
یہ نہیں کہاجاسکتا کہ ان کی ذات انسانی فطرت کی کمزوریوں سے مبراتھی ،ان کے اندربھی اقتدارکی ہوس کسی نہ کسی درجہ میں موجودتھی، اقرباپروری بھی عام سیاستدانوں کی کمزوری کی طرح حاوی تھی جس کی وجہ سے اپنے قریبی عزیزوں کوپارٹی کے اونچے عہدوں اورملک کی اہم وزارتوں پرفائز دیکھنا چاہتے تھے اپنی بیٹی سجاتاکوئرالہ کووزیرخارجہ اورپھرنائب وزیراعظم بنوانے کے سلسلہ میں ان کوکافی ہدف تنقید بننا پڑا اورچہار جانب سے ملامتوں کاسامناکرناپڑا اسی طرح خود وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے لئے بارہا پارٹی میں جوڑتوڑکی سیاست پربھی وہ کاربند رہے ان کے اوپر لگائے گئے اس الزام میں بھی کافی صداقت تھی کہ ماؤنوازوں کی مسلح جدوجہد کے آغاز میں انھوں نے ان کو نظرانداز کیا اوربروقت اس سلسلہ کی سنگینی کا احساس نہیں کیا اورنہ توان کو بزور طاقت کچلنے کی ضرورت سمجھی اورنہ بات کرنے کے لائق سمجھا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ آگے چل کرملک ایک پیچیدہ اورسنگین صورت حال سے دوچارہوا،اوربے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اورقومی املاک کی بربادی ہوئی۔
ایسامحسوس ہوتاہے کہ وہ عمرکے آخری پڑاؤ میں قوت فیصلہ کی کمزوری کاشکارہوگئے تھے ،یہی وجہ ہے کہ وہ ماؤنواز لیڈرپرچنڈ کے ان مطالبات کے سامنے بھی سرتسلیم خم کرنے پرمجبور ہوجایاکرتے تھے جنھوں نے بعدمیں پرچنڈ کو طاقت واستحکام عطاکیا اور روز بروز ان کی قوت میں اضافہ ہوتاگیا،یہی وجہ ہے کہ دستور سازکمیٹی کے لئے ہونے والے انتخابات میں ماؤنواز سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں سامنے آئے اورنیپالی کانگریس کوکافی پیچھے چھوڑدیا،اس سے گرجاپرشاد کافی ملول خاطراوردل شکستہ ہوئے اوران کی اس خواہش کوبھی دھکا لگا جووہ ملک کے پہلے صدرمملکت کا اعزاز حاصل کرکے پانا چاہتے تھے، پارٹی کے اندورنی وبیرونی اختلافات کی وجہ سے ان کی یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی لیکن پرچنڈ کو بھی یہ اعزاز حاصل کرنے میں اگرکامیابی نہیں ملی تواس میں گرجاپرشاد کوئرالہ کااہم رول ہے۔
ایک اورآخری بات جسے کہے بغیر چارہ نہیں کہ اگرچہ ان کا حلقہ انتخاب ترائی ضلع سنسری کاوہ علاقہ ہے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں سکونت پذیر ہیں اوران کی بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں ،لیکن مسلم مسائل کو حل کرنے اور ان کے مطالبات کو پورا کرنے میں انھوں نے کبھی دلچسپی نہیں دکھائی اورہرسطح پرانھیں نظرانداز کیا نہ پارٹی میں انھیں مناصب دئے اورنہ کسی اسلامی ملک میں بھی کسی مسلمان کو سفارتی خدمات انجام دینے کے لائق سمجھا اور نہ ہی پولیس وانتظامیہ اورفوج تودرکنار عام ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کو نمائندگی دی گئی۔
لیکن بہرحال ان کی ذات میں موجود ان بعض کوتاہیوں کے باوجود ان کی ذات میں خوبیوں کا پہلوحاوی ہے اورملک سے محبت اوراس کو چلانے کی صلاحیت دوسروں کے بالمقابل بدرجہازیادہ تھی اورعوام میں ان کی مقبولیت کا گواہ توان کے ’’شویاترا‘‘ کاجلوس ہی ہے جس میں لاکھوں سوگوارعوام کی شمولیت یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ وہ کسی ایک پارٹی کے لیڈرنہ ہوکرپورے ملک کے لیڈرتھے اورہرپارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ان کا خاص مقام تھا اوروہ ہرسطح پر ہردل عزیز نیتاتھے، ایسے مقبول عام اورہردل عزیز لیڈرکسی ملک میں صدیوں میں پیداہوتے ہیں جوتاریخ کادھارا بدلنے اورانقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وہ واحد ایسے لیڈر تھے جنھیں بوقت وفات کسی اہم سرکاری منصب پرنہ ہوتے ہوئے بھی پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات کی ادائیگی کی گئی جنھیں ۱۵توپوں کی الوداعی سلامی دی گئی اورتین دن کے سرکاری سوگ کا اعلان کیا گیا ۔
گرجا پرشادکی رحلت کے ساتھ ہی ملک میں ایک سیاسی عہدکا خاتمہ ہوگیا اورنئے نظام حکومت کے ساتھ اب ایک نئے عہدکا آغاز ہورہا ہے جو نئے دستورکی تکمیل کے بعد ملک کے سیاسی گلیاروں میں دستک دینے کے لئے تیارہے۔
**

No comments:

Post a Comment