Wednesday, June 2, 2010

توحید پرمرنے والے گنہگار کابالآخر ٹھکانہ جنت March 2010

ڈاکٹرسید سعید عابدیؔ
صدرشعبۂ اردو، جدہ ریڈیو،سعودی عرب
توحید پرمرنے والے گنہگار کابالآخر ٹھکانہ جنت

مسئلہ: ایک بزرگ نے میرے نام اپنے خط میں ایک رسالے سے درج ذیل اقتباس ارسال کیا ہے’’ صحیح بخاری کے باب’’تفاضل اہل الایمان فی الاعمال‘‘ کے تحت ایک حدیث ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ دوزخ میں جلنے والے مجرمین کے بارے میں حکم ہوگا کہ رائی کے دانے کے برابربھی جس مجرم کے اندرایمان ہے اس کو دوزخ سے نکال لو، اس طرح جو لوگ جل کرکوئلہ ہوچکے ہوں گے ان کوبھی نکال کرنہرحیات میں ڈالا جائے گا تو وہ دانوں کی طرح اُگ پڑیں گے ،سوال یہ ہے کہ جب ایمان کا ہرچھوٹا بڑا ذرہ میزان میں تولے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ مجرمین کے لئے جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ کرے گا پھراتنا قیمتی ذرہ جودوزخ سے نجات کاباعث بن سکتا ہے اعمال نامہ میں سے کیسے برآمد ہوجائے گا اوروہ پہلے کس طرح نظرانداز ہوگیا، پھرقرآن کی روسے مجرمین کے لئے خلود فی النار کی خبردی گئی ہے اس فیصلے میں تبدیلی کیوں کردی جائے گی؟ اس طرح کا عقیدہ یہود رکھتے تھے، قرآن نے اس کی نفی کی ہے اوربتایاکہ یہ ان کامن گھڑت عقیدہ ہے توکیا انسانوں میں سنت اللہ کا اطلاق الگ الگ بنیادوں پرہوگا، دراصل کسی بھی عقیدہ کاقرآن میں موجودہونا ضروری ہے اوریہ عقیدہ قرآن میں نہیں ہے‘‘۔
جواب: ۔مندرجہ بالا اقتباس میں صحیح بخاری کی جس حدیث پراعتراض کیاگیا ہے وہ حدیث امام بخاری کتاب الایمان کے باب’’اہل ایمان میں اعمال کے اعتبارسے درجات‘‘ کے تحت لائے ہیں اوروہ اس حدیث کے ذریعے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اعمال کی بنیاد پرایمان میں درجات ہیں، دوسرے لفظوں میں ایمان میں عمل بھی داخل ہے اورایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے یعنی اللہ کی اطاعت سے اس میں اضافہ ہوتاہے اوراس کی معصیت سے اس میں کمی ہوتی ہے، ایمان کے 3حصے ہیں ،دل میں تصدیق ،زبان سے اقراراوراعضاء سے عمل، ان تینوں کے مجموعے سے ایمان کو وجودملتا ہے بایں معنی کہ اگران میں سے کوئی ایک حصہ ناقص ہوگا توایمان ناقابل اعتبار ہوگا،ایمان کاجوحصہ دل سے متعلق ہے وہ تصدیق اوراعتقاد ہے جوگھٹتے گھٹتے رائی یاذرہ کے برابرہوسکتاہے۔
صحیح عقیدہ رکھنے والے مومن کوبھی بداعمالی اورگناہوں کی سزاملے گی اوراس کے گناہوں کی پاداش میں اسے دوزخ میں ڈالا جائے گا مگراپنے ایمان کی وجہ سے اس میں ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی نظرعنایت اور اس کے حکم سے دوزخ سے نکال کرجنت میں داخل کیاجائے گا، حدیث میں جس مومن کے جہنم سے نکال کرجنت میں ڈالنے کا ذکرآیاہے، وہ وہی ہے جواپنے گناہوں کی سزاکاٹ چکا ہوگا لیکن دل میں اپنے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت عنایت کا مستحق ٹھہرے گا۔
زیربحث حدیث میں’’ مجرمین‘‘ کاکوئی ذکرنہیں آیا، معترض نے اپنی بات میں وزن پیداکرنے کے لئے اپنی طرف سے اس کااضافہ کردیاہے لیکن اس سے ان کی بات میں کوئی وزن پیدا ہونا تودرکنار وہ ریت کا ایک ایسا تودہ ثابت ہوئی ہے جو علم کی ایک ٹھوکربھی برداشت نہیں کرسکتا اورحدیث میں اپنے اس خودساختہ اورمن گھڑت اضافے پرانھوں نے جوایک اور ’’ردہ‘‘ یہ چڑھایا ہے ’’قرآن کی روسے مجرمین کے لئے خلودفی النار کی خبردی گئی ہے ‘‘وہ ان کی قرآن فہمی کا مذاق اڑارہاہے۔
تعجب ہے کہ ایک ایسے شخص کو جس کی ساری عمرقرآن پاک کے درس و مطالعہ اورغور وتدبرمیں گزری ہے اورجس کواپنی قرآن فہمی کا احساس بھی تھا، اتنی بات نہیں معلوم تھی کہ قرآن پاک میں کسی گنہگارمومن کو’’مجرم‘‘نہیں کہاگیا۔
قرآن پاک میں لفظ مجرم واحد کے صیغے میں 2بار ایک بار الف لام کے ساتھ حالت رفع میں اوردوسری بار حالت نصب میں ’’نکرہ‘‘ استعمال ہوا ہے اورجمع کے صیغے میں 49مرتبہ استعمال ہوا ہے ،15بار حالت رفع میں اور34بارحالت نصب اورجرمیں لیکن کہیں بھی گنہگار اورمعصیت کا رمومنین کے مترادف کے طورپر نہیں آیاہے بلکہ نہایت ہٹ دھرم کفار اورمشرکین کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اگرمعترض نے پورے قرآن نہیں بلکہ صرف سورہ طہ کی آیت74اور75پراپنی اچٹتی سی نظرڈال لی ہوتی توان کو معلوم ہوجاتا کہ مومن اورمجرم ایک دوسرے کی ضدہیں ارشاد الٰہی ہے آیات قرآنیہ’’درحقیقت جواپنے رب کے حضورمجرم بن کر حاضرہوگا اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اورنہ جیے گا اورجواس کے حضورمومن کی حیثیت سے حاضرہوگا جس نے نیک اعمال کئے ہوں گے ایسے سب لوگوں کے لئے بلند درجات ہوں گے‘‘۔
اس قرآنی وضاحت کے ہوتے ہوئے یہودی عقیدے اورسنت الٰہی کے ذکر کی کیا ضرورت تھی؟
رہی یہ بات کہ ’’ایمان کا یہ چھوٹا ذرہ میزان میں تولے جانے سے نظرانداز کس طرح ہوگیا‘‘تواس کا جواب یہ ہے کہ گنہگار مومن کے دل میں پایاجانے والا ایمان کا یہ چھوٹا ذرہ اللہ تعالیٰ کی میزان عدل سے نظرانداز نہیں ہوابلکہ ہوایہ کہ وہ اپنے اس ایمان کے ساتھ ’’شرک‘‘ کے سواگناہوں کا ایک انبار بھی لے گیا تھا اوراللہ تعالیٰ کے عدل ہی کا یہ تقاضا تھا کہ اس کو ان گناہوں کی سزاملے لہذا وہ جہنم میں ڈال دیاگیا اورجب تک اللہ نے چاہا اس میں رہا، لیکن چونکہ وہ ’’موحد‘‘ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ اس کو دوزخ سے نکال کرجنت میں ڈال دو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ جوعقیدہ توحید پرمرے گا وہ لامحالہ جنت میں جائے گا۔
امام بخاریؒ مذکورہ حدیث اس باب کے تحت مرجۂ اورمعتزلہ کی رد میں لائے ہیں، مرجۂ اس فرقے کو کہتے ہیں جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ معصیت سے کوئی نقصان نہیں ہوتا جس طرح کفرکے ساتھ نیکی سے کوئی فائدہ نہیں، یہ لفظ مرجۂ صفت ہے جس کا موصوف فرقہ ہے یعنی فرقہ مرجۂ، یہ لفظ ارجاء سے بناہے جس کے معنیٰ ٹال دینے اورمؤخر کردینے کے آتے ہیں، یہ فرقہ ایمان کے ساتھ عمل پرکوئی حکم لگانے کے بجائے اس کو قیامت تک کے لئے ملتوی اور موخرکردیتاہے۔
معتزلہ اس فرقے کو کہتے ہیں جوگناہ کبیرہ کے مرتکب کو نہ مومن مانتا ہے اورنہ کافر، اس کا عقیدہ ہے کہ معاصی کے مرتکب مومن کو دوزخ میں ہمیشہ رہنا ہوگا، یہ لفظ اعتزال سے بناہے جس کے معنی ہیں الگ ہوجانا اورکنارہ کش ہوجانا، اس فرقہ کابانی واصل بن عطا ہے جوپہلے امام حسن بصریؒ کے حلقے میں شامل تھا لیکن ایمان کے ساتھ معصیت کے ارتکاب کے مسئلے میں ان سے اختلاف کربیٹھا اوران کے حلقے سے الگ ہوگیا۔
صحیح بخاری کی زیربحث حدیث پراعتراض کرنے والے بزرگ کا دعویٰ ہے کہ کسی بھی عقیدہ کا قرآن میں موجو دہونا ضروری ہے اورگنہگار مومن کو جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کرنے کا عقیدہ قرآن پاک میں نہیں، دراصل کسی عقیدے کو اسلامی عقیدہ ماننے کے لئے اس کے قرآن میں ہونے کا دعویٰ بہت پراناہے، یہ ’’راگ‘‘ سب سے پہلے خوارج اورمعتزلہ نے الاپاتھا جونئے منکرین حدیث وقفہ وقفہ سے الاپتے رہتے ہیں، انکا دعویٰ ہے کہ چونکہ حدیث ظنی الثبوت ہے اس لئے حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا، اگرہم کٹ حجتی اورمناظرہ بازی پراترآئیں توبلاخوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ خود یہ عقیدہ جس کی بنیادپرمنکرین حدیث اپنے دعوؤں کا قصرتعمیر کرتے ہیں، وہ ’’غیر قرآنی‘‘ لفظ ہے یعنی قرآن وحدیث میں ’’عقیدہ‘‘ کا لفظ نہیں آیا ،جس چیز کو ہم عقیدہ اوراس کی جمع عقائد کہتے ہیں اس کے لئے قرآن وحدیث میں’’ایمان‘‘ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے اورایمان کے آخرمیں یائے نسبت کے اضافے سے یہ صفت’’ ایمانی‘‘ بن جاتی ہے جس کی جمع’’ایمانیات‘‘ ہے یعنی وہ مسلمہ بنیادی امورجن پر ایمان ضروری ہے۔
مذکورہ وضاحت کے تناظرمیں ایمان کے ساتھ عمل بھی شامل ہے، جس کے شواہد قرآن وحدیث میں بھرے پڑے ہیں اوراحادیث میں متعدد مقامات اورموقعوں پر جویہ فرمایاگیا ہے کہ جوشخص اس حال میں مرے کہ وہ صرف اللہ کے معبود ہونے کا معتقد رہا ہو یا جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہو جنت میں جائے گا۔(بخاری ومسلم) تویہ چیز خود قرآن پاک میں زیادہ صریح الفاظ میں موجود ہے، ارشاد ربانی ہے‘‘جن لوگوں نے کہا،اللہ ہمارا رب ہے، پھراس پرجم گئے یقیناًان پرفرشتے نازل ہوتے ہیں اوران سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرواورنہ غم کرواورخوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کاتم سے وعدہ کیا گیاہے‘‘۔(حم السجدہ:30)
یقیناًجن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے پھرثابت قدم رہے ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔(الاحقاف:13)
ظاہر سی بات ہے کہ قرآن پاک کی ان دونوں آیات میں ’’اللہ کواپنا رب کہنے ‘‘اوردسیوں صحیح احادیث میں’’صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود اورالٰہ کہنے‘‘ کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ اس ایمان سے رسالت اورآخرت و غیرہ پرایمان اورعمل خارج ہے بلکہ قرآنی آیات اوراحادیث میں جزو کوبول کر’’کل ‘‘مراد لیاگیا ہے اورچونکہ ’توحید کی معراج‘‘ توحید الوہیت ہے اورتوحید کے دوسرے اجزاء اس کے تابع ہیں اور توحید الوہیت کے اقرار کے بغیر ان کا کوئی اعتبارنہیں اس لئے ہرجگہ اسی توحید الوہیت پرزوردیاگیا ہے اورانبیاء علیہم السلام کی زبانوں سے یہی اعلان کرایاگیا ہے کہ’’اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی عبادت کرو،اس کے سواتمہارا کوئی معبودنہیں‘‘۔(الاعراف:85-73-65-59)
میں نے ابھی جوکچھ عرض کیا ہے اس کی تفصیلا ت پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اورحدیث جبرئیل میں یکجا بیان کردی گئی ہیں، منکرین حدیث ہر دورمیں حدیث کے شرعی حجت ہونے کا انکار کرتے رہے ہیں، وہ لوگوں کو یہ تاثردینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چونکہ اولاً توحدیث رسول اللہﷺ کے اجتہادات سے عبارت ہے اوراجتہاد میں خطاء اورصواب دونوں کا احتمال ہے اس لئے حدیث اساسیات دین کا مأخذ بننے کے قابل نہیں ہے۔
ثانیاً حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین اورتبع تابعین رحمہم اللہ کی زبانی روایت اورنقل پر مبنی ہے جس کی وجہ سے اس میں بیرونی چیزوں کے شامل ہوجانے کا امکان ہے اس لئے جوذریعہ علم یہ صفت رکھتا ہواس پر آنکھیں بند کرکے کس طرح اعتماد کیاجاسکتاہے۔
جہاں تک حدیث رسول اکرمﷺ کے اجتہادات سے عبارت ہونے کا دعویٰ ہے تویہ دعویٰ بے بنیاد اورباطل ہے کیونکہ حدیث،رسول اللہﷺ کا اجتہاد نہیں ،بلکہ سراسروحی الٰہی ہے، ارشاد ربانی ہے: ’’ہم ہی نے ’’الذکر‘‘ کو نازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘(الحجر9:)اس آیت مبارکہ میں’’الذکر‘‘سے مراد قرآن وحدیث دونوں ہیں اوردونوں منزل من اللہ ہیں جس پرلفظ’’نزّلنا ‘‘ دلالت کرتاہے، قرآن وحی متلوجلی ہے اورحدیث وحی غیرمتلوخفی ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں حدیث کے لئے اس مشترک لفظ’’الذکر‘‘کے علاوہ ایک سے زیادہ مقام پر ’’الحکمۃ‘‘ کا لفظ استعمال کیاہے اوراس کا ذکرالکتاب پرمعطوف کرکے کیاہے’’اوراللہ نے تیرے اوپرکتاب اورحکمت نازل کی اورتجھے ان باتوں کی تعلیم دی جوتونہ جانتاتھا‘‘(النساء:113) اورسورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کو مخاطب کرکے فرمایاہے:’’اے نبی کی بیویو!یادرکھواللہ کی آیات اورحکمت کی ان باتوں کو جوتمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں(34)
ان آیات مبارکہ میں الکتاب سے مراد قرآن اورالحکمۃ سے مراد رسول اللہﷺ کی حدیث ہے، چنانچہ امام شافعیؒ اپنی مشہورکتاب ’’الرسالہ‘‘میں فرماتے ہیں’’ان آیات میں حکمت سے مراد رسول اللہﷺ کی سنت ہے کیونکہ ان میں قرآن کے ذکرکے بعدالحکمۃ کاذکرآیا ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کواحسان کے طورپر ذکرفرمایاہے لہذا یہ جائز نہیں کہ ان میں حکمت سے سنت کے علاوہ کچھ اورمراد ہو‘‘۔(ص:۸۷۔۸۸)
یادرہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ پہلے امام المسلمین ہیں جومنکرین حدیث کے مقابلے میں نکلے اور امام احمدرحمہ اللہ نے ان کومجدد اسلام کالقب دیا اور بغدادمیں ان کوناصر الحدیث کا خطاب دیاگیا۔(سیراعلام النبلاء)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کی کتاب میں الحکمۃ کا استعمال2طرح ہواہے، تنہا اورالکتاب کے ساتھ ملاہوا(معطوف)، جہاں یہ لفظ تنہا آیا ہے وہاں اس کی تفسیرنبوت اورعلم قرآن سے کی گئی ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے اورجہاں یہ لفظ الکتاب کے ساتھ ملاہوا (معطوف ہوکر)آیا ہے وہاں اس سے مراد سنت ہی مشہور ومعروف ہے‘‘۔ (مدارج السالکین ص:۳۷۸۔۳۷۹ ج۲)
اہل قرآن اورمنکرین حدیث نے مذکورہ آیتوں میں الحکمۃ کو الکتاب کا مترادف قرار دیا ہے لیکن انھوں نے ایسا اس لئے کیاہے تاکہ قرآن سے حدیث کی’’حجیت‘‘ پراستدلال نہ کیاجاسکے ورنہ زبان وبیان کی روسے ان کی یہ تفسیر ناقابل التفات ہے کیونکہ حرف’’واؤ‘‘ کے ذریعہ مترادفات کو اس وقت جمع کیاجاتا ہے جبکہ وہ سب ہم معنی ہوں یا ایک جنس کے ہوں لیکن مذکورہ آیتوں میں’ الحکمۃ‘‘ ’الکتاب‘ کا ہم معنیٰ نہیں ہے اس لئے ’’واو‘‘کو تفسیری قراردے کر الحکمۃ کو الکتاب کا مترادف نہیں قراردیا جاسکتا، مزید یہ کہ یہ لفظ پورے قرآن پاک میں کہیں بھی کتاب کے معنی میں نہیں آیاہے لہذا مذکورہ آیتوں میں یہ لفظ الکتاب کامغایر اوراس سے مختلف ہے جیسا کہ’’حرف واؤ‘‘ کاتقاضاہے۔
اوپرکی وضاحت سے معلوم ہوا کہ ’’حدیث‘‘ منزل من اللہ ہے رسول اللہﷺ کے اجتہادی اقوال سے عبارت نہیں ہے اور اسی طرح حجت ہے جس طرح قرآن حجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اطاعت کو فرض قراردیاہے بلکہ رسول اللہﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قراردیاہے۔
جہاں تک زبانی روایت ہونے کی وجہ سے حدیث پرعدم اعتماد کی بات ہے اورجس کو بنیادبناکر منکرین ‘حدیث کے ذخیرے کومشکوک قراردینے کی سعی لاحاصل کررہے ہیں تواس کے بارے میں عرض ہے کہ قرآن پاک جس کو وہ قطعی الثبوت قراردیتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے تحریری شکل میں نازل نہیں فرمایا بلکہ اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے اپنے نبیﷺ پرنازل فرمایاہے اورنبیﷺ کی زبان مبارک سے سن کرہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کو اپنے سینوں میں محفوظ کیاتھا پھرقرآن پاک کے نزول اوراس کے جمع وتدوین کی ساری تفصیلات بھی ہمیں صحابہ کرام کی زبانی ہی معلوم ہوئی ہیں،اس تناظرمیں اگراللہ کے وہ نیک بندے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بالکل صحیح شکل میں اپنے سینوں میں محفوظ رکھنے پرقدرت رکھتے تھے توپھررسول اللہﷺ کے ارشادات مبارک کو یاد کرکے انہی الفاظ میں جن الفاظ میں وہ نبیﷺ سے سنتے تھے محفوظ رکھنے پرقدرت کیوں نہیں رکھتے تھے ؟جب کہ ان کو یہ معلوم تھاکہ جس طرح ان پراللہ کی اطاعت فرض ہے اسی طرح نبیﷺ کی اطاعت بھی فرض ہے اورجس طرح قرآن پاک میں کوئی تبدیلی کرنا اوراس میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی کرنا حرام اورموجب کفرہے اسی طرح حدیث میں بھی کوئی ردوبدل حرام اورموجب جہنم ہے۔
وحی متلو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مقام پرنبیﷺ کی حدیث کواپنی کتاب کی تفسیر قراردیاہے اورصریح لفظوں میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اکرمﷺ قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے، اس کے مبلغ اورمفسر اورامت کے معلم، مربی اورمزکی ہیں لہذا آپ ﷺ کے ارشادات واجب العمل اورآپ ﷺ کی ذات واجب التقلید ہے۔
قرآن پاک کی سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے جہاں رسول اللہﷺ کے تشریعی اختیارات کو واضح کردیاہے وہیں اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے ایسے اوصاف بیان فرمادئے ہیں جن کی روشنی میں ان کی مکمل اورتابناک تصویردیکھی جاسکتی ہے، یہ آیت دراصل اس دعاکا جواب ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ سیناکے پاس کی تھی ارشاد الٰہی ہے ’’جولوگ نبی امی کی پیروی کریں گے جس کاذکر وہ اپنے پاس تورات اورانجیل میں لکھا ہوا پائیں گے وہ انھیں نیکی کاحکم دے گا اوربدی سے روکے گا اوران کے لئے پاک اورعمدہ چیزیں حلال کرے گا اورناپاک اوربری چیزیں حرام کرے گا اوران پرسے وہ بوجھ اتارے گا جوان پرلداہوگا اوروہ بندشیں کھولے گا جن میں وہ جکڑے ہوئے ہوں گے، پس جولوگ اس پرایمان لائیں گے اوراس کی حمایت اور نصرت کریں گے اوراس روشنی کی پیروی کریں گے جواس کے ساتھ نازل کی جائے گی وہی فلاح پائیں گے‘‘۔(آیت:157)
چونکہ یہ آیت جیساکہ اوپرعرض کیا گیاہے موسیٰ علیہ السلام کی دعاکا جواب ہے اس لئے اس میں ہرفعل کاترجمہ’’استقبال‘‘ کے صیغے میں کیاگیا ہے اوراس میں اہل ایمان کی جوصفات بیان ہوئی ہیں وہ اگرچہ فعل ماضی میں ہیں مگرچونکہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ بات فرمائی تھی اس وقت یہ پاکباز جماعت موجود نہ تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعدظاہر ہونے والی تھی لہذا یہاں بھی فعل ماضی کے صیغوں کاترجمہ استقبال کے صیغوں میں کیاگیاہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں جس مقدس اور پاکبازجماعت کی تعریف اس کے وجودمیں آنے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان الفاظ میں کی تھی’’وہ اس نبی پرایمان لائیں گے اوراس کی حمایت اورنصرت کریں گے اوراس روشنی کی پیروی کریں گے جواس کے ساتھ نازل کی جائے گی وہی فلاح پائیں گے‘‘ کیا ان اعلیٰ اورپاکیزہ صفات سے متصف جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے نبیﷺ کی زبان مبارک سے اداہونے والے ارشادات، آپ ﷺ کے افعال اورآپ ﷺ کی سیرت پاک کے واقعات کواسی طرح اپنے سینوں میں محفوظ نہ کیاہوگاجس طرح انھوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اپنے سینوں میں محفوظ کیاتھا۔
صحابہ کرام کے بعدتابعین اورتبع تابعین اوران کے بعدکے ادوارمیں اگرچہ تمام راویانِ حدیث عدالت اورثقاہت کے اس درجہ پرفائز نہ تھے جس درجے پرصحابہ کرام فائز تھے لیکن محدثین کرام نے اپنی ذاتی محنت وتلاش سے ان راویانِ حدیث کاپتہ لگالیا جو زبردست اورحیرت ناک قوت حافظہ رکھنے کے ساتھ ساتھ حدیث رسول ﷺ کی روایت میں حددرجہ امانت دار اورمحتاط تھے، پھرمحدثین نے علم حدیث ایجاد کیا جس کے لئے ایسے قواعدوضوابط بنائے جن کی روشنی میں بے لاگ طریقے سے راویوں کی ثقاہت اورعدم ثقاہت اورحدیث کی صحت وسقم کومعلوم کیاجاسکتا ہے ،یہ ایسا علم ہے جس سے دنیا محدثین سے قبل واقف نہ تھی۔
***

No comments:

Post a Comment