Thursday, June 17, 2010

علامہ ازہری کا تبحرعلمی اورعلماء کی قدردانی apr-jul-2010

مولانا وصی اللہ عبدالحکیم مدنی
استاد کلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈانگر،نیپال
علامہ ازہری کا تبحرعلمی اورعلماء کی قدردانی
برصغیر ہندوپاک کے ممتاز عالم دین، عظیم مصنف، مشہور اسکالروبے باک صحافی،صاحب طرز ادیب اورمیرے استاد ومربی جناب حضرت العلام حافظ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن فیضی ثم ازہری مختصرعلالت کے بعدمورخہ ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ بروزجمعہ بوقت صبح تقریباً ۵؍بجے ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بلاشبہ مجھے اپنی اس سعادت مندی پرفخرحاصل ہے کہ اللہ رب العالمین نے مجھے جن اساطین علم وفن اورارباب فضل وکمال سے شرف تلمذ اختیارکرنے اوران کے چشمہ علم وآگہی سے سیرابی حاصل کرنے کا ذریں موقع نصیب فرمایا ہے ان مشائخ عظام میں جلیل القدر ،عظیم المرتبت، عبقری شخصیت کے حامل، نابغہ روزگار، صاحب قرطاس وقلم میرے ممدوح محترم علامہ ازہری صاحب(تغمداللہ برحمتہ) کا اسم گرامی سرفہرست ہے ،آپ اہل علم کے درمیان اپنے نام سے زیادہ اپنی نسبت’’ازہری‘‘ سے معروف تھے، جب بھی کسی مجلس میں ’’ازہری صاحب‘‘کہاجاتا تھا تواس سے صرف آپ ہی کی بے مثال شخصیت مراد ہوتی تھی، آپ تاحیات درس وتدریس، تصنیف وتالیف اورشعبۂ دعوت وتبلیغ سے منسلک رہے، زبان وقلم کے ذریعہ دشمنان اسلام اورباطل افکار ونظریات کے حاملین کے شکوک وشبہات کا دنداں شکن جواب سپردقلم کرتے ہوئے تشنگان علوم دینیہ کوکتاب وسنت کے چشمۂ صافی اورآب زُلال سے بہرہ ورکرتے رہے ہیں۔
آپ کی زندگی کے بیشمار گوشے ہیں جنھیں قلمبند کرنا مجھ جیسے بے بضاعت کے بس کی بات نہیں تاہم ایک شاگردکی حیثیت سے میںآپ کے گوناگوں اوصاف وخصائل میں سے بعض قابل رشک اورنمایاں خوبیوں کونوک قلم پرلانا چاہتاہوں جوکم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہیں، آئندہ سطورمیں جوکچھ میں نے لکھنے کی کوشش کی ہے وہ درحقیقت میرے قلبی احساسات وتاثرات اورمیرے ضمیرکی آواز ہے جس کے ہرلفظ سے تمام قارئین کا اتفاق ضروری نہیں۔
۱۴۰۸ھ ؁میں میں نے مادرعلمی جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر،نیپال سے سندفراغت حاصل کی، فراغت کے معاً بعد خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ نے فریضۂ تدریس انجام دینے کی پیش کش فرمائی لیکن مزیدعلمی تشنگی بجھانے اورسلسلہ تعلیم جاری رکھنے کی غرض سے ناظم محترم کی اس ذرہ نوازی پر معذرت کرلی اور۱۴۰۹ھ ؁میں جامعہ سلفیہ بنارس کے شعبہ ’’تخصص فی الحدیث‘‘میں داخلہ لینے کی خاطر جانب بنارس روانہ ہوگیا، تحریری اورتقریری امتحان کے بعددیرینہ خواب بآسانی مرحلہ تکمیل کوپہنچ گیا اورمطلوبہ جماعت میں داخلہ ہوگیا، داخلہ کی منظوری معلوم ہونے پر فرحت وانبساط میں ڈوب گیا اوریکایک ز باں پر یہ شعرآگیا ؂
مانگی تھی اک دعا جو قبول ہوگئی
جماعت کی مرکزی سلفی درسگاہ میں داخل ہونے اوروہاں کے ماہروکہنہ مشق اساتذہ کے علمی فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کی تڑپ عرصہ دراز سے سینے میں موجزن تھی بالآخر آج اللہ نے میری اس دلی خواہش کوبھی پوراہی کردیا جس پرمیں نے اللہ کاشکر اداکیا اورجامعہ کی عالیشان بلڈنگ اوروسیع وعریض چہار دیواری میں رہنے لگا،شہربنارس کا میرایہ پہلاسفر تھا اورممدوح محترم جناب ازہری صاحب سے پہلی ملاقات بھی،آپ کی علمی وجاہت وشخصیت کے بارے میں مستفیدین، محبین، معاصرین اور لائق شاگردوں کے زبانی جوکچھ سناتھا آپ کو انہی اوصاف وکمالات سے متصف پایا، نرم خوومنکسر المزاج تھے، اسلامی اصولوں پر کاربندتھے، جامعہ کے وضع کردہ آئین ودستور کی خودپابندی کرنے کے عادی، اساتذہ، طلبہ اوردیگر عمال وماتحتوں کوپابندکرانے کی سعی محمود کرتے تھے، چہرے پر علمی ہیبت وجلال کے آثار نمایاں تھے، جامعہ کے باوقار عہدۂ جلیلہ وکیل الجامعہ (ریکٹر) کے منصب پر فائز تھے، میری دانست کے مطابق بعض ذمہ داران جامعات اوراہم مناصب پربراجمان حضرات کی طرح کبھی بھی آپ نے اپنے عہدے کا غلط استعمال نہیں کیا بلکہ اپنی معتبر اورعلمی شخصیت کے ذریعہ اخلاص وللہیت کے ساتھ جامعہ سلفیہ کو عالم اسلام میں متعارف کرایا، شہرت بخشی، عمدہ نمائندگی کی اور اس کی ہمہ جہت تعلیمی وتعمیری اوردیگر منصوبوں کی تکمیل میں ہرطرح کی قربانیاں پیش کیں، ان کے اس اخلاص وقربانی کی کوئی قدرکرے یانہ کرے کبھی انھوں نے اس کی پروانہ کی۔
علامہ ازہری رحمہ اللہ کی علمی جامعیت اورتبحرعلمی کا اعتراف اختلاف آراء کے باجود اپنوں اوربیگانوں نے یکساں طورپرکیا ہے، آپ عالمی سطح کے معروف بلندپایہ کے عالم اورمقناطیسی شخصیت کے مالک تھے، آپ کم سخن تھے ،لیکن قلم میں دریا کی روانی تھی، آپ کا علم پختہ اورگہراتھا، سارے علوم وفنون پرگہری بصیرت کے حامل تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیک وقت تین مختلف عربی، اردو اور عربی زبان پر ایسی قدرت بخشی تھی کہ تینوں زبان میں علمی کام کرکے علماء سے داد تحسین حاصل کی ہے بقدرضرورت انگلش کی بھی معرفت تھی، درس نظامیہ کے ہرفن کی کتابوں کو عمدگی سے پڑھانا، زیردرس طلبہ کے اشکالات واستفسارکامعقول جواب دے کر ان کے دلوں کومطمئن کرنا، دقیق اورمبہم عبارتوں کی توضیح وتشریح اورمصنف کتاب کے معنی ومراد کی وضاحت کرنا مختلف ملکی اوربین الاقوامی سیمیناروں اورکانفرنسوں کی کرسی صدارت پر جلوہ افروزہونا ،علمی ریفریشر کورس میں شرکت کرکے علمی استعداد اورفکری قوتوں کامظاہرہ کرنا، دعوتی وتبلیغی اوراصلاحی سیمیناروں میں مختلف حساس موضوعات پربیش قیمت مقالات پیش کرنا، غیرمسلموں کی جانب سے منعقدپروگراموں میں شرکت کرکے اسلام کی نمائندگی کرنا ،درجنوں علمی کتابوں کی تصنیف وتالیف اور ’’بہجۃ المجالس لابن عبدالبر‘‘کی احادیث کی تخریج کرنا، قابل قدر اردووعربی کتابوں کی تعریب وترجمہ کرنا، بعض نفع بخش درسی کتابوں کی تلخیص اورمفید تعلیق سے آراستہ کرنا، عربی ماہنامہ ’’صوت الامۃ‘‘ (قدیم کانام ’’صوت الجامعہ) کے اجراء کے پہلے دن سے تاحیات ایڈیٹرکے منصب پر رہ کرفکر انگیز اور چشم کشا اداریہ زیب قرطاس کرنا، وقیع مضامین ومقالات کے ذریعہ ماہنامہ ’’محدث‘‘ کی صحافتی اقدارکو بلند کرنا،ملکی وغیرملکی عربی اردوجرائد ومجلات اورروزنامہ’’ اخبار‘‘میں حالات حاضرہ پربے لاگ تبصرہ کرنا اوردینی موضوعات پرخامہ فرسائی کرنا،حساس موضوعات واہم شخصیات پرجامعہ سلفیہ میں سمیناروں کا انعقاد کرنا، مسلک اہل حدیث کے خلاف قلمی وزبانی ریشہ دوانی کرنے والی تحریکات وشخصیات کے خلاف تیشہ زنی کرنا ،۱۹۹۲ء ؁ میں تاریخ ادب عربی پراپنی شاہکار تصنیف کے ذریعہ صدرجمہوریہ ہند ایوارڈ سے سرفراز ہونا ،جامعہ سلفیہ کے شعبہ تصنیف وتالیف کی مکمل سرپرستی ونگرانی کرتے ہوئے اس ادارہ سے شائع ہونے والی تمام علمی،فکری، دعوتی ،تحقیقی اوردرسی کتابوں پرمفید مقدمہ تحریرکرنا، کتاب کی اہمیت وافادیت اورمؤلف کی علمی شخصیت ونمایاں خصوصیات پر غیرجانبدارانہ اظہارخیال کرنا، عرض ناشر قلمبندکرنا ،جامعہ کی مجلس عاملہ ومنتظمہ کا متفقہ طورپریکے بعددیگرے’’ وکیل الجامعہ ‘‘اور’’ رئیس الجامعہ ‘‘کا باوقار عہدہ تفویض کرنا ،آپ کے علم کی وسعت، مختلف علوم وفنون کی معرفت، زبان وبیان پرمکمل قدرت رکھنے اورانتظامی لیاقت وصلاحیت سے مالامال ہونے پرغماز ہیں،اس کے اثبات میں کسی مثال اورکسی فردکی تائید وتصدیق کی قطعا حاجت نہیں گوبعض شپرہ چشم وآشوب چشم میں مبتلاانسان کوآپ کے علم کی گیرائی وگہرائی نظرنہ آئے تویہ اس کے آنکھ کا قصورہے آپ کی ذات ستودہ صفات شخصیت کی نہیں، عبارت فہمی اورعربی کو اردو میں اور اردوکوعربی زبان میں منتقل کرنے کا جوملکہ اللہ نے آپ کے اندرودیعت فرمائی تھی وہ آپ ہی کا حصہ تھا، ان کی مترجم کتابوں کی ورق گردانی سے اس بات کا احساس نہیں ہوتا ہے کہ یہ کتابیں کسی اور زبان میں لکھی گئی تھیں، زبان وبیان میں ادنی ثقالت اورجھول نہیں بلکہ سلاست وروانگی اس قدرہے کہ کتاب پڑھنے میں اکتاہٹ نہیں ہوتی ہے کیونکہ آپ تصنیف وتالیف اور تراجم کے عالمانہ اصول وآداب اورعلمی امانت کا بھرپورخیال رکھ کر یہ مقدس فریضہ انجام دیاہے۔
ہرمنصف وبابصیرت شخص جب بھی آپ کے مترجم کتابوں علی سبیل المثال سیرت کے موضوع پر علامہ قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری کی لازوال وبے مثال کتاب بزبان اردو، ’’رحمۃ للعالمین‘‘کا عربی ترجمہ، شیخ الحدیث علامہ محمداسماعیل سلفی، گجرانوالہ کی ’’تحریک آزادی فکر اورحضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی‘‘ کا عربی ترجمہ بنام’’حرکۃ الانطلاق الفکری وجہود الشاہ ولی اللہ فی التجدید‘‘اورعلامہ محمدجمال الدین قاسمی کی ’’اصلاح المساجد من البدع و العوائد‘‘ کااردوترجمہ دقیق نگاہ سے مطالعہ کرے گا تووہی مذکورہ تحریرکی تائید وتصدیق پرمجبور نظرآئے گا، کیونکہ یہی حق اورسچ ہے جس کے انکارکی کوئی گنجائش نہیں۔’’ھذا ھوالواقع ولیس لہ دافع‘‘۔
میں اپنے زمانہ طالب علمی کا ایک ذاتی واقعہ سپردقرطاس کررہا ہوں جس میں اگرایک طرف محترم ڈاکٹرصاحب کے کمال علم وفضل، وفورعلم وآگہی ،انشاء پردازی اورزبان وبیان پردست گاہ کامل کی جھلک نظرآرہی ہے تودوسری طرف علمی وانتظامی انہماک ومصروفیت کے باوجود آپ کا تشنگان علوم طالبان دینیہ کے تئیں شفقت ومحبت، اللہ جزائے خیردے میرے استاد نبیل فضیلۃ الشیخ ؍ڈاکٹر عبدالرحمن عبدالجبار مدنی،پریوائی ؍حفظہ اللہ مقیم حال سعودی عرب ریاض جوایک ممتاز اسکالر،محقق ومدقق اورکئی گراں قدر کتابوں کے مصنف ہیں، شعبہ تخصص فی الحدیث کے قیام اورپروان چڑھانے میں آپ کا اہم کردارتھا، اس شعبہ میں داخل طلبہ کو محدث زماں علامہ محمدناصرالدین البانی، متکلم دوراں علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، نمونۂ سلف شیخ الحدیث علامہ محمداسماعیل سلفی گجرانولہ، اورشیخ الحدیث علامہ عبیداللہ مبارک پوری جیسی عالمی وعلمی شخصیات کی علمی ودینی خدمات سے روشناس کراتے اور اردووعربی زبان بولنے، سیکھنے اورلکھنے کے بارے میں ہمیشہ متفکر وکوشاں رہتے تھے اور ہم سب ساتھیوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھتے، شرم وعار دلاکر کچھ نہ کچھ ضرورلکھنے پر برانگیختہ کرتے تھے، چنانچہ ایک دن ہمارے ہم سبق ساتھیوں کو عربی کتاب’’التفسیر والمفسرون‘‘ کے بعض صفحات الگ الگ کرکے یہ حکم دیاکہ تم لوگ اس کا اردوترجمہ کرکے لاؤ مرتاکیا نہیں کرتا کے بمصداق استاد محترم کا حکم سرآنکھوں پر رکھ کر ہمارے تمام ساتھیوں نے اپنے اپنے مضمون کا ترجمہ شروع کردیا، میرے حصے میں مفسرقرآن امام بیضاوی کی سوانح حیات آئی، میں نے بھی طبع آزمائی کی اورحتی الوسع ترجمہ کرنے اورمصنف کتاب کے مافی الضمیر کی ترجمانی کی کوشش کی، ’’التفسیر والمفسرون ‘‘کے مؤلف نے امام بیضاوی کی سوانح عمری لکھتے وقت ان کے علمی مقام ومرتبہ کو بیان کرنے کے لئے ایک جملہ یوں استعمال کیاتھا ’’....انہ فحل من فحول العلماء...‘‘مصنف کے نزدیک ’’فحل‘‘کا حقیقی معنی ومفہوم اورمرادکیا تھا؟ میری سمجھ سے باہرتھا، لغت کا سہارا لیا تب بھی اس کا صحیح مفہوم واضح نہ ہوا، متفوق وباصلاحیت رفقاء واحباب سے رجوع کیا ان لوگوں نے بھی ایسا مزاحیہ ترجمہ کیاکہ میرے کمرے میں موجودتمام ساتھی ہنس پڑے اوران لوگوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ تم’’ازہری صاحب‘‘ کے پاس چلے جاؤ وہی اس لفظ کا حقیقی ومرادی مفہوم بتائیں گے مجھے اپنی کم علمی کا احساس اورشیخ ازہری کی علمی ہیبت وجلال کا خو ف ان کے آفس تک جانے میں باربارحائل رہا لیکن جائے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا، ڈرتے ڈرتے ان کی آفس تک گیا کچھ کہنے سے پہلے ہی آپ اپنے مخصوص لب ولہجہ میں گویا ہوئے’’اجی مولانا! کیابات ہے؟ میں نے جلدی سے اپنی بات ان کے سامنے رکھی فوراً مسکرائے اورہماری پریشانی کوبھی بھانپ لئے اورکہہ بیٹھے کہ تم اس لفظ کے لغوی معنی میں پریشان ہویہاں اس لفظ کا لغوی معنی مرادنہیں ہے، صاحب کتاب نے امام بیضاوی کی علمی قدر ومنزلت اورعبقریت کی طرف اشارہ کیاہے اس کا بامحاورہ ترجمہ نابغۂ روزگار اورعبقری علماء جیسے الفاظ سے کروتب اس کا مفہوم واضح ہوگا۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے صحابی جلیل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فضل وکمال کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: ’’لا تسئلونا وھذا الحبر فیکم‘‘(۱)عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ہم سے کوئی سوال نہ کرو، آپ کا یہ فرمان ہم سب کے لئے اسوہ ونمونہ کی حیثیت رکھتا ہے اوراس بات کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ہمیں اپنے اکابرین صلحاء، اتقیاء اور علمائے ربانین کا ادب واحترام اورتکریم وتعظیم کرنی چاہئے، یہی ہمارے سلف صالحین کا طرۂ امتیاز تھا، چنانچہ میرے استاد محترم، نازش جمعیت وجماعت علامہ ازہری رحمہ اللہ بھی اکابرین ملت بشمول متقدمین ،متاخرین، قابل قدر تلامذہ حتی کہ ان غیرجماعتی اورغیراسلامی وضع قطع رکھنے والے اہل علم کے قدردان تھے جو اسلام کے خلاف سورش ویلغاربپا کرنے والوں کے خلاف نبرد آزما ہوئے اوردین اسلام کی خدمت کو اپنا ملی، دینی اوراخلاقی فریضہ تصور کرتے تھے، درحقیقت آپ کی یہ علم دوستی اورعلماء کی قدرشناسی آپ کو وراثت میں ملی تھی، بیان کیاجاتا ہے کہ مردم خیز سرزمین مؤمیں منعقدایک آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے جب شیرپنجاب ،فاتح قادیان علامہ ثناء اللہ امرتسری مؤاسٹیشن پر اترے توآپ کے والد
گرامی جناب الحاج محمدیٰسین صاحب اورسابق امیر جماعت مولانامختاراحمد ندوی کے والدنے ہاتھ سے کھینچنے والے’’ٹھیلے‘‘ پربیٹھاکرآپ کو جلسہ گاہ پہنچایا تھا۔
ڈاکٹرموصوف رحمہ اللہ دورحاضر کے ان قصاص اورعلم وعمل سے عاری خطباء وعلماء کی طرح نہیں تھے جنھیں اپنی دروغ بیانی، قصہ گوئی اوربے سروپا حکایت بیانی اورآزادشاعری وتک بندی کے سامنے دوسرے لائق احترام اہل علم بونے نظرآتے ہیں، بلکہ آپ کے شب وروزکاعمل ’’انزلوالناس منازلھم‘‘پرتھا، آپ ہرایک کی عزت افزائی کرتے تھے، خوش اسلوبی اوراچھے انداز میں ائمہ دین کی خدمات کاذکرفرماتے تھے جسے میرے کانوں نے باربار سماعت کیا ہے، کسی کے تکریم کا مفہوم صرف یہ نہیں ہے کہ اسے عمدہ ڈش پرحاضرہونے کی والہانہ دعوت دی جائے، پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا جائے بلکہ تکریم کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ ایسے علماء جومرجع خلائق ہوں، زہد وورع، تقویٰ وطہارت میں اپنی مثال آپ ہوں، دوراندیش دینی وسیاسی بصیرت کے حامل ہوں ان کے محاسن بیکراں کواجاگرکیاجائے، ان کی انقلابی واصلاحی تحریروں
(۱)سنن ابوداؤد،کتاب النکاح،باب فی رضاعۃ الکبیر
اورکتابوں کو زندہ زبانوں میں منتقل کیاجائے اوران کے مفکرانہ ومدبرانہ صلاحیتوں سے عامۃ المسلمین کو روشناس کرایاجائے چنانچہ استادمحترم رحمہ اللہ نے عالم اسلام کی چیدہ وچنیدہ شخصیات مثل شیخ الاسلام ابن تیمیہ، علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب نجدی، علامہ قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری ،علامہ محمدجمال الدین قاسمی، شیخ الحدیث علامہ محمد اسماعیل سلفی،گجرانوالہ،ڈاکٹر عبدالحلیم عویس، مولانا محمدتقی امین اورمولانا مصلح الدین اعظمی کی کتابوں کا ترجمہ کرکے ان کے قلمی وفکری عظمتوں کو خراج عقیدت پیش کیاہے، اسی طرح سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے ضخیم فتاؤں کی تلخیص بنام ’’معارف ابن تیمیہ‘‘ اورتحریک شہیدین کے مساعی کو سلفی نقطہ نظرسے عربی زبان میں ہدیہ قارئین کرنے کی آپ کی دلی تڑپ تھی جوپوری نہ ہوسکی اورتکمیل ومنصہ شہور پر آنے سے پہلے ہی آپ سفرآخرت پر روانہ ہوگئے۔
اثناء درس علمائے اصولیین، محققین ومحدثین سے اپنی بے پناہ عقیدت ومحبت کا اظہارکرتے ہوئے ان کے علمی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے تھے ،جب آپ ’’دفاع عن السنۃ‘‘ کے موضوع پر اپنا قیمتی محاضرہ پیش کرتے تھے تو حدیث نبوی کی صیانت وحفاظت میں محدثین کرام کی شبانہ روزمساعئ جمیلہ کاذکرکرنے کے بعدعالم اسلام کے ان شخصیتوں کا ذکربڑے ادب واحترام کے ساتھ کرتے تھے جنھوں نے ذخیرۂ احادیث نبوی کی حفاظت وحمایت میں اپنے گہربارزبان وقلم کو استعمال کرکے باطل افکار ونظریات کے حاملین کے شکوک وشبہات کاپردہ چاک کیا ہے، موضوع سے متعلق عربی زبان کی اہم تصانیف جیسے العقدالجید،السنۃ قبل التدوین، السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی، تدوین السنۃ، الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والأعمال، اسی طرح سے اردوزبان میں قائد سلفیت، ماحئ شرک وبدعت شیخ الحدیث علامہ محمداسماعیل سلفی، گجرانوالہ کی ’’حجیت حدیث‘‘ اورجماعت اسلامی کے مؤسس مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ ہم لوگوں سے پڑھاتے تھے، دونوں بزرگوں کے شستہ وشگفتہ زبان وبیان کی چاشنی، سلاست وروانی اورنگارش تحریرکی جم کرمدح سرائی کرتے لیکن ’’لکل حصان کبوۃ ولکل عالم ہفوۃ‘‘کے تحت جماعت اسلامی کے بانی کی علمی فروگذاشت وتسامحات خصوصاً خبرواحد کی عدم حجیت، بعض احادیث کی تشکیک وتضحیک اورمحدثین کرام کے عظیم خدمات حدیث کی تخفیف ورکیک حملوں اورغیرمناسب جملوں کے استعمال پر عالمانہ وفاضلانہ نقدوتبصرہ فرماتے تھے۔
میرے عظیم مشفق استادمحترم آج ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ایک موقع پر ان کے گراں قدر اورپرسوز ناصحانہ کلمات کی شیریں آواز کی گونج ابھی محسوس کررہا ہوں جوآپ کے تواضع وانکساری اوراہل علم کی قدرشناسی پرشاہد ہے،میرے تخصص فی الحدیث کا پہلا سال تھا ،جامعہ کے مجلہ حائطیہ میں میں نے ایک مضمون لکھاتھا، عرصہ ہوامضمون کا عنوان یادنہیں البتہ اس وقت بس اتنایادہے کہ غیرشعوری طورپر مجھ جیسے طالب کے قلم سے جناب مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی شان میں بعض ایسے کلمات نوک قلم آگئے تھے جوغیرمناسب تھے، تنقیدی واصلاحی نظر یے سے آپ نے پورے مجلہ پرایک نظرڈالی اورمیں آپ کے گرفت میں آگیا، عمروجماعت کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں نصیحت کرتے ہوئے کہا ’’اجی مولانا! جس شخصیت کے بارے میں تم نے فلاں لفظ استعمال کیا ہے وہ مناسب اورصحیح نہیں ہے، ان کے علمی خدمات قابل شکر ولائق اعتناء ہیں، وہ مشہور صاحب زبان وقلم تھے ان کا علم وفضل مسلم ہے ،یہ اوربات ہے کہ وہ بھی ایک انسان تھے اورعام انسانوں کی طرح ان سے بھی کچھ شعوری وغیرشعوری اوراجتہادی طورپرغلطیاں سرزد ہوئی ہیں، اللہ اپنے دامن عفومیں جگہ دے گا،تمام کوتاہیوں اورخامیوں کے باوجود وہ ایک مستند ومعتبر دینی رہبرتھے،تحریر وتقریر میں عالمانہ وقار اورشان برقرار رکھو اورایسے کلمات استعمال کرنے سے گریز کروجس سے کسی کی شخصیت مجروح ہورہی ہو یا اس سے ناقدری کی بُوآرہی ہو‘‘۔
آج جب میں آپ کی اس کشادہ روئی، وسعت قلبی، اعلیٰ ظرفی اورنصیحت آموزکلمات کو سوچتاہوں تودل بھرآتاہے، آنکھوں میں آنسو امنڈآتے ہیں کہ آپ کے اندر آج کے بعض علماء کی طرح تعلی وخودروئی کی بیماری نہیں تھی بلکہ علمی تفوق وبرتری کے باوصف آپ دوسرے علماء کی عیب جوئی اورحوصلہ شکنی کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی اورعزت کرتے تھے اوران کے تمام تردینی خدمات کو انشراح صدرکے ساتھ دادتحسین پیش کرتے تھے۔
جامعہ سلفیہ کے طلبہ، اساتذہ اورمنتظمین جامعہ کی نظرمیں آپ باعزت تھے، قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اورآپ بھی ہرایک کا حسب مراتب احترام کرتے تھے ،میرے دورطالب علمی کا یہ دوسراواقعہ ہے ایک بار ہمارے ایک مقامی ہم سبق ساتھی اور استادمحترم فقیہ ملت، جماعت کے محقق ومصنف اورسابق مفتئ جامعہ جناب مولانامحمدرئیس ندوی رحمہ اللہ کے مابین غیرشرعی لباس زیب تن کرنے کے موضوع پرکچھ اس انداز میں گفتگوشروع ہوئی کہ معمولی وقفہ کے بعدشدید تلخی آگئی اورمولانا موصوف اپنی عمرومزاج کے تقاضے کے مطابق آپے سے باہرہوگئے اور کلاس روم سے نکل کرسیدھے محترم ازہری صاحب کے پاس چلے گئے اورہم لوگوں کی شکایت کردی، آپ جب اپنی گھنٹی میں تشریف لائے توایک بلیغ اور موثرکن اسلوب میں مختصر خطاب کیا جس میں اساتذہ کا ادب واحترام کرنے کے ساتھ ساتھ جامعہ کے اصول وضوابط اورنظام کو برقراررکھنے کی تاکید کرتے ہوئے ایک مثال دی تھی کہ ’’گوتم بدھ‘‘ کے عقیدت مندوں کو دیکھو وہ گروارنگ کالباس پہنے رہتے ہیں اورسرہمیشہ منڈائے رہتے ہیں ان کے متبعین کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا اورنہ ہی خفت محسوس کرتے ہیں جب کہ ہمارے جامعہ کے طلبہ اسلامی لباس پہننے میں عارمحسوس کرتے ہیں،جامعہ کا ایک نظام ہے اسے آپ برتنے کی کوشش کریں اورمحترم ندوی صاحب جماعت وجمعیت کی ایک مغتنم شخصیت ہے ان کی عزت کرو، اوران کے علم سے استفادہ کرو، انھیں ناراض مت کرو، آپ کا یہ اندازگفتگو علماء سے الفت ومحبت اوران کی عزت واحترام کی واضح مثال ہے۔
اسی طرح سے آپ نے اپنے بیش قیمت بحوث ومقالات اورفکرانگیز افتتاحیہ کلمات میں جماعت کے باکمال،حوصلہ مند اورقابل احترام شخصیات کی خدمات کاتذکرہ کرکے ان کے حوصلوں کو بلند کرتے تھے، ان کے خفتہ وخوابیدہ صلاحیتوں کوبیدارکرنے کے لئے مہمیز لگایاکرتے تھے، تفصیل کا یہ مقام نہیں بطورمثال جماعت کے بعض مشاہیر اصحاب قلم کاذکرجمیل کیاجارہا ہے جس کے تناظرمیں استادمحترم کاعلماء اسلام سے عمدہ مراسم وتعلقات کی گہرائی کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔
*مادرعلمی جامعہ سراج العلوم السلفیہ ،جھنڈانگر،نیپال کے سابق ناظم اعلیٰ ،مرکزی جمعیت اہل حدیث نیبال کے مؤسس وبانی اورخطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ اگرآپ کی مایہ نازادبیت، سیال قلم اورشرافت وسنجیدگی پرنازاں تھے تومیرے استادمحترم ان کی مشہورخطابت وصحافت پرفخرکرتے تھے اوران کے ہرحکم کو نہایت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول فرماتے اورقوم وملت کے لئے اپناعلمی تعاون پیش کرنے میں کبھی دریغ نہ کرتے تھے، تعطیل کلاں کے بعدجب بھی میں وطن عزیزسے بنارس جاتاتوآپ ان کی خیروعافیت اورعلمی وملی مصروفیت کے بارے میں ضرور استفسار فرماتے ۔
*مشرقی نیپال کے مختلف اضلاع ومقامات میں جب قادیانیوں کے گمراہ علماء ودعاۃ نے اپنے مشن کو فروغ دینے کے لئے اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا اورقریب تھاکہ بہت سارے سادہ لوح انسان ان کے اس دام تزویر میں پھنس جاتے توآپ کے شاگردگرامی قدربرادرمحترم جناب مولانا عبدالمنان سلفی؍حفظہ اللہ نے اس فتنہ کی سرکوبی اوران کے مزعومہ وخودساختہ دلائل کے تارپودکوبکھیرنے اورمنظرعام پر لانے کے لئے ’’السراج‘‘ کے ادارتی صفحات میں فتنۂ ارتداد کے عنوان سے ایک مضمون لکھا نیز اس فتنہ کوبے نقاب کرنے کے لئے بعدمیں آپ نے ایک کتاب ’’فتنۂ قادیانیت ‘‘کے نام سے مرتب کرکے شائع کی توآپ نے اپنے شاگرد کی اس کاوش کو استحسان کی نظرسے دیکھا اورعربی ماہنامہ’’صوت الامۃ‘‘کے اداریہ میں حوصلہ افزا کلمات کے ذریعہ اپنے بے پایاں مسرت کا اظہارکرتے ہوئے اپنے تلمیذرشید کے لئے مزیددعوتی ومسلکی خدمت کرنے کی اللہ سے دعاکی۔
*’’زادالخطیب‘‘ یہ ایک جامع اورمفصل خطبات جمعہ کا مجموعہ جودعاۃ ومبلغین اوراہل علم کے لئے بیش بہا علمی تحفہ ہے جسے جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے فاضل، سلفی فکرومنہج کے حامل ادارہ ’’جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی،کویت‘‘ کے فعال ومتحرک داعی ،دعاۃ کے مسؤل اورمیرے بزرگ دوست برادرمحترم ڈاکٹر حافظ محمداسحاق زاہدمدنی؍حفظہ اللہ مقیم حال کویت نے نہایت ہی عرق ریزی ودیدہ وری کے ساتھ مرتب کیاہے،آغاز کتاب میں برصغیر کے جماعت اہل حدیث کے نامور علماء کے تقریظات ہیں اسی ضمن میں میرے ممدوح محترم کا بھی تقریظ شامل ہے جس میں آپ نے کتاب کی نمایاں ومنفرد خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مؤلف محترم کی شبانہ روزکی محنت ومشقت، حکمت ودانائی ،بالغ نظری، اخلاص ونیک نیتی اوردیگر خوبیوں کا اعتراف کرکے ان کی عزت بخشی ہے۔
استاد محترم علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ نے اپنی حیات مستعار اس طرح سے گذاری ہے جس میں طلبہ،علماء،دعاۃ، مؤلفین ومصنفین اورمنتظمین سب کے لئے سامان درس عبرت موجودہے ہم سب کو ان کی زندگی اورطرززندگی سے عبرت حاصل کرناچاہئے ،اگرآپ علوم شریعت کے متلاشی ہیں اوراپنے دامن مراد کو دینی بصیرت وبصارت سے مالامال کرناچاہتے ہیں توآپ اپنے قیمتی اوقات کو یوں ہی ضائع نہ کریں بلکہ علم شرعی کے حصول میں ہرطرح کی ممکن کوشش کرنے کی عادت ڈالیں ،کتابوں کی خوشہ چینی کریں،اپنے منزل مقصود کو حاصل کرنے کے سلسلے میں ہمیشہ کوشاں رہیں،اگرآپ مسند تدریس پرفائز ہیں تواپنی مفوضہ ذمہ داری کاہمیشہ احساس رکھیں کیونکہ فریضۂ تدریس ایک امانت ہے جس کے بارے میں اللہ آپ سے بازپرس کرے گا، کتابوں کا مطالعہ ضرورکریں تاکہ اعتمادکے ساتھ پڑھا سکیں،زیردرس عزیزطلبہ کے تئیں بغض وعناد اوراخلاقی گراوٹ کے بجائے محبت کاپیکراوراچھے اخلاق کامظاہرہ کریں، اگرآپ کے طلبہ علمی،ادبی اورتحقیقی ذوق رکھتے ہوں اورآپ سے رہنمائی چاہتے ہوں توان پربیجانکتہ چینی کرنے اوران سے جلنے کے بجائے ان کی ہرطرح حوصلہ افزائی کیجئے، خلوص دل سے دعا دیجئے تاکہ آپ کوبھی اپنی دعاؤں میں یادرکھیں، اگرآپ منتظم یاکسی نوع کے ذمہ دارہیں توفرض شناسی کے ساتھ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھیں، اوربدکلامی کے بجائے حسن اخلاق سے پیش آئیں، اگرجامعہ کے ذمہ داران آپ پراعتماد کرتے ہیں توان کے حسن ظن کوٹھیس نہ پہونچائیں،اپنے عہدوں کی من مانی فیس وصول کرنے اورجامعہ کی مالی وسائل کی فراہمی کے بجائے اپنے جیب خاص کوگرم نہ کیجئے ،فضامیں اداروں کوقائم کرنے کے بجائے زمین پر قائم کرکے نونہالان ملت اسلامیہ کو زیورعلم وعرفاں سے آراستہ کریں، اگرآپ ادبی وتصنیفی ذوق کے حامل ہیں اوراپنے اندرمزید نکھار لانا چاہتے ہیں تومتقدمین ومتاخرین ادباء ومصنفین کی کتابوں کوزیرمطالعہ رکھیں اورحاسدوں کی حسد کی پرواکئے بغیراپنے مشن میں منہمک رہیں ،غرضیکہ آپ اپنی زندگی کو ایسے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں کہ مرنے کے بعد بھی آپ کے نام اورکام کویاد کیاجائے ۔
بارالٰہا!میرے استاد محترم کے تمام بشری لغزشوں کودرگذرفرماتے ہوئے جنت میں اعلیٰ مقام عطافرما اوران کے تمام پسماندگان ،احباب اورتلامذہ کو صبرجمیل کی توفیق مرحمت فرما۔(آمین)
***

No comments:

Post a Comment