Wednesday, June 16, 2010

ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ apr-jul 2010

مولاناشریف اللہ سلفیؔ
پرنسپل جامعہ عالیہ عربیہ،مؤناتھ بھنجن
ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ
سرزمین مؤبالخصوص محلہ ڈومن پورہ کو اپنے جن سپوتوں پربجا طورسے فخرہے ان میں ڈاکٹرحافظ مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ سرفہرست ہیں، جامعہ عالیہ عربیہ سے تعلیم کی ابتدا کی پھرفیض عام مؤ اور دارالحدیث سے کسب فیض کے بعد جامعہ ازہرمصرگئے ،وہاں سے کسب فیض کے بعدجب ہندوستان واپس آئے تو آپ نے جامعہ سلفیہ بنارس کا انتخاب کیا اوریہیں سے درس وتدریس کا آغاز کیا، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے آپ سے کتاب ’’البلاغۃ الواضحۃ‘‘ سبقاً سبقاً پڑھی ہے،آپ عبارت خوانی اورعبارت فہمی پرپوری توجہ صرف کرتے اورکہاکرتے’’اچھا پڑھنا آدھی تیاری ہے‘‘ اورچونکہ ترجمتین میں آپ ماہرتھے اس لئے پہلے لفظی ترجمہ اورپھربامحاورہ ترجمہ کرتے تھے، دوران مطالعہ اگرکہیں کوئی غلطی ہوجاتی تواس کی اصلاح کے بعدہی آگے بڑھتے اور کتاب میں موجود تمرینات کوبحث سے اس طرح جوڑدیتے کہ طلباء کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی، اس کا خاطر خواہ فائدہ یہ ہواکہ چنداسباق کے بعدہی کتاب بہت آسان معلوم ہونے لگی اورمباحث کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔
آپ کی حیات وخدمات پراہل قلم نے خوب لکھا ہے اورمزید تحریر وتحقیق کا دورچل رہا ہے اورچلنابھی چاہئے تاکہ اس عظیم شخصیت کی زندگی کا ایک ایک گوشہ سامنے آئے اورلوگ اس سے استفادہ کریں اوراپنی زندگی میں نافذ کریں، میں آپ کی زندگی کے تین واقعات بالاختصار بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں جومیرااپنا ذاتی مشاہدہ ہے۔
(۱) ۱۹۷۵ء ؁ کی شدید گرمی کا زمانہ تھا، بچھوا گرم ہواچل رہی تھی، مجھے معلوم ہواکہ ازہری صاحب رحمہ اللہ مع اہل وعیال اونرہوا ضلع بلرامپور تشریف لارہے ہیں، راستہ ٹرین ہی کا تھا اس لئے میں بڑھنی اسٹیشن پہونچ گیا (میں ان دنوں ’’دارالتوحید‘‘ مینا عیدگاہ ضلع سدھارتھ نگر سے منسلک تھا جوبڑھنی اسٹیشن سے تقریباً ۲۶ کلومیٹر دکھن اٹواتحصیل سے پورب واقع ہے) معلوم ہواکہ ڈاکٹر صاحب ویٹنگ روم میں تشریف فرماہیں، تھوڑی دیربعدآپ باہرتشریف لائے اورمجھے دیکھتے ہی بہت تعجب سے پوچھنے لگے آپ کیسے؟کیا آپ کومیرے یہاں آنے کا علم ہوگیاتھا؟ کیا آپ کا گھر بھی یہاں سے قریب ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا جی ہاں! مجھے آپ کی آمد کا علم ہوگیا تھا اورمیں آپ کو زحمت دوں گا کہ آپ میرے غریب خانہ تک تشریف لے چلیں، یہاں سے میرا گھرتقریباً ۲۶کلومیٹر ہے، میرے والد صاحب نے مجھے خاص طورسے اسی لئے بھیجا ہے، ڈاکٹرصاحب نے جواب دیا :اولامیں تومہمان ہوں،میزبان کی مرضی کے بغیر میں کہیں نہیں جاسکتا، ثانیاً میرا یہ پروگرام طے شدہ ہے اس میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں دکھائی پڑتی ہے بہرکیف بحث وتمحیص کے بعدمایوسی ہی میرا مقدر بنی۔
دوران گفتگو میں نے کہا :کہ ڈاکٹر صاحب’’اونرہوا‘‘ میں آپ کی تقریر کا بھی پروگرام ہے، ڈاکٹر صاحب فوراً گویا ہوئے، ٹھیک توہے ! میں تقریر کروں گا‘‘ یہ آپ ہی کے الفاظ ہیں اوراب تک مجھے یاد ہے چونکہ میں نے آپ کی عوامی تقریر نہیں سنی تھی اس لئے آپ کے جواب پرمجھے کچھ تعجب ہوا مگرآپ نے اسے یقین میں بدل دیا اورپھر میں آپ کی تقریرسننے کے لئے اونرہوا پہونچ گیا، آپ کی تقریر کس موضوع پرتھی؟ یہ تویادنہیں آرہا ہے البتہ لوگوں کو تقریر پسند آئی اورخوب تعریف کی ۔
میرے خیال سے آپ کا اس علاقہ کا یہ پہلا سفرتھا اورپہلی عوامی تقریر تھی اوراس کے اصل داعی حاجی عبدالودود صاحب اوران کے صاحبزادے مولانا عبدالصبور سلفی تھے جوڈاکٹر صاحب کے شاگردوں میں سے ہیں(اگرکسی کو آپ کی پہلی عوامی تقریر اس سے پہلے کی یاد ہو تومجھے مطلع کرنے میں زحمت کریں گے تاکہ میں اپنی اصلاح کرسکوں)
(۲) جامعہ سلفیہ میں آپ طلبہ میں ترجمتین اورعربی زبان وادب میں بات چیت کرنے کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے انجمن کے ہفتہ وارپروگرام میں ضرورشرکت کرتے اوروہاں طلبہ سے عربی میں خطاب کرتے اوردوران تقریر اخطاء کی اصلاح بھی عربی میں کرتے۔
اسی طرح بعد صلاۃ عشاء باذوق منتہی درجات کے طلبہ کواپنے کمرہ میں بلالیتے ،سامنے کبھی کوئی اخبار اردوکا رہتا اورکبھی کوئی عربی کا اورپھراس کی عبارت پڑھواکر اس کا ترجمہ کراتے، ایک طالب علم ترجمہ کرتا پھردوسرے ،تیسرے اورکئی ایک سے اس میں مزید بہتری اورحسن پیدا کرتے، اورآخرمیں مکمل اصلاح خودکرتے ،ابتداء میں آپ نے یہ سلسلہ صرف منتہی طلبہ ہی کے لئے رکھا تھا، مگربعدمیں ہرباذوق طالب علم شریک ہوتا اوراسی وجہ سے کافی طلبہ استفادہ کرنے جاتے تھے، یہ سلسلہ آپ کے علی گڈھ جانے سے قبل تک قائم رہا،علی گڈھ جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا اوردوبارہ جب آپ جامعہ سلفیہ بنارس واپس آئے تویہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکا۔
(۳) یہ حقیقت ہے کہ ہرذمہ دار ،عہدیدار، ادھیکاری بالخصوص عربی مدارس کے ذمہ داران کے کان بڑے لمبے ہوتے ہیں اوراپنے گرگوں کی ہربات پرآمنا وصدقنا کہہ کرفیصلہ کرلیتے ہیں، تحقیق وتفتیش کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اوراگرکبھی تحقیق کرنے کی مجبوری ہوگئی توپہلے سے ایک مفروضہ قائم کرکے اسی کے اردگرد ساری تحقیق ہوتی ہے، اس سے سرموانحراف باعث ننگ وعارسمجھتے ہیں ،اس وجہ سے مدارس میں جہاں کمزور پہلووالے اساتذہ ذمہ داران کی چاپلوسی اور’’ہاں میں ہاں ملانے‘‘میں لگے رہتے ہیں اوراپنا قداونچاکرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، وہیں دوسری طرف باصلاحیت اورخود داراساتذہ ذمہ داران کی نگاہ میں معتوب رہتے ہیں(الا ماشاء اللہ) لیکن ڈاکٹر صاحب ہرسنی ہوئی بات کو مان لینے پریقین نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنی حد تک تحقیق کرلینے کے بعدہی اس کا یقین یا انکار کرتے، میرے ساتھ تو آپ کا یہی برتاؤ رہا،سنئے:
جب درالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں چھاپہ پڑا تھا ان دنوں جامعہ سلفیہ میں کسی بھی متعارف یا اجنبی شخص کو رات گذارنے کی قطعاً اجازت نہیں تھی، مجھے جامعہ عالیہ عربیہ کے کچھ اہم ضروری کام سے جامعہ سلفیہ جاناپڑا، چونکہ یہ بات پہلے سے معلوم تھی کہ رات جامعہ سلفیہ میں گذارنے کی اجازت نہیں ہے اس لئے یہ سوچ کرگئے تھے کہ ضروری کاغذات مولانا محمد اجمل صاحب کے حوالہ کرکے رات کسی بھی ہوٹل میں گذارلیں گے اورپھر دن میں جاکرکام کرلیں گے اوراسی پروگرام پرعمل پیرابھی رہا، لیکن میرے کسی خیرخواہ نے ڈاکٹر صاحب سے میری خوب شکایت کی اوررات میں عدم قیام کی من گھڑت حکایات بیان کی (جیساکہ مجھے بعدمیں ڈاکٹرصاحب کی زبانی معلوم ہوا) اس کے کچھ دنوں بعدمؤہی میں ڈاکٹرصاحب سے ملاقات ہوئی،جب ہم دونو ں تنہا ہوئے توآپ نے بہت سنجیدگی سے میری شکایت کوسامنے رکھا اورمجھ سے استفسار کیا، چونکہ میں خالی الذہن تھا اس لئے بھونچکا رہ گیا، پھرمیں نے اپنی بات بتلائی توآپ نے میری تصدیق کی اوراس نمّام کی باتوں کو ردکرتے ہوئے کہا: دیکھو لوگ کس طرح دوآدمیوں کے مابین اختلاف اورنفرت پیداکرتے ہیں ،اللہ ان پررحم کرے۔
بظاہریہ توایک معمولی واقعہ ہے مگراسی سے آپ کے اونچے اخلاق کا پتہ چلتا ہے اوریہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ بلاتحقیق ہرکسی کی بات مان لینا آپ کی فطرت نہیں تھی، اب کہاں ہیں ایسے لوگ؟ جوصاحب معاملہ سے تحقیق کے بعدچاپلوسوں کی بات ردکرتے ہوں اورصاحب معاملہ کو سچ مانتے اوراس کی بات کی تصدیق کرتے ہوں، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔(آمین)
***

1 comment:

  1. जज़कल्लाहू खैरा. बहुत कीमती मक़ाला है. अजहरी साहब रहेमाहुल्लाह की जिंदगी से मुता'अल्लिक चंद अहम गोशे रौशनी में आए.आप ने १९७५ के हवाले से जो बात ज़िक्र की है उस के बारे में तो मुझे नहीं मालुम अलबत्ता जामिया सलाफिया में अपने कियाम के दौरान (मेरी फरागत १९९६ में है )मैं ने उन्हें बराबर निम्या वाली मस्जिद में खुतबा देते हुए पाया है.
    इसी तरह मक़ाले में एक नई चीज़ ये मालूम हुई की उन्हों ने अलबलागातुल वाजिहा का भी दरस दिया है.अब तक ये जानकारी नहीं थी.
    मक़ाला निगार पुराने फारिगीन में से हैं . इस लिए उनके अलीगढ जाने से पहले और बाद का फर्क उन्होंने तफसील से ज़िक्र किया है. काश वही तरीका बाद में भी जरी रह सकता जिसका ज़िक्र अलीगढ जाने से पहले किया गया है.
    डाक्टर साहब से हम लोगों ने भी अदब व इंशा का दरस लिया है. उस में भी उनका तरीके कार निराला था. उर्दू से अरबी की मशक के लिए खुद ही मश्हूर अरबी अखबारात के तराशे ले कर तशरीफ़ लाते और उन में वारिद सुर्ख़ियों का बामुहावरा उर्दू तर्जमा पुछते.
    अल्लाह मरहूम को करवट करवट जन्नत नसीब फरमाए.

    ReplyDelete