Sunday, June 20, 2010

ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کی خدمات کو خراج تحسین apr-jul 2010

عبدالمنان سلفیؔ
ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری
کی خدمات کو خراج تحسین
۲۰۰۹ء ؁ میں ملت وجماعت کو جن گراں قدراور عظیم علمی و دعوتی شخصیتوں کی وفات کا غم سہناپڑا ان میں مفکرجماعت استاذمحترم جناب ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ جیسی عبقری شخصیت کاسانحۂ وفات سب سے غم انگیز،دل فگاراور افسوس ناک رہا کہ آپ کے اٹھ جانے سے علم و ادب کی مجلسیں سونی ہوگئیں، دعوتی، تدریسی، تصنیفی اور صحافتی میدانوں میں زبردست خلا پیدا ہوگیا اورملت کو ناقابل تلافی خسارہ سے دوچار ہونا پڑا، اللہ تعالیٰ آپ کو غریق رحمت فرمائے اور آپ کی جملہ خدمات کو شرف قبول عطا فرماتے ہوئے آپ کے درجات بلند کرے، آمین۔
ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کی شخصیت بڑی ہمہ گیر اور ان کی خدمات بڑی متنوع اورہمہ جہت تھیں، علمی اورادبی دنیا میں ان کا نام بڑا معتبر اور محترم ماناجاتا تھا اوراہل علم کے دلوں میں ان کی بڑی قدرومنزلت تھی، تدریس وتربیت سے لے کر تصنیف وتالیف، ترجمہ وتحقیق ،صحافت وانشاء پردازی اورانتظام وانصرام تک موصوف نے جس میدان میں بھی قدم رکھا اپنی صلاحیت وقابلیت کالوہا تومنوایا ہی ، ہرمیدان میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی اورچالیس بیالیس سال کی عملی زندگی میں ان میدانوں میں ایسے نمایاں کارنامے انجام دئے جن کی مثال عصرحاضر کے علماء میں نایاب نہ سہی تو کمیاب ضرورہے، موصوف بیک وقت کہنہ مشق مدرس، مشفق مربی، منجھے ہوئے صحافی وقلم کار، اور تحقیقی وادبی ذوق سے سرشار اعلیٰ پایہ کے مصنف ومترجم تھے، یہ تمام خوبیاں ایک ساتھ کسی ایک شخص کے اندرمشکل سے جمع ہوتی ہیں، اورسچی بات تویہ ہے کہ انھیں اوصاف و اعمال نے آپ کو عبقری اور نابغۂ روزگار بنادیا۔
جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر(نیپال) کا تعلق شہربنارس، اہالیان بنارس،جامعہ سلفیہ، ذمہ داران جامعہ اور اساتذۂ جامعہ خصوصاً ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ سے بڑا قدیم اورگہرا رہاہے، جامعہ سراج العلوم کے سابق ناظم خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اللہ نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں اپنے زمانۂ طالب علمی کے چند برس گذارکر مولانا محمد منیرخاں بنارسی اور قاری احمد سعید بنارسی رحمہما اللہ جیسے یگانۂ روزگار علماء و فضلاء سے کسب فیض کیاہے اور دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فراغت کے بعدکئی سال تک اپنے مادر علمی جامعہ رحمانیہ میں تدریسی خدمت انجام دیتے ہوئے ملا حسن،شرح تہذیب اور دیوان متنبی جیسی اہم اور فنی کتابوں کا درس دیا ہے، اس کا تذکرہ علامہ جھنڈانگری نے اپنے ایک خود نوشت میں کیا ہے اور اپنے نامور تلامذہ میں مولانا محمد یحیٰ ،مولانا محمد الیاس ،مولانا محمد موسی،مولانا عبید الرحمن اور مولانا عبد العظیم کے اسماء بہ طور خاص ذکرفرمائے ہیں،(ماہنامہ السراج ،خطیب الاسلام نمبر ص ۴۱۱)
اسی طرح یہ تاریخی حقیقت بھی ہے کہ علامہ جھنڈانگری رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ کے محرک اول اور اس کے مؤسسین میں سے تھے،اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ آپ ہی نے نوگڈھ کانفرنس منعقدہ ۱۹۶۱ء میں اپنے خطبۂ استقبالیہ کے اندر اس کی پرزور تحریک فرمائی تھی اور جماعت کو ایک مرکزی تعلیمی ادارہ کے قیام کی ضرورت کا احساس دلایا تھا، چنانچہ آپ نے اپنے تحریری استقبالیہ خطبہ میں لکھا تھاکہ:
’’ ایک ایسا مرکزی دارالعلوم بھی قائم کیا جانا ضروری ہے جس کے تعلیم یافتہ افاضل ملک و ملت کی خدمت اور اس کی بہترین رہنمائی کی اہلیت و صلاحیت سے بہرہ ور ہوں‘‘
پھر اس کی افادیت و اہمیت اور ضرورت کا ذکر کرتے آپ نے آگے مزید لکھا کہ:
’’اس لئے ایک ایسے مرکزی دارالعلوم کی ضرورت ہے جہاں کی تعلیم و تربیت سے طلبہ مزید اختصاص و امتیاز اور ایسے اوصاف حاصل کریں کہ ملک و ملت کی خدمت و رہنمائی کے قابل بن سکیں، صدر محترم سے گذارش ہے کہ ایسے دارالعلوم کے قیام کے مسئلہ پر ہر ممکن توجہ دے کر اس کے لئے اقدام فرمائیں‘‘ ۔
اس حوالہ سے خطیب الاسلام رحمہ اللہ نے اپنے ایک تحریری انٹرویو میں فرمایاکہ:
’’ میری اس گذارش کایہ اثرہوا کہ دوسرے دن نوگڈھ کانفرنس ہی میں جو میٹنگ ہوئی اس میں فوری طور پر ایک مرکزی درسگاہ کے قیام کی منظوری متفقہ طور پر ہو گئی‘‘ ( ماہنامہ السراج خطیب الاسلام نمبر ص ۴۳۹)
جامعہ سلفیہ بنارس کے موجودہ ناظم مولانا عبد اللہ سعود سلفی نے خطیب الاسلام کی وفات پربھیجے گئے اپنے تعزیتی خط میں اس حقیقت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے اور مولانا جھنڈانگری کے جامعہ سلفیہ سے اس تعلق کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’مولانا کا اہل بنارس سے بہت پرانا ربط تھا، وہ جامعہ سلفیہ کے مؤسسین میں سے تھے، نوگڈھ کے اجلاس میں آپ نے خطبۂ استقبالیہ میں جس طرح سے ایک مرکزی ادارہ کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے وہ آپ کے جماعتی درد اور اصلاح و ترقی کی تڑپ کی غماز ہے، مولانا کاجامعہ سے دلی لگاؤ تھا اور وہ اسے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے‘‘ ( ماہنامہ السراج خطیب الاسلام نمبر ص ۶۱۵)
جامعہ سلفیہ بنارس کے وکیل الجامعہ اور صدر جناب ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ نے بھی خطیب الاسلام پر لکھے گئے اپنے گراں قدر مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے بلکہ ’’مرکزی دارالعلوم سے خطیب الاسلام کا تعلق‘‘کے عنوان سے اس ربط و تعلق کو اجاگر فرمایا ہے، موصوف جامعہ سلفیہ بنارس کے قیام میں نوگڈھ کانفرنس اور اس کے خطبۂ استقبالیہ کے کردارکا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہیں سے عملی طور پر مرکزی درس گاہ کے وجود و ترقی میں آپ کی حصہ داری شروع ہوئی اور حیات مستعار کے اختتام تک یہ سلسلہ جاری رہا، اہل حدیث کانفرنس کے اپنے اجتماعات اور قیام کے بعد جامعہ سلفیہ کے اجتماعات میں بالالتزام آپ کی شرکت ہوتی تھی اور آپ کی گفتگو اور مشوروں سے یہ اجتماعات کامیاب ہوتے تھے، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی دارالعلوم سے تعلقات مضبوط تر ہوتے گئے، حتی کہ صحت کی بعض مجبوریوں کے باوجود آپ دارالعلوم کے اجتماعات میں برابر شریک ہوئے اور ہر موقع پر ادارہ کی بہی خواہی کو مقدم رکھا، بیرون ملک آپ سے ملاقات کے مواقع حاصل رہے، وہاں بھی آپ نے ہمیشہ ادارہ (جامعہ سلفیہ)کے مفاد کو مقدم رکھا، مجلس منتظمہ کی میٹنگ میں شرکت کے لئے یا اپنی کسی ضرورت کے لئے بنارس تشریف لاتے تو دارالعلوم میں اساتذہ و طلبہ کو خطاب فرماتے اور نام لے لے کر لوگوں کی تعریف کرتے اور طلبہ کو استفادہ کی تلقین کرتے، یہاں سے شائع ہونے والے اردو مجلہ کو آپ کا قلمی تعاون برابر حاصل رہا اور بعض بے حد اہم مضامین بھی آپ نے پرچہ کو مرحمت فرمائے‘‘ ( ماہنامہ السراج خطیب الاسلام نمبر ص ۳۷)
جامعہ سلفیہ کے قیام کے فیصلہ کے بعداس کی تعمیر وترقی میں بھی مولانا جھنڈانگری نے زبردست عملی جدوجہد فرمائی ہے اوربجٹ کی فراہمی کے سلسلہ میں کئی دورے کئے ہیں،چنانچہ مولانا نے اپنے تحریری انٹرویو میں خود لکھا ہے کہ:
’’میں نے اور مولانا عبد الجلیل رحمانی نے جو پانچ ہزار(۱۹۶۳ء میں یہ ایک خطیر رقم تصور کی جاتی تھی) دینے کا عہد کیا تھا اپنے وقت پر پورا کردیا تھا،سخت گرمیوں میں ہم لوگ رکشہ پر نکلتے تھے اور جہاں کہیں سڑک پر نل مل جاتا رکشے سے اتر کر پانی پیتے اور پھر آگے بڑھ جاتے ، ایسے ہی سفر کرتے رہے، کئی روز سفر کر کے ہم لوگوں نے پانچ ہزار کی رقم اکٹھا کی اور ناظم جامعہ کے پاس بھیج دیا، اس کے علاوہ کئی مقامات پر مولانا عبد الوحید صاحب ناظم مرکزی دارالعلوم کے ساتھ چندہ کے لئے میں نکلا، جہاں ہم لوگ پہنچتے وہاں تقریر کا پروگرام ہوتا، تقریر کے اختتام پر میں چندہ کی تحریک کرتا اور مولانا عبد الوحید صاحب ناظم جامعہ چندہ کا استقبال کرتے، الحمد للہ اسی وقت دارالعلوم کے لئے اچھا خاصا چندہ جمع ہوگیا تھا‘‘(ماہنامہ السراج خطیب الاسلام نمبر ۴۳۹)۔
جامعہ سلفیہ کے قیام کے بعددسیوں برس تک خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری رحمہ اللہ جامعہ کی مجلس شوریٰ کے ممبربھی رہے، اوراس کی میٹنگوں میں پوری پابندی کے ساتھ شریک ہوتے رہے، ان تمام حوالوں سے ان کا بنارس آنا جاناکثرت سے ہوتاتھا، رؤساء مدن پورہ بھی آپ کی بڑی قدرکرتے تھے، ناظم جامعہ مولاناعبدالوحید سلفی، الحاج محمدصدیق، مولانا محمدیحی بنارسی ،مولانامحمدزبیراورمولانا عبدالقدوس نسیمؔ بنارسی رحمہم اللہ جیسے مخلص اورذمہ دارقسم کے لوگ خصوصاً مولاناجھنڈانگری کی بیحد توقیر وتکریم فرماتے تھے۔
۱۹۷۷ء ؁میں خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ جب رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی مجلس تأسیسی کے رکن منتخب ہوئے اورعرب دنیا سے آپ کا رابطہ مستحکم ہواتواپنے مضامین ،رپورٹس و تقاریر ا ور خطوط ورسائل کی تعریب کے لئے آپ نے ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ سے مددلی، مولاناجھنڈانگری باوجویکہ مختلف علوم وفنون کے ماہر تھے اوراردومیں ان کا قلم بڑا سیال تھا تاہم خاص ماحول اور مشق ومزاولت کے فقدان کے سبب فصیح وبلیغ عربی لکھنے پر قادر نہ تھے، اس لئے جب انھیں کوئی اہم خط لکھنا ہوتا یا کسی خاص موضوع پرانھیں تقریر ورپورٹ پیش کرنی ہوتی تواس کی تعریب کے لئے خودجامعہ سلفیہ تشریف لے جاتے اورڈاکٹر ازہری صاحب کی خدمت میں اپنا مدعا پیش فرماتے، ازہری صاحب خطیب الاسلام کے بڑے قدرداں تھے اوران کا غایت درجہ احترام واکرام فرماتے، اپنے ضروری کاموں کو چھوڑکر خطیب الاسلام کے خطوط ورسائل اور دیگرچیزوں کی خود تعریب کرتے اور پھرانھیں اپنے ہاتھ سے ٹائپ کرتے یا کمپوز کراتے، تعاون باہمی کا یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا، کم ازکم ۱۹۸۲ء ؁ تک تواس کا مشاہدہ میں نے خود کیاہے۔
جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال کے درمیان اس گہرے ربط و تعلق کا نتیجہ تھا کہ جب جامعہ سلفیہ بنارس کے روح رواں اور صدر جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی وفات کا سانحہ پیش آیا اوراس کی خبرجامعہ میں پہونچی توسراج العلوم نے اسے اپنا غم تصور کیا اور یہاں کے درودیوار پر سوگواری کے اثرات ظاہر ہوگئے، ناظم جامعہ مولاناشمیم احمد ندوی حفظہ اللہ قطرکے سفرپر روانہ ہونے کے لئے لکھنؤ پہونچ چکے تھے اور راقم خود سفر حج کے سلسلہ میں لکھنؤمیں موجود تھا،جنازہ میں شرکت نہ کرپانے پر ہم دونوں ہی دل مسوس کے رہ گئے ،تاہم ناظم محترم نے بذریعہ موبائل فون اساتذۂ جامعہ کو جنازہ میں شرکت کی ہدایت فرمائی اوراس کے لئے گاڑی کا انتظام کیا اوراساتذہ کی ایک بڑی تعداد نے نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی، اورسفر سے واپسی کے بعد نومبر ۲۰۰۹ء ؁ کے شمارہ میں ناظم جامعہ ومدیرمسؤل ماہنامہ ’’السراج‘‘ مولانا شمیم احمدندوی نے ایک تعزیتی مضمون لکھ کرازہری صاحب کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اورآپ کی علمی ودعوتی خدمات کو سراہا۔
ہند و نیپال کے ان دونوں بڑے جامعات کے مابین اس گہرے ربط و تعلق کی بنیاد پر اور نئی نسل کوڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کی قدآور،نابغۂ روزگارشخصیت سے واقف کرانے اورآپ کی ہمہ جہت علمی، ادبی، تعلیمی،تصنیفی، دعوتی و صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ماہنامہ’’السراج‘‘ نے ایک خصوصی نمبر شائع کرنے کا فیصلہ کیااور ناظم جامعہ کے مشورہ سے بہ عجلت ایک خاکہ بنایاگیا اورمحدود پیمانہ پرعلاقہ اورآس پاس کے بعض اہل قلم حضرات کوازہری صاحب کی خدمات کے کسی اہم گوشہ پر لکھنے کی زحمت دی گئی، ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے بعض احباب اوربزرگوں نے ہماری درخواست کوشرف قبول بخشا اوراپنے گراں قدرمضامین سے ہمیں نوازکر ہمارا حوصلہ بڑھایا، ہم ان کے شکرگذار ہیں نیز جنھوں نے خاموشی اختیارکی یا معذرت کرلی ہم انھیں معذورتصورکرتے ہیں۔
میرے بعض دعوتی اسفار اور تدریسی،دعوتی و دفتری مصروفیات کے باوجود خصوصی اشاعت کے لئے مضامین کی کمپوزنگ مارچ کے اوائل میں مکمل ہوچکی تھی، اورارادہ تھا کہ مارچ ، اپریل اور مئی کے مشترکہ شمارہ کو خصوصی اشاعت کے طورپرنذر قارئین کردیاجائے گا،مگر بعض وجوہات سے ایسا نہ ہوسکا، اورایک ماہ کی مزید تاخیر ہوگئی تاہم اس کا فائدہ یہ ہوا کہ چند قیمتی مضامین ہمیں مزید دستیاب ہوگئے۔
خصوصی اشاعت کو منظر عام لانے کے لئے جب کہ ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں اور ناظم جامعہ و مدیر مسؤل ماہنامہ السراج مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ اس کے لئے اپنا گراں قدر اداریہ لکھنے کا ذہن بناچکے تھے کہ اچانک عارضۂ قلب میں مبتلا ہونے کے سبب موصوف کی طبیعت ناساز ہوگئی اور چیک اَپ و علاج کے لئے آپ کو ہفتہ عشرہ لکھنؤ میں قیام کرنا پڑا،پھر جامعہ واپس تشریف لانے کے بعد بھی معالج کے مشورہ کے مطابق کچھ دنوں کے لئے آپ کو اپنی علمی و دعوتی سرگرمیاں موقوف کرنا پڑیں ،اس طرح ہمارے باذوق قارئین کرام آپ کے گراں قدر ادارتی مضمون سے محروم رہ گئے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل خاص سے موصوف کوشفاء کاملہ وعاجلہ سے نوازے اورصحت وعافیت کے ساتھ دیرتک اپنے دین کی خدمت کی توفیق بخشے۔(آمین)
آخر میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ترتیب مضامین کے سلسلہ میں پہلے یہ بات ذہن میں تھی کہ استاد محترم کی حیات،اخلاقیات اور خدمات وغیرہ عناوین کے تحت مضامین ترتیب دئے جائیں مگر ایسا اس لئے نہ ہوسکا کہ ہمیں موصول ہونے والے مضامین میں اکثر تاثراتی تھے، گو کہ بعض اہل قلم حضرات نے آپ کی علمی خدمات کو اجاگر کرنے کوشش کی ہے اور آپ کی بعض کتابوں اور ترجموں کے تعارف پر مشتمل مضامین قلم بند فرمائے ہیں،لیکن بد قسمتی سے آپ کے مکمل سوانحی خاکہ پر ہمیں کوئی مضمون نہ مل سکا، میں آپ کے اخلاقیات کے سلسلہ میں ایک مضمون لکھ چکا تھا مگر اس کمی کی تلافی کے لئے موصوف کی حیات و خدمات کے حوالہ سے ایک اورمضمون مرتب کرنا پڑا جس میں آپ کی بعض اہم خدمات کی جانب صرف اشارہ ہی ہوسکا ہے، باقی تاثراتی قسم کے مضامین میں اہل قلم حضرات نے اپنے مشاہدات اور ذاتی تاثرات کی روشنی میں ازہری صاحب کے اخلاقی پہلؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، اس طرح اس خصوصی اشاعت میں ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ جیسی ہمہ جہت شخصیت کی زندگی اور خدمات کے چند ہی گوشے نمایاں کئے جاسکے ہیں اور استطاعت بھر آں رحمہ اللہ کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کوشش میں ہم کس قدر کامیاب ہیں اس کا فیصلہ باذوق قارئین فرمائیں گے،تاہم اہل نظر حضرات سے یہ گذارش ہے کہ اپنے گراں قدر تاثرات اور خیالات سے ضرور آگاہ فرمائیں اور اگر کوئی علمی یا تاریخی فروگذاشت انھیں نظر آئے تو اس سے ہمیں باخبر کریں، اللہ تعالی جزاء خیر عطا فرمائے گا۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ استاد محترم کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی بشری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرے اور ان کی جملہ خدمات کو قبول کرتے ہوئے آپ کے درجات بلند فرمائے اور ان کے علمی و دعوتی کاموں کو صدقۂ جاریہ اور ذخیرۂ آخرت بنائے اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش برساتا رہے، اللہم اغفر لہ و ارحمہ و عافہ و اعف عنہ و أکرم نزلہ و وسّع مدخلہ و أدخلہ الفردوس الأعلیٰ۔(آمین)

No comments:

Post a Comment