Wednesday, June 2, 2010

امام ابن بازؒ اورامام البانیؒ کے مابین ہم آہنگ ومشترک پہلو-March 2010

تحریر:عبداللطیف العثمان
ترجمہ: راشدحسن فضل حق مبارکپوریؔ

امام ابن بازؒ اورامام البانیؒ کے مابین ہم آہنگ ومشترک پہلو


امام ابن باز اور امام محمد ناصرالدین البانی رحمہما اللہ دونوں ہی یکتائے روزگار ،عالی ہمت اورغیرمعمولی طورپر سرگرم عمل عالم تھے، اسلامی عقیدے کے حوالے سے ان دونوں کی خدمات عظیم الشان ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں خیروبھلائی کاوافرحصہ عطافرمایاتھا، ان دونوں کی بدولت اسلام اورمسلمانوں کو بے پناہ فائدہ حاصل ہوا، دونوں اماموں کے مابین قول وعمل میں یکسانیت اورعادات واطوارمیں ہم آہنگی تھی، ان مشترک خصائل وخصائص میں سے ایک چیز یہ تھی کہ انھوں نے کتاب اللہ ،سنت رسول اللہﷺ اور منہج سلف صالحین کے پرچم کوبلند کیا، نیز صحیح حدیثوں کو ضعیف وموضوع روایات سے الگ کرنے، بالمشافہ گفتگو اور تحریروں کے ذریعہ علمی سخاوت وفیاضی، علمی وفنی خطوط، پیغامات اور کیسٹوں کے سرمایہ سے شریعت مطہرہ کے لئے انتھک جدوجہد اورپیہم کوششیں کیں، اسی طرح سے مخالفین ’’خواہ قریب ہوں یادور‘‘ کے سامنے ہرچیز سے بے پرواہ ہوکرحق پیش کرنے میں وہ دونوں ہم مزاج تھے، چنانچہ علامہ عبدالعزیز بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وإنی بحمد اللہ منذ عرفت الحق فی شبابی وأنا ادعوإلیہ وأصبر علی الأذی فی ذالک، ولا احابی فی ذالک أحداً، ولا اداھن فی ذالک أحداً،أقول الحق وأصبرعلی الأذی، فان قبل فالحمدللہ وإن لم یقبل فالحمدللہ‘‘
ترجمہ: اللہ کا شکرواحسان اوراس کا میرے اوپر فضل وکرم ہے کہ جب سے میں نے حق کو پہچانا میں اسی کی طرف دعوت دیتاہوں اوراس راہ میں درپیش مشکلات پر صبرواستقامت اختیارکرتاہوں، اس سلسلے میں کسی جانبداری سے ہرگزکام نہیں لیتا اورنہ ہی مداہنت کرتا ہوں، حق کہتاہوں اورمصائب میں الجھ کرصبروثبات کادامن نہیں چھوڑتا ،میری دعوت خواہ مقبول ہویا نہ ہو، ہرحال میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرتاہوں۔
اسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ نے جب کہ ان کے خلاف مخالفین نے چالیں چلیں، تویوں فرمایا:’’لقد کان لھذا کلہ آثار عکسیۃ لما أرادوہ، إذ ضاعف من تصمیمی علی العمل فی خدمۃ الدعوۃ حتی یقضی اللہ بأمرہٖ‘‘
ترجمہ: مخالفین جوچالیں میرے ساتھ چلناچاہتے ہیں ،میرے اوپراس کا الٹااثرپڑتا ہے، کہ دعوت حق کی خدمت میں میراعزم دوچند اور عمل میں مزید پختگی پیداہوجاتی ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے معاملے کا فیصلہ فرمادے۔
اسی طرح ان دونو ں میں ایک اشتراک یہ بھی تھا کہ دونو ں باہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے شیخ ابن باز کے پاس خط لکھا کہ بینکوں میں جو رقم سودکی شکل میں بڑھ جاتی ہے( اسے نکالا جاسکتا ہے یانہیں)اس کاحکم کیاہے؟ علامہ البانی ؒ کا خیال تھا کہ ان رقموں کوکھانے،پینے اورپوشاک کے ماسوا دیگر رفاہ عام کے مصارف میں خرچ کیاجاسکتاہے ،مثلاً تیل وغیرہ سے آتش زدہ مکانات ودیگر چیزوں میں قیمت اداکی جاسکتی ہے،مزید راستے ،بیت الخلاء اورغسل خانے جیسے مقامات کی مرمت پربھی صرف کیاجاسکتا ہے، چنانچہ امام ابن باز رحمہ اللہ نے جوابی خط میں علامہ البانی کی موافقت وتائید کی، اسی طرح سے شیخ ابن بازؒ نے بھی علامہ البانی کے پاس ایک مرتبہ خط لکھا، دراصل اس کے ذریعہ ایک ’’مقالے‘‘کے سلسلے میں ضروری معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے، جس کے مقالہ نگارکا خیال تھاکہ ’’مسنداحمد‘‘ کی نسبت امام احمد بن حنبل کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔
دونوں کی فکری یکسانیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں بہت زیادہ متواضع وخاکسارتھے، اوراپنی مدح سرائی وثناخوانی کو سخت ناپسند کرتے تھے، یہاں صرف ایک مثال دیناکافی ہوگا، ایک مرتبہ کسی اہل علم نے اپنے قصیدے میں امام ابن بازؒ کی تعریف وستائش کی، ان کو زہد میں ابراہیم بن ادہم ،جودوسخا میں حاتم طائی سے بھی بلند مقام پرپہونچا دیا اورقضا وفیصلہ میں قاضی شریح کاہم مثل قراردیا، چنانچہ امام ابن بازؒ نے مجلہ کو خطاب کرتے ہوئے لکھا اورانھوں نے اس خطاب میں ذکرکیا کہ اس قصیدے نے ان کی طبیعت میں تکدر پیداکردیا ہے،اس قصیدے کی رضامندی کے سلسلے میں وہ برأت کااظہارکرتے ہیں اور معاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں، اوریہ چیز ان کو بہت ناگوار گذری اورسخت کبیدہ خاطر ہوئے، اوریہی معاملہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا تھا کہ جب بھی ان کے لئے مدحیہ کلمات کہے جاتے توخود وہ اپنے آپ پرملامت کرتے،پھرحضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی مشہور اثرذکرکرتے’’أللھُمّ لاتواخذنی بمایقولون‘‘اے اللہ جوکچھ مجھے یہ لوگ کہتے ہیں اس پرتومیرا مواخذہ نہ کرنا،اور کبھی ایسا بھی ہوتاکہ مدح وستائش کی وجہ سے روپڑتے۔
اسی طرح ایک ہم آہنگی یہ بھی تھی کہ ان دونوں کو عالمی فیصل ایوارڈ سے نوازاگیا، اورایک اشتراک یہ بھی تھا کہ دونوں میں بڑی گہری محبت واخوت تھی، دونوں ایک دوسرے کے غم وحزن میں شریک ہوتے تھے، اس سلسلے میں بہت سارے واقعات موجود ہیں، ان کے آپسی خط وکتابت کے مشتملات اس کے لئے دلیل فراہم کرتے ہیں، چنانچہ علامہ ابن بازؒ علامہ البانیؒ کوایک خط میں لکھتے ہیں:’’آپ کا چاہنے والا بقدروسعت وامکان آپ کی ہرمددوخدمت کے لئے تیار ہے اللہ تعالیٰ ہم کو اورآپ کو اللہ کے لئے آپس میں محبت کرنے والا بنائے، یہاں تک کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کاشرف حاصل کرلیں‘‘۔
چنانچہ جب علامہ البانی کو علامہ ابن باز کی موت کی خبرپہونچی تواپنے آپ پر قابونہ رکھ سکے اور روپڑے، آنکھیں گرم آنسوؤں سے اشکبار ہوگئیں اوربہت ہی درد انگیز اورپاکیزہ کلمات کہے، فرمایا:شیخ ابن بازرحمہ اللہ چنندہ علماء میں سے تھے، ہم اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے ہیں کہ ان کاٹھکانہ جنت بنائے، اگردنیا میں کسی کی زندگی طویل ہوتی توسب سے پہلے اللہ کے رسول ﷺ کی ہوتی، اللہ! ہم کوبھی ان کے اورصالحین کے ساتھ ملادے،چنانچہ ابھی چھ مہینے بھی نہ گزرے تھے کہ علامہ البانی بھی سفرآخرت کوروانہ ہوگئے، یہ بھی ان دونوں کی یکسانیت ،ہم آہنگی اوراشتراک تھا۔
اللہ تعالیٰ ان دونوں اماموں کوصالحین کے ساتھ ملادے۔(آمین)

No comments:

Post a Comment