Wednesday, June 2, 2010

زمین کے طبقات اورپٹرولیم کے متعلق قرآن مجید کی وضاحت March 2010

ڈاکٹر محمد وجاہت اللہ حیدرآبادیؔ
زمین کے طبقات اورپٹرولیم کے متعلق قرآن مجید کی وضاحت

(...لَہُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّریٰ)
اسی (اللہ ) کے لئے ہے جوکچھ آسمانوں میں ہے اورجوزمین میں ہے اورجوان دونوں کے درمیان ہے اورجو(تحت الثری) گیلی مٹی کے نیچے ہے۔(سورہ طہ:۶)
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی سائنسی انکشافات کئے ہیں جوآج کے سائنٹفک دورمیں واشگاف ہوئی ہیں حالانکہ قرآن کریم میں یہ حقیقت آج سے چودہ سوسال قبل کھول دی گئی جب کہ اس کرۂ ارض اورآسمان اورزمین کے اندرکیا کچھ پوشیدہ ہے کسی کوخبر نہیں تھی، اس سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ قرآن اسی خالق اکبر یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے نہ کہ کسی کے ذہن کی پیداوار یا کسی اورصحیفہ سے مستعارلیا گیا ہے جیساکہ مغربی مفکرین باورکرتے ہیں، آیت مذکورہ کوسمجھنے سے قبل یہ جان لیناضروری ہے کہ ماہرین طبقات الارض اسی کرۂ ارض کے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہیں، موجودہ نصاب میں پانچویں اورچھٹی جماعت کی نصاب میں بھی یہ بتلایا جاتاہے کہ کرۂ ارض تین مختلف طبقات پرمشتمل ہے جن میں سب سے اوپری طبق کو CRUSTکہاجاتا ہے اس کے نیچے دوسراطبق ہے جس کوMANTLEکہاجاتاہے اوراس کے نیچے تیسراطبق ہے جس کوCOREکہاجاتاہے، کورکومزید دوحصوں میں تقسیم کیاگیاہے یعنی OUTER COREاورINNER CORE،یہاں اس بات کی صراحت بھی ضروری ہے کہ ان طبقات کی ساخت کیا ہے، چنانچہ درسی کتب ہی اس کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پہلا طبق یعنیCRUST ایک چھلکے کی مانندہے اوریہ اپنی ساخت میں سخت یعنیSOLIDہے،اس کے نیچے جوطبق ہے یعنیMANTLEوہ سخت نہیں ہے بلکہMOLTENSTATEیعنی گیلا ہے یعنیLAVAکی شکل میں ہے اس کے نیچےCOREہے جواپنے اوپرکے دوطبقات کے وزن یابوجھ کی وجہ سےSOLID STATEمیں رہتا ہے اوراس میں زیادہ تر لوہا اور نکل(IRON&NICKLE)پایاجاتاہے۔
اس تناظرمیں اگرہم مذکورہ بالاآیت کاترجمہ اوراس کی تشریح کرناچاہیں توصاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے آج سے1400سال قبل ہی کرۂ ارض کے ان تین طبقات کوبیان کردیاہے، اس آیت میں(مافی الارض)سے مراد پہلاطبق یعنیCRUSTہے اور’’ثریٰ‘‘ سے مرادMOLTEN STATEجو MANTLEیعنی لاوایا گیلی مٹی ہے اور(وماتحت الثریٰ)اور جوگیلی مٹی کے نیچے ہے وہ کچھ اور نہیں بلکہCOREہے۔
اس آیت میں ایک اورسائنسی انکشاف ہے جس کاذکر مشہور زمانہ مصنف اورسائنٹسٹ MauridLBauclleنے اپنی تصنیفThe Bible The Quran And Science میں کیاہے، وہ یہ ہے کہ اس آیت میں(لہ مافی السموٰت ومافی الأرض)کے بعد’’ومابینھما‘‘ ان دونوں کے درمیان یعنی زمین وآسمانوں کے درمیان کا ذکر موجودہ دورکا سائنسی انکشاف ہے۔
(والذی أخرج المرعٰی فجعلہ غثآء احویٰ)اورجس نے(اللہ نے)چارہ نکالا ، پھراسے سیاہ کوڑاکرکٹ بنادیا‘‘۔(سورہ اعلیٰ:۵،۴)
مذکورہ آیات سورہ اعلیٰ کی ۴اور۵آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم دریافت کاانکشاف کیاہے جوآج کے سائنسی دورمیں ہوئی، ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرمارہاہے کہ’’اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے(زمین سے) چارہ نکالا اورپھر اس کوکچرا( سیاہ) کوڑاکرکٹ بنادیا۔
یہاں لفظ’’مرعیٰ‘‘کامطلب چارہ ہے جس سے مراد جھاڑ، پیڑ، پودے وغیرہ ہیں جو اسی زمین سے اُگتے ہیں، اس کے بعداللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اللہ نے ان جھاڑوں،پیڑپودوں کوکچرابنادیا جوسیاہ کوڑا کرکٹ کہلاتاہے، یہاں’’غثاء‘‘کامطلب کچراہے اور’’احوی‘‘ گہرے ہرے رنگ کوکہاجاتا ہے خصوصاً اس سبزی کو جوسڑکرگل جانے کے بعدگہرے ہرے رنگ یا سیاہی مائل یعنی کالی ہوجاتی ہے، غورطلب بات یہ ہے کہ قرآن جیسی پرعظمت کتاب میں اس بات کا ذکرکرنے سے اللہ کا کیا مطلب ومنشاہے کہ’’اس نے زمین سے چارہ نکالا اوراسے کوڑا کرکٹ بنادیا،یہ ایک عام مشاہدہ کی بات ہے جوعام آدمی بھی کہہ سکتاہے کہ زمین سے جوچارہ نکلتاہے وہ بالآخر سڑگل کر کچرابن جاتاہے لیکن قرآن میں اس کے ذکرسے کیامنشا ہے۔
دراصل اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی دورحاضر کے سائنسی دریافت اورانکشاف OILیاPETROLکی طرف اشارہ کیاہے، پٹرول کے متعلق سائنس کہتی ہے کہ یہ FOSSILISEDFUELہے۔
FOSSILکامطلب ’’کسی بھی جاندار مخلوق جھاڑ، پیڑپودے یا جانورکے باقیات جواس کے مرکرسڑجانے اورگلنے کے بعدباقی رہ جاتی ہے،چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ صحرائے عرب اوراس کے قرب وجوار کا علاقہ ایک طویل زمانہ قبل (لاکھوں بلکہ کروڑوں برس قبل) گھنے جنگلات یعنی جھاڑ، پیڑ،پودوں سے بھراہواتھا، پھرایک ایسا دور آیا جب زمین کے اندرونی طبقات یعنیTectonic Platesمیں ٹکراؤ کے باعث یہ علاقہ زمین میں دھنس گیا اوراطراف کاسمندر اس پرچھاگیا جس میں ہزاروں ٹن ریت تھی جس نے ان گھنے جنگلات کوڈھانک دیا اوراسی ریت کے نیچے یہ جنگلات سڑنے اورگلنے لگے اورمعلوم نہیں کتنے ہزاریاکروڑوں سال بعدان کی باقیات Fossilآج پٹرول کی شکل میں نمودار ہورہے ہیں، یہاں اس امر کاتذکرہ بیجانہ ہوگاکہ کرۂ ارض پراکثرصحراDesertایک زمانہ میں پانی یعنی سمندر سے ڈھکے ہوئے تھے جس کی تہہ میں ریت ہوتی ہے اوررفتہ رفتہ یہ سمندر کی تہہ زمین کے اندرونی حصوں میں تغیرکی وجہ سے اوپر ابھرنے لگتی ہے اورسمندر ہٹ کر صرف ریت یعنی صحراباقی رہ جاتاہے۔ (بشکریہ روزنامہ منصف حیدرآباد)

1 comment:

  1. براه كرم
    setting ko surust karen aur font saheh karen
    take

    ReplyDelete