Wednesday, June 16, 2010

عربی زبان وادب میں ڈاکٹرحافظ مقتدیٰ حسن ازہری کا مقام apr-jul 2010

مولانامطیع اللہ حقیق اللہ مدنیؔ
استاد مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنانگر
عربی زبان وادب میں
ڈاکٹرحافظ مقتدیٰ حسن ازہری کا مقام
ہندوستان میں جماعتِ اہل حدیث میں بڑے نامی گرامی اہل علم وفن گذرے ہیں اسلامی، شرعی علوم کے جملہ شعبوں میں ایسی باکمال ہستیاں موجود رہی ہیں،جنھوں نے علوم وفنون میں اپنی واضح خدمات اورانمٹ نقوش چھوڑرکھی ہیں۔
ملی اورجماعتی تاریخ میں ضلع اعظم گڈھ کی خاک سے اٹھنے والے ناموران علم وفن کاایک زریں سلسلہ اورعظیم نمایاں سنہری تاریخ سے جس پربجاطورپر نازواافتخار کیاجاسکتاہے۔
ضلع اعظم گڈھ کے مشہورقصبہ مؤناتھ بھنجن کی علمی وادبی خدمات بھی قابل صدافتخار ہیں،یہاں کے اساطین علم وفن مؤلفین ومصنفین اورباکمال ادباء وشعراء وغیرہم أکابررجال اپنے اپنے اختصاص میں ان کی روشن تاریخ ہے۔
اسی شہرعلم وادب مؤناتھ بھنجن کے اکابرعلم وادب میں بالخصوص عربی وادب میں عظیم الشان خدمات انجام دینے والی ایک عظیم ہستی،نابغہ روزگار شخصیت اورمختلف اوصاف حمیدہ سے متصف اور خدمات کثیرہ کی حامل ذات کا نام نامی ،اسم گرامی’’مقتدی حسن بن محمدیاسین بن محمدسعیدہے‘‘ جن کا تعلق اس شہرکے علمی طورپر سب سے زرخیز محلہ ڈومن پورہ سے تھا، ’’جناب مقتدی حسن کے نانا مولانا محمدنعمان صاحب اعظمی شیخ الحدیث مدرسہ دارالسلام عمرآباد مدراس شیخ الکل فی الکل کے تلمیذ تھے۔
ڈاکٹر حافظ مقتدی حسن صاحب ازہری نے انتہائی بھرپوراسلامی وادبی خدمات کی انجام دہی کرتے ہوئے ۳۰؍اکتوبر۲۰۰۹ء ؁ مطابق ۱۰؍ذی قعدہ ۱۴۳۰ھ ؁ کو انتقال کیا،رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃً۔
ان سطورمیں ان کی عربی وادبی خدمات پرروشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ڈاکٹرصاحب نے مؤکی علمی، ادبی، تہذیبی اورثقافتی فضامیں آنکھیں کھولیں، عربی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ عربیہ ڈومن پورہ میں حاصل کرنے کے بعدمدرسہ اسلامیہ فیض عام سے عالمیت کی سند حاصل کی، ۱۹۶۱ء ؁ میں مدرسہ اثریہ دارالحدیث سے سندفراغت حاصل کیا، اس شہرکے نابغہ روزگار، جامع المعقول والمنقول شخصیات کے سامنے زانوئے تلمذطے کیا، علم وفن میں نبوغ وکمال حاصل کرنے کے لئے عربی فارسی بورڈ اترپردیش کے مولوی، عالم اورفاضل کے امتحانات پاس کیا۔
عربی زبان وادب سے لگاؤ تھا،اس میں کامل دستگاہ کی خاطر اورعلمی تشنگی بجھانے کے لئے آپ نے عالم اسلام کی سب سے مؤقر درسگاہ جامع ازہر مصرکا رخ کیا وہاں آپ نے عربی زبان وادب میں ایم.اے. کیا ،چندسال تک وہاں قاہرہ ریڈیواسٹیشن سے منسلک رہ کر اردوشعبہ میں مترجم اوراناؤنسرکی حیثیت سے کام کیا۔
قاہرہ کے قیام میں آپ نے عربی زبان وادب کا گہرامطالعہ کیا،اورعربی تحریر اورانشاء پردازی کا ہنرسیکھا، عربی سے اردومیں ترجمہ کرنے کی مہارت حاصل کی، عربی ادب کی تاریخ اورمنظوم ومنشور ادب کاغائرانہ مطالعہ کیا،۱۹۶۸ء ؁ میں وطن کی طرف مراجعت فرمائی۔
دارالحدیث اثریہ سے فارغ التحصیل ہونے کے معاً بعد آپ نے مدرسہ فیض عام میں دوسال تک تدریس کا کام کیا۔
مصرسے واپسی کے بعد آپ کو جامعہ سلفیہ بنارس کے ذمہ داروں نے جامعہ میں تدریس کے لئے طلب کیا، آپ نے ۱۹۶۸ء ؁ سے تادم واپسیں ۲۰۰۹ء ؁ تک جامعہ سلفیہ بنارس سے منسلک رہ کر مختلف مناصب جلیلہ پرفائز ہوکر ہمہ جہت عظیم خدمات انجام دیں۔
جامعہ سلفیہ بنارس سے وابستہ ہوکر آپ نے تحصیل علم کا سفربھی جاری رکھا، ملک کی عظیم یونیورسٹی’’علیگڈھ مسلم یونیورسٹی ‘‘ سے ۱۹۷۲ء ؁ میں ایم.فل. اور ۱۹۷۵ء ؁ میں ڈاکٹریٹ(پی.ایچ.ڈی) کی ڈگری حاصل کیا،آپ کے مقالہ کا عنوان تھا’’تخریج أحادیث بہجۃ المجالس لابن عبدالبر(الجزء الثانی)
ڈاکٹر صاحب موصوف کی علمی ودعوتی، تصنیفی، تحقیقی، تدریسی ،تنظیمی،ملی اورجماعتی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، جامعہ سلفیہ بنارس کے اسٹیج سے آپ ان تمام خدمات کوبحسن وخوبی انجام دیا، اپنے وقت کی قدروقیمت کوپہچانا، اورانھیں عظیم النفع کاموں میں صرف کیا، نیز مطلوب جدوجہد ،انتہک کوشش اورجفاکشی سے کام لے کر متنوع اعمال کوپایۂ تکمیل تک پہونچاکرتاریخ میں اپنا نام روشن کیا۔
جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے مختلف شعبہائے علم وفن میں ان کی شاہکار تصنیفات وتالیفات ہیں:
صحافتی میدان میں بھی جماعت کی خدمات قابل قدر ہیں، تقسیم ملک سے پہلے جماعت کے مختلف جرائد ومجلات شائع ہواکرتے تھے،مگر میرے علم ومطالعہ کی حدتک تقسیم ملک کے بعدپورے ملک ہندوستان میں صرف دیوبند سے الداعی، اورندوۃ العلماء سے’’الضیاء‘‘، ’’البعث الإسلامیاور الرائد نامی عربی مجلات شائع ہوتے تھے جن کی عمریں بھی کچھ زیادہ طویل نہ تھیں۔
جامعہ سلفیہ بنارس کی تاسیس ۱۹۶۳ء ؁ میں عمل میں آئی تھی، تدریس کا آغاز ۱۹۶۶ء ؁ میں ہوا، اساطین علم وفن کو بقدراستطاعت برائے تعلیم وتربیت جامعہ کی علمی خدمات پر مامورکیاگیا تھا، ارباب جامعہ کے عزائم انتہائی بلند تھے، منصوبے بھی عظیم سے عظیم ترتھے،انھیں منصوبوں میں جامعہ کااردوآرگن اورعربی آرگن کی ماہانہ نشرواشاعت بھی تھی۔
اردو ماہنامہ کی اشاعت اوراس کی طباعت وتقسیم کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں دیرنہ لگی تھی۔ مگرعربی ماہنامہ کی اشاعت کسی عربی زبان کے ماہرعالم اورزبان وادب پرمتمکن ادیب وانشاء پرداز کی محتاج تھی۔ عربی ماہنامہ میگزین کی اشاعت کا دیرینہ خواب،شرمندہ تعبیرہونے کے لئے کسی بالغ نظرعربی صحافی، بہترین قادرفن مضمون نگار اوروسیع المطالعہ صاحب قرطاس وقلم کی منتظرتھی۔
۱۹۶۸ء ؁ میں جب ڈاکٹر صاحب جامعہ سلفیہ بنارس سے منسلک ہوئے توعربی مجلہ کی اشاعت کاخواب شرمندہ تعبیرہوا، اور’’صوت الجامعہ‘‘نامی مجلہ کی اشاعت عمل میں آئی، ڈاکٹرصاحب اس کے مدیر مقررہوئے اورآپ کی ادارت میں یہ مجلہ برابر شائع ہوتا رہا۔ صوت الجامعہ پھر مجلہ الجامعہ السلفیہ اورآخیرمیں اب تک صوت الامۃ کے نام سے شائع ہورہاہے ۔
تقریباً چالیس برس تک کسی عربی میگزین کی مسلسل اشاعت اس کے لئے اداریئے تحریر فرمانا۔ نیز دیگرمتعدد مقالات حوالہ قرطاس وقلم کرنا اور اس میں ملک وبیرون ملک کے متعددنامورعلماء ادباء اورمشاہیر قلم کے نگارشات کی پروف ریڈنگ ،تصحیح وترتیب وغیرہ ایک عظیم ادبی وثقافتی خدمت ہے جسے آپ نے بڑی دلجمعی اورلگن سے انجام دیاہے،صرف جامعہ کے اس ماہنامہ میں اشاعت پذیر ادارتی اوردیگر عربی مقالات کی تعداد ۳۵۸ہے:
آپ نے اپنے ان ادارتی مضامین اوردیگرمقالات میں عقیدہ، تاریخ، سیرت وسوانح، زبان وادب، حدیث وفقہ، دعوت وارشاد وغیرہ اورملک وملت اورجماعت نیز حالات حاضرہ کے سلگتے ہوئے اورانہتائی حساس اوراہم ترین مسائل وتاریخی حوادث پرروشنی ڈالنے اور ایک دیدہ ور،بالغ نظر،صحافی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
صرف یہ حجم ہی عربی زبان وادب کی خدمت کے لئے کافی ہے، اس طرح اس مجلہ کے ذریعہ آپ نے اپنی،جامعہ اورجماعت کی فکرسے عالم عرب کو روسناش کرانے کی بھی ایک کامیاب کوشش کی جس کی بوجوہ ضروت بھی تھی اوراس میں افادیت کے بے شمار پہلوبھی پوشیدہ تھے۔
یوں عربی زبان وادب میں اپنابھرپور کردارکرنے کے ساتھ آپ نے جامعہ وجماعت کا صحیح پیغام عالم اسلام خصوصاً عالم عرب تک پہونچانے کی ذمہ داری نبھائی، جس کا بجاطورپر اعتراف کیاگیا،سعودی عرب کی طرف سے آپ کو صوت الامۃ کی بہترین ادارت پر’’سند‘‘ عطاکی گئی تھی جوآپ کے بہترین اعلیٰ پایہ عربی صحافت ہونے کا اعتراف ہے۔
جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں خصوصاً آزادی کے بعداس جماعت کا یہ عربی مجلہ پہلا مجلہ تھا، آپ اس کے اول مدیرتھے،یوں آپ نے ایک طویل عرصہ تک عربی مجلہ کے مدیرکی حیثیت سے جماعتی تاریخ میں اپنانام درج کروانے میں کامیابی حاصل کی۔
یہ ایک حقیقت ہے جس کا اعتراف کرناچاہئے کہ ملک کے اندر جماعت میں ہمیشہ بالغ نظراہل علم رہے ہیں جو علوم اسلامیہ عربیہ میں یدطولی رکھتے تھے، قواعد وبلاغت اوردیگرخالص ادبی فن میں بھی نبوغ وکمال رکھتے تھے۔ اردوزبان وادب میں توان کا کوئی ثانی کم ہی نظرآتا ہے۔البتہ عربی زبان وادب میں نطق وتکلم اورتحریر وانشاء پردازی برجستہ طورپرمقالہ نگاری اورمضمون نویسی میں صحیح معنی میں کامل دستگاہ کے حامل اہل قلم کم تھے۔ عربی زبان کی ساری باریکیوں سے واقف ہونے کے باوصف نطق وتکلم کی مہارت نیز کتابت وتحریرکی مہارت میں ضعف کے شکارتھے’’الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفرد‘‘پرہفتوں درس دیتے ہوئے بال کی کھال نکالنے میں جواپناکوئی ثانی نہیں رکھتے تھے، ان میں سے کئی ایک چند صفحات کا مقالہ۔ کسی بھی دینی واسلامی موضوع پر بھی۔ برجستہ حوالہ قلم کرنے میں عجزوضعف کاشکارنظرآتے تھے۔
ایسے ماحول میں ڈاکٹرازہری صاحب کی عربی مقالات، صوت الامہ میں عربی اداریاجات ، المنارمیں عربی مضامین ،نیزادارہ ’’ادارہ البحوث الاسلامی والدعوۃ والافتاء‘‘بنارس کی جانب سے متعدد موضوعات سے متعلق شائع ہونے والی خود ان کی اوردیگر بہت سے اہل علم وفن، ارباب قلم علماء وادباء کی عربی کتابوں پراپنے گوہر بارقلم سے وقیع مقدمات تحریرفرمانا عربی زبان وادب کی وہ شاندار خدمت ہے جس کی نظیرماضی میں ملنی مشکل ہے۔
اگر ان داریوں کے تمام عناوین، صوت الامہ اوردیگر مجلات ورسائل اورجرائد میں شائع مطول ومختصر مقالات کے عناوین اورعربی کتابوں پر ان کے تحریر کردہ مقدمات وتقاریظ کے عناوین جمع کریئے جائیں توپھر آپ کی زبان عربی کی خدمت میں نمایاں کردار اداکرنے کی شہادت کے لئے کافی ہوگا اوربجاطور پرآپ کو عربی زبان کا ایک بہترین ادیب عظیم صحافی اوربلندپایہ انشاء پرداز قراردیا جاسکتاہے۔
عربی زبان وادب میں اپنی خدمات کو صرف صوت الامۃ کی ادارت اورمقالات نویسی اورمقدمہ نگاری تک محدود نہیں رکھابلکہ آپ عربی زبان میں مستقل طورپر کئی کتابیں تالیف وتصنیف کی ہیں،آپ کی عربی کتابوں کے نام یہ ہیں:
۱۔ منصورالفقیہ،حیاتہ وشعرہ۲۔ حقیقۃ الادب وظیفتہ۔۳۔مشکلہ المسجد الباری فی ضوء التأریخ والکتابات المعاصرۃ۔۴۔نظر إلی مواقف المسلمین من أحداث الخلیج۔۵۔القادیانیۃ۔۶۔ قراء ۃ فی کتاب’’الحالۃ الخلیفہ للعالم الإسلامی‘‘۔
ان کتابوں میں اکثرمطبوع ہیں بعض صوت الامۃ میں اولاً قسط واراشاعت پذیرہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض غیر مطبوع بھی ہیں ان کے عناوین سے موضوعات وافکارکے تنوع کا اندازہ کیاجاسکتا ہے جس سے آپ کے علم ومطالعہ کی وسعت وکثرت اورثقافت کے تنوع کاپتہ چلتاہے اورعربی زبان وادب میں تصنیف وتالیف کے میدان میں ایک کامیاب شہ سوار ہونے کے لئے شاہد عدل ہے ۔
*عربی زبان وادب کی خدمات کا ایک اہم شعبہ عربی تالیفات اورعربی مقالات ومضامین کا دنیا کی دوسری زندہ زبانوں میں اس کی ترجمانی ہے تاکہ عربی زبان سے ناواقف حضرات کوان افکار وخیالات سے آگاہ کیاجائے اورعربی زبان میں مدون دینی وثقافتی معلومات سے انھیں روشناس کیاجائے۔
اسی طرح خود عربی کے علاوہ دیگرزبانوں کی تصانیف کو عربی قالب میں ڈھال کر عربوں کوان معانی ومفاہیم سے آگاہی اوران سے استفادہ کاموقع ہپہونچایاجائے اوردیگر زبانوں میں تالیف اسلامی تعلیمات وافکارسے فائدہ اٹھانے کاموقع دیاجائے،اس مجال میں ڈاکٹرصاحب موصوف کی خدمات ازحد نمایاں اورغایت درجہ روشن ہیں۔
ڈاکٹرازہری صاحب اردو اورفارسی زبان وادب سے بخوبی آگاہ تھے۔ اوران زبانوں پرقدرت رکھنے کے ساتھ ان کا عربی ترجمہ کرنے پرکامل عبوررکھتے تھے۔ ترجمہ کے اسرارورموز سے آپ خوب آگاہ وآشناتھے۔ چنانچہ آپ نے متعدد قیمتی علمی،ادبی اوراسلامی کتابوں کاجواردو اورفارسی زبان میں لکھی گئی تھیں۔ بامحاورہ ،رواں عربی زبان میں ترجمہ کیا اورعربی دان حضرات کو ان سے بھرپور استفادہ کاموقع فراہم ہے اسی طرح اہم قیمتی عربی زبان میں لکھی گئی کتب کا اردومیں صاف اورشستہ ترجمہ کرکے اردو زبان جاننے والوں کو ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع عنایت کیا،یوں آپ نے عربی زبان وادب کی عظیم نمایاں اورقابل قدر خدمت انجام دی۔
ذیل میں اردواورفارسی سے عربی زبان میں مترجم کتابوں کی فہرست پیش کی جارہی ہے:
*اردوسے عربی تراجم:
۱۔ قضایا کفایۃ التأریخ الإسلامی وحلولھا:للدکتور لیسی مظہرالصدیقی
۲۔رحمۃ للعالمین:للعلامۃ القاضی محمدسلیمان السلمان المنصورفوری.
۳۔النظام الالٰہی للرقی والانحطاط :للعلامۃ محمداسماعیل غجرانوالہ.
۴۔حرکۃ الانطلاق الفکری وجھود الشاہ ولی اللہ فی التجدید.
۵۔مسالۃ حیاۃ النبیﷺ :للعلامۃ محمداسماعیل غجرانوالہ.
۶۔زیارۃ القبور :للعلامۃ محمداسماعیل غجرانوالہ.
۷۔حجیۃ الحدیث النبوی الشریف: :للعلامۃ محمداسماعیل غجرانوالہ.
۸۔النصرانیۃ الحاضرہ فی ضوء التأریخ والبحث العلمی:للعلامۃ مصلح الدین الأعظمی.
۹۔ عصرالالحاد خلیفتہ التأریخیۃ وبدایۃ نھایۃ:للشیخ محمدتقی الأمینی.
۱۰۔بین الانسان الطبیعی والإنسان الصناعی:للشیخ محمدتقی الأمینی.
۱۱۔الإسلام تشکیل جدید للحضارۃ:للشیخ محمدتقی الأمینی.
۱۲۔جماعۃ المجاہدین:للعلامۃ غلام رسول مہر۔
فارسی سے عربی تراجم:
(۱)قرۃ العینین فی تفصیل الشیخین :للشاہ ولی اللہ الدھلوی.
(۲)الاکسیر فی أصول التفسیر:للنواب محمدصدیق حسن البوفالی.
عربی سے اردوتراجم:
۱۔راہ حق کے تقاضے:ترجمہمختصر اقتضاء الصراط المستقیم،للشیخ الإسلام ابن تیمیۃ.
۲۔مختصرزاد المعاد:ترجمہمختصر زادالمعاد لابن قیم الجوزیۃ،للشیخ محمد بن عبدالوہاب.
۳۔اصلاح المساجد:ترجمہ اصلاح المساجد من البدع والعوائدللشیخ محمدجمال الدین القاسمی.
۴۔عظمتِ رفتہ:ترجمہ:سقوط ثلاثین دولۃ ،للشیخ عبدالحلیم عویس.
۵۔رسالت کے سایے میں:ترجمہ:فی ظلال الرسول ﷺ،للشیخ عبدالحلیم عویس.
۶۔خادم الحرمین الشریفین کا حقیقت افروز بیان:ترجمہ:کلمات منتقاۃ من خادم الحرمین الشریفین.
۷۔اسلامی شریعت میں اعضاء کی پیوندکاری:ترجمہمقالات المشائخ العرب .
۸۔آپ بیتی:ترجمہ أنا للعباس محمود العقاد.
اردو فارسی سے عربی اورعربی سے اردوترجمانی بہرحال عربی زبان وادب کی ایک یہ لازوال خدمت ہے۔ اس مذکورہ فہرست سے آپ کی اس عظیم کدوکاوش کا اندازہ لگانابالکل دشوار نہیں ہے جوآپ نے لسانِ عربی مبین کی خدمت میں صرف کیا۔
ان مذکورہ بالاخدمات کے علاوہ دراصل عربی ادب اوراسلامی علوم کی خدمات کا ہی عظیم ترین حصہ آپ کی وہ کتابیں بھی ہیں جوآپ نے مستقلا تالیف فرمائیں ہیں،اس لئے کہ آپ کی ان تالیفات ان کتابوں میں آپ کی وہ شاہکار تصنیف ہے جس کانام ہی ’’تاریخ الادب العربی‘‘ ہے یہ تصنیف پانچ جلدوں پرمشتمل ہے جس میں ادب عربی کی جاہلی، اسلامی اموی عباسی دورکی پوری تاریخ اورعربی زبان کے معروف ادباء ارباب نثراوراصحابِ الدواوین نظماء وشعراء کی تاریخ کو قلمبند کیاگیاہے۔
اس عظیم تالیف کے علاوہ آپ کی تصانیف کے اسماء درج ذیل ہیں:
*خاتون اسلام،مسلم نوجوان اوراسلامی تربیت۔*عصری حاضرمیں مسلمانوں کو سائنس اورٹکنالوجی کی ضرورت۔*قرآن کریم پرغور وتدبر مذہبی فریضہ ہے۔*رمضان اور عیدالفطر تربیتی نقطۂ نظرسے۔*ہم کیاپڑھیں؟:*مسلمان اوراسلامی ثقافت۔*شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود اورمملکت سعودی عرب۔*ہندوستان میں تحریک اہل حدیث اورجدیدتقاضے۔
ان کتب ومقالات ،ومقدمات وتراجم کے علاوہ بھی متعدد جرائد ومجلات ورسائل میں آپ کے تقریباً ۲۶ مقالات شائع ہوئے۔
ملک وبیرون ملک مؤقر کا نفرنسوں اورسمیناروں میں آپ نے چالیس مقالات پیش کئے ان میں سے کئی اہم مقالے عربی زبان میں ہی قلمبند کئے گئے تھے۔
آپ مختلف اوقات وایام میں اہم اعزازات سے نوازے اورجلیل القدر مناصب پر مامورکئے گئے، مختلف دینی اسلامی علم ادبی اورثقافتی اداروں اورتنظیموں کے رکن رکین بھی رہے ان میں بعض کاذکرکیاجارہاہے:
رکن: مسلم یونیورسٹی علیگڈھ۔ رکن: عالمی رابطہ ادب اسلامی۔
رکن:جمعیۃ المثقفین للتوعیۃ الاسلامیہ۔ رکن:دینی تعلیمی کونسل اترپردیش:
رکن: تعلیمی کمیٹی جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں۔
عربی زبان وادب کی نمایاں اورقابل صدافتخار خدمات کی انجام دہی پرآپ کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طورپر ۱۹۹۳ء ؁ میں حکومت ہند نے’’ صدرجمہوریہ ہندایوارڈ‘‘ عطاکیاتھا۔
خلاصہ القول یہ ہے کہ ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری کی عربی زبان وادب کی خدمت میں غایت درجہ قابل قدرحصہ ہے’’این کا راز توآید ومردان چنیں کنند۔
ڈاکٹر صاحب کی عربی زبان وادب کی خدمت کا اہم حصہ یہ بھی ہے کہ آپ کے زیرتربیت آپ کے متعدد تلامذہ نے عربی مضمون نگاری اورعربی صحافت کا ہنرسیکھا اورآپ کی رہنمائی میں اس فن میں کمال پیداکیا آپ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں ہے جن میں سیکڑوں انتہائی ہونہار ہیں،جوآج مختلف علوم وفنون میں یدطولی رکھنے کے ساتھ عربی زبان وادب کی ہمہ گیر خدمت میں مصروف کارہیں۔
دعا گوں ہوں کہ مولائے کریم توحافظ مقتدی حسن ازہری کی خدمات کو قبول فرماکر ان کی مغفرت فرما اورانھیں جنت الفردوس میں جگہ عطافرما۔(آمین)

No comments:

Post a Comment