Tuesday, June 15, 2010

ا صلاح ا لمساجد من ا لبدع و ا لعوا ئد apr-jul 2010

مولاناوصی اللہ مدنی
استاد کلیہ عائشہ صدیقہ،جھنڈانگر

ا صلاح ا لمساجد من ا لبدع و ا لعوا ئد                    
ایک مختصر تعارف
استاد محترم علامہ ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ ایک بالغ نظر مفکر ومدبر اورعظیم مصنف تھے،تادم واپسیں اسلاف کرام کی گراں قدرکتابوں کی خوشہ چینی اوران کی علمی ودعوتی اور مفید کتابوں کی ترتیب وتدوین ،تہذیب وتلخیص ،نیزعربی زبان کی بعض کتابوں کو اردو زبان میں اوراردو و فارسی کی اہم کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کرنا آپ کی حیات مستعار کا محبوب مشغلہ اوراولین فریضہ تھا۔
کئی عربی کتابوں کو آپ نے اردو جامہ پہنایا ہے جو زیورطباعت سے آراستہ ہوکر منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوچکی ہیں اورعوام وخواص سے دادتحسین حاصل کرچکی ہیں، انہی کتابوں میں ایک اصلاحی وعلمی کتاب ’’اصلاح المساجد من البدع والعوائد‘‘ ہے جس کا پہلا اردو ترجمہ آپ کے گہربار قلم کا مرہون منت ہے۔
استاد محترم رحمہ اللہ نے عالم اسلام کی مقتدر ومعتبراورجامع اوصاف وکمالات کے حامل مصنفین کرام کے علمی، تحقیقی، اصلاحی اورنفیس کتابوں ہی کا ترجمہ کیاہے جوآپ کے عمدہ حسن انتخاب، وسعت مطالعہ اوردروس نتائج پرگہری نظررکھنے کی روشن دلیل ہے۔
زیرنظر کتاب’’اصلاح المساجد‘‘ عربی کا پہلا ایڈیشن علامہ محب الدین خطیب رحمہ اللہ کے وقیع مقدمہ کے ساتھ غالباًاول رمضان ۱۳۴۱ھ ؁ میں شائع ہواہے، دوسرا ایڈیشن فضیلۃ الشیخ ؍زہیر الشاویش نے اپنے تجارتی مطبع ’’المکتب الاسلامی،بیروت‘‘سے ۵؍۲؍۱۳۹۰ھ میں شائع کیاہے، البتہ اس ایڈیشن میں محدث عصرعلامہ محمدناصرالدین البانی کے قلم سے حدیثوں کی تخریج اوربعض مشکل مقامات پرحاشیہ کا اضافہ ہے اورکہیں کہیں مصنف کتاب کے تسامحات وعلمی فروگذاشتوں پر عالمانہ نقدوجرح شامل کتاب ہے، اس طرح یہ دوسرا یڈیشن پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ممتاز اوراصح ہے۔
علامہ ازہری رحمہ اللہ نے اسی ایڈیشن کا من وعن اردوترجمہ کیاہے اوریہ اردوترجمہ کاپہلا ایڈیشن ہے، جسے یکم جنوری ۱۹۸۰ء ؁ میں جماعت کے نامور خطیب اورمعروف عالم دین مولانا مختاراحمد ندوی رحمہ اللہ نے عروس البلاد ممبئی میں واقع اپنے تجارتی مکتبہ’’الدارالسلفیہ‘‘ محمدعلی بلڈنگ، بھنڈی بازارسے شائع کرنے کا شرف حاصل کیاہے،اس کتاب کا یہ اردوترجمہ کل ۳۱۹صفحات پرمشتمل ہے،ابتداء کے تقریباً ۷۴ صفحات پرمختلف ومتنوع قیمتی معلومات جیسے شیخ مختاراحمد ندوی رحمہ اللہ کا’’عرض ناشر‘‘ فہرست مضامین، مؤلف کتاب کا مختصرسوانحی خاکہ‘‘،’’شیخ زہیر الشاویش کامقدمۂ ناشر‘‘ دیباچہ طبع اول بقلم علامہ محب الدین خطیب‘‘ کتاب ہذا کی تالیف اوراس کے مؤلف محترم کا مبسوط ومفصل علمی مقدمہ کے ذکر وبیان پر محیط ہے، صفحہ۷۵ سے اصل کتاب کا آغازہوتا ہے، پھرموضوع سے متعلق سارے مباحث و مسائل کومؤلف مثبت انداز میں بیان کرتے ہیں، زیر تبصرہ کتاب کتنی اہمیت کی حامل ہے؟ اس کا صحیح اندازہ اس کے مشتملات وبیانات اوراندرون صفحات بیان کئے گئے بیش قیمت علمی مواد کا بغور وبنظر انصاف مطالعہ کرنے کے بعدہی کیا جاسکتاہے۔
مجھ جیسے بے بضاعت وکم علم انسان کے بس کی با ت نہیں ہے کہ میں علامۂ شام مصلح وقت شیخ محمد جمال الدین قاسمی کی اس تصنیف انیق کے اسلوب وبیان کی سلاست وروانی یادیگر خوبیوں کوبیان کرنے کے لئے میں اپنے قلم کو مہمیز لگاؤں یا تعارفی کلمات نذرقرطاس کروں تاہم پورے اعتماد ووثوق اورایقان کے ساتھ یہ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ یہ اپنے موضوع پرایک انوکھی کتاب ہے جود دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اس کی قدرومنزلت ،افادیت واہمیت اس لحاظ سے اوربڑھ گئی ہے کہ اس کے مصنف، مصحح، مخرج ومعلق اورمترجم تینوں علمی واسلامی شخصیتیں اپنے اپنے دورکے ماہرین علوم و فنون،نابغۂ روزگار،اپنے اپنے میدان کے کہنہ مشق شہسوار اور مصلح ملت تھے۔
استاد محترم کی ہمہ جہت علمی خدمات میں سے ایک اہم وقابل رشک خدمت ’’اردوترجمانی‘‘ ہے آج مجھے آپ کے اسی پہلو کواجاگر کرکے انھیں خراج تحسین پیش کرناہے، ازراہ تذکیر عرض ہے کہ میں اپنے مشفق استاد کے طرزترجمانی اورعالمانہ اسلوب وبیان کو اخیر میں زیب قرطاس کرکے اپنے قارئین ومحبان ازہری رحمہ اللہ کوآگاہ کروں گا تاکہ کتابی تسلسل برقراررکھے۔
زیرتبصرہ کتاب کے مصنف ومولف ملک شام کے مشہور سلفی عالم ،نابغہ روزگار علامہ محمد جمال الدین قاسمی ہیں جنھوں نے اسلامی علوم کے مجدد، مصلح امت، شیخ الاسلام ابوالعباس احمدبن عبدالحلیم المعروف بابن تیمیہ جیسی عبقری شخصیت سے کسب علم وفیض کیاہے، مؤلف کتاب کے جدامجد شیخ محمدقاسم بن صالح شام کے امام اورمشہور فقیہ تھے، انہی کی طرف منسوب کرکے مؤلف’’القاسمی‘‘ کہلائے۔
اس کتاب کاموضوع نام ہی سے آشکارا ہے کہ موجودہ دورمیں مساجد میں ہونے والی قدیم وجدید بدعات ومحدثات اورخرافات کوجڑسے اکھاڑ پھینکنے کی دردمندانہ گذارش اوربدعی عقائد واعمال کی اصلاح ہے۔
یہ کتاب کیوں لکھی گئی؟ اس کے اسباب وعوامل کی معرفت کے لئے مصنف کتاب کی تحریر کردہ مختصر سبب تالیف پڑھیں، اس کتاب کے مصنف علامہ قاسمی دمشق کی بعض مسجدوں میں فریضۂ امامت وتدریس انجام دیتے ہوئے بدعات کوپھیلتے ہوئے دیکھ کر کہتے ہیں’’اس طرح مجھے یہ احساس ہواکہ مساجد میں جوبدعات ورسوم پھیل گئی ہیں، ان کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ زندگی کے ہر شعبہ میں نگراں کا فرض ہے کہ وہ اپنے رفقاء ومتعلقین کو صحیح راہ سے آگاہ کرے جیساکہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ’’کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعتیہ‘‘ (متفق علیہ) اسی بنیاد پر میں نے نصرت الٰہی کے بھروسے اس کام کوشروع کیا......‘‘۔
کتاب کی ترتیب وتبویب میں علامہ قاسمی کی عرق ریزی ودیدہ وری طالبان علوم نبوت کے لئے قابل رشک ہے،تفسیر،حدیث ،فقہ اوراصول فقہ وغیرہ پر مشتمل متقدمین علماء کی تقریباً ایک سوبارہ کتابوں کی ورق گردانی کرکے آپ نے اپنی اس تصنیف لطیف کو مرتب کیاہے ،مصنف رحمہ اللہ نے اس بات کی بھرپور کوشش کی ہے کہ مساجد سے متعلق چھوٹی بڑی تمام بدعات ورسومات ،متولیان وائمہ کی پیداکردہ برائیوں کاذکر اس کتاب میں آجائے،انھوں نے اس کتاب کی ترتیب میں جوشروط وضع کئے ہیں میری نگاہ میں وہ اپنے اس مقصدکی تکمیل میں بہت ہی قریب ترہیں،بقول مؤلف اس کتاب کی تسوید سے ۲۴رمضان ۱۳۲۳ھ ؁ کو دمشق میں اپنے گھرپر فراغت ہوئی،پھرمؤلف نے مذکورہ تاریخ کے بعدکتاب میں بہت سے اضافے کئے چنانچہ کہتے ہیں: ’’بحمداللہ تعالیٰ میں نے مسودہ اوراضافہ کامقابلہ متعددمجلسوں میں کیا،آخری مجلس کی تاریخ عیدالاضحٰی ۱۴۳۱ھ ؁ کا چوتھا دن ہے‘‘۔
علامہ قاسمی کاطریقۂ تصنیف:
اس کتاب کی تصنیف میں مصنف نے جومنہج وطریقہ اختیارکیا ہے صراحۃ اس کاذکر انھوں نے کیاہے البتہ میں نے حرف بحرف پڑھ کر ان کے طریقہ تصنیف کو اخذکیاہے جودرج ذیل ہے۔
*یہ کتاب ایک علمی ووقیع مقدمہ، سات ابواب اورہرباب کے تحت چند فصول اورایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔
*قرآنی آیات کریمہ کی تخریج۔
*احادیث نبویہ وآثارسلفیہ کی مختصر عزو کے ساتھ ائمہ اربعہ اوردیگرفقہاء کے ذکرکردہ اقوال وآراء کی نسبت کا اہتمام۔
* بالاختصار احادیث کی صحت وعدم صحت کی وضاحت کا التزام۔
*اگرکوئی حدیث موضوع ہے تواس کی صراحت۔
* لفاظی وچرب زبانی اورغیر ضروری باتوں سے بالکلیہ احتراز کرتے ہوئے بکثرت کبار ائمہ کرام مثل شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،امام ابن قیم ،علامہ ابوشامہ، امام ابن الجوزی،علامہ عزبن عبدالسلام، امام نووی، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام غزالی،علامہ بدرالدین عینی رحمہم اللہ وغیرہم کی کتابوں کے نصوص کے ذکرکا خصوصی اہتمام۔
* ائمہ محدثین کے فتاویٰ کی روشنی میں بدعات کی تردید کرتے ہوئے اسلام کے صحیح موقف کا اثبات وبیان۔
* مساجد میں ہونے والی تمام بدعات ومحدثات کا مدلل پوسٹ مارٹم نصوص کتاب وسنت اورعلماء جہابذہ کے اقوال کے تناظرمیں ۔
*بعض مسائل میں اختصار کالحاظ کرتے ہوئے ان کتابوں کی جانب احالہ کیاہے، جس میں مفصل طورپر بحث کی گئی ہے جیسے امام ابن قیم کی مشہورکتاب ’’اغاثۃ اللہفان فی مصاید الشیطان‘‘ اور علامہ ابوشامہ کی’’ الباعث علی انکار البدع والحوادث‘‘ وغیرہ۔
*عرب کے مشہور شعراء حافظ ابراہیم،ملک امجد اورشیخ عبدالغنی نابلسی کے اشعارکے ذریعہ فقراء ومساکین کی امداد ومعاونت پرمتمول وصاحب ثروت حضرات کوابھارا گیا ہے۔
*برادران احناف کے بعض کاموں کی تردید خودانہی کے معتبروجید علماء کے اقوال سے کی ہے۔
*امام ومتبوعین کے اقوال وافعال کا ناقدانہ مقارنہ ا ورتقابلی جائزہ۔
* اپنے شیخ محترم امام ابن تیمیہ کے بعض فرمودات وفتاویٰ کومودبانہ اندازمیں نذرقرطاس کیاہے مثلاً ہمارے شیخ ابن تیمیہ کا یہ قول ہے۔
*مصنف نے اپنے سیروسیاحت کے دوران جہاں اورجن مساجد میں خلاف شرع باتیں بچشم دید خوددیکھی ہیں انھیں بھی قلمبند کیاہے۔
مخرِّج ومعلِّق: علامہ محمدناصرالدین البانی
اس کتاب میں وارد آحادیث نبویہ وآثارسلفیہ اورمشہور مسالک ومذاہب کے فقہاء کے اقوال کی تخریج تاجدار اقلیم حدیث محدث زماں علامہ محمدناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے کی ہے، جس سے اس کتاب کی افادیت و اہمیت دوچندہوگئی ہے، حق گوئی وبے باکی آپ کی خاص پہچان تھی، آپ کبھی بھی کسی عالم کے منصب اور ڈگری سے مرعوب نہیں ہوئے، دلائل کی روشنی میں آپ نے جس چیز کو حق اورسچ سمجھا اسی پر عمل پیرارہے،اور اپنے مخالفین کی ذرابھی پروانہ کی، اس کتاب کی تخریج وتعلیق میں بھی آپ کی اس خوبی کی جھلک نظر آرہی ہے، تخریج حدیث کے ساتھ جگہ جگہ مفید تعلیق، مذہب ظاہر یہ اوردیگر فقہاء کے آراء کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کئی مقامات پر مؤلف کتاب علامہ قاسمی کے بعض موقف پرشدید تنقید کی ہے اور اس باب میں سلف صالحین کے مسلک ومنہج کو اجاگر کیا ہے۔
شیخ البانی کی تحقیق کے مطابق اس کتاب میں تقریباً چالیس حدیثیں ایسی ہیں جس کی اسناد ضعیف اورمتن ناقابل عمل واستدلال ہیں اس اجمال کی تفصیل یوں ہے:
جوحدیثیں’’ لااصل لہ‘‘ہیں ان کی کل تعداد ۴،موضوع ۲،ضعیف ۱۳، ضعیف جدا۳،مرسل۲، غریب۳،منکر ،معلول اوراسنادہ ضعیف ۷ہے۔
اس کتاب پرتعلیق اوراحادیث کی مختصر تخریج سے شیخ البانی رحمہ اللہ ۲۳؍ربیع الاول ۱۳۸۲ھ ؁ کو مکتبہ ظاہریہ دمشق میں فارغ ہوئے۔
علامہ البانی کا طریقۂ تخریج:۔
اس کتاب میں ذکرکردہ احادیث کی تخریج میں شیخ البانی نے جوطریقہ اورمنہج اختیارکیا ہے وہ درج ذیل ہے:
*غیرصحیحین روایتوں کی مختصر تخریج اورحکم کا التزام۔
*ہرحدیث کی سند ومتن پر حکم لگانے کے بعد تفصیلی معرفت کے لئے اپنی محقق ومخرج کتابوں کی طرف احالہ۔ رواۃ حدیث پرجرح ونقد اورائمہ جرح وتعدیل کے سہوونسیان پرتنبیہ۔
*احادیث میں تحریف کلمات کی تصحیح وتصویب۔
* کہیں کہیں علامہ قاسمی کی تخریج حدیث اور بیان الفاظ کی عدم رعایت پرتنبیہ ۔
*فقہی مسائل میں بعض فقہاء کی موشگافیوں اورائمہ کی طرف بعض منسوب اقوال کی علمی تردید۔
*امام غزالی کے بعض فتاویٰ پرتنقید۔
* مصنف کتاب نے جن اقتباس کو مبہم رکھا یا قائل کا نام ذکرنہیں کیاہے، آپ نے اس کی صراحت کی ہے۔
* ہمہ دانی کے دعوی کی بجائے تواضع، اپنی کم علمی یا عدم معرفت کا برملا اقرار بایں الفاظ کرتے ہیں :’’ مجھے اس کا علم نہیں ہوپایا ہے یا یہ حدیث یا یہ مسئلہ مجھے ائمہ کی کتابوں میں نہیں ملا‘‘۔
*جن حدیثوں کی معرفت نہ ہوسکی اس کی بابت بڑی صراحت سے ’’لم اجدہ‘‘ لکھنا۔
*مصنف کتاب کے کٹرسلفیت کے اعتراف کے ساتھ ان کے بعض ذاتی آراء وافکار کی تردید اورعدم موافقت کااظہار۔
*مؤلف کی بعض خامیوں وکوتاہیوں پرمعقول عذرکی تلاش اور حسن ظن کا اظہار۔
مترجم :علا مہ ڈاکٹرحا فظ مقتدیٰ حسن ازہری
عربی،اردو یا اس روئے زمین پرہربولی اورسمجھی جانے والی زبانوں پرمشتمل لٹریچر، کتب اورمقالوں کی ترجمانی کرنا، خوش اسلوبی کے ساتھ اس کے مافی الضمیر کواداکرنا اور اصل کتاب کی عبارتوں کے کتربیوت کے بغیر اس کی پرسوز آواز کو دوسرے لوگوں کے سینے میں منتقل کرنا ایک مشکل ترین فن ہے،اس میدان میں وہی شخص کامیابی سے ہمکنار ہوسکتاہے جس پراللہ کا خاص فضل اورانعام ہو،عبارت فہمی، زبان دانی اورعمدہ تعبیر پر قدرت رکھتا ہو، علامہ قاسمی کی عربی تصنیف ’’اصلاح المساجد من البدع والعوائد‘‘ کااردوترجمہ استاد جلیل علامہ ازہری نے کیا ہے، آپ نے اس کتاب کا ترجمہ کرتے وقت عربی واردوتراجم کے علمی اصول وآداب کا بایں طور ملحوظ رکھاہے کہ کتاب کی روح باقی رہے اور اس کے زبان وبیان کا جوعلمی معیار ہے وہ بھی بعینہٖ برقراررہے مجھ جیسے طالب علم اورہیچمداں شخص کویہ قطعا زیب نہیں دیتا ہے کہ میں استاد محترم کے اردوترجمانی کے اسلوب ومعیارپر کوئی تبصرہ کروں بس میں اپنے لئے اتناہی کہناکافی سمجھتا ہوں اورمیرے خیال میں یہی سچ اورحقیقت بھی ہے کہ آپ نے اس کا ترجمہ ایسے دلنشیں انداز میں کیا ہے کہ باذوق قارئین باتمکین ومستفیدین حضرات ہرہرورق پڑھتے جائیں گے انھیں اکتاہٹ نہیں ہوگی اورنہ ہی ترجمہ کا احساس ہوگابلکہ ایسے لگے گاکہ یہ ان کی مستقل تصنیف ہے۔
عربی ایڈیشن میں علامہ قاسمی کی سوانح حیات شامل کتاب نہ تھی محترم مترجم رحمہ اللہ نے اردوداں طبقہ کوآپ کے حالات زندگی سے آگاہ کرنے کے لئے بالاختصار آپ کی حیات وخدمات کا اضافہ کیاہے جو آپ کی اصول حدیث کی معرکۃ الآراء کتاب’’قواعد التحدیث‘‘ سے ماخوذ ہے ۔
آپ باعتراف اہل علم ادیب اورقلم کے دھنی تھے لیکن ایسے پرتکلف جملے اورمسجع ومقفع عبارتوں کے استعمال سے گریز کرتے تھے جوسامعین وقارئین پرشاق گزریں اوران کی سمجھ سے بالاترہوں، چنانچہ آپ نے اس کتاب کے ترجمہ میں نہایت ہی فصیح وسلیس، عام فہم اورآسان زبان استعمال کی ہے، تاکہ یہ کتاب جس مقصد کو بروئے کارلانے کے لئے منصہ شہود پرجلوہ گر ہوئی ہے وہ حاصل ہوجائے اورجس پاکیزہ نیت سے اس اہم علمی ودعوتی کتاب کو اردوقالب میں ڈھالاگیا ہے اس کی افادیت عام ہو اوربکثرت استفادہ کی جاسکے اورمصنف کوتاقیامت اس کا ثمرہ بھی ملتا رہے۔
یہ کتاب اپنے موضوع پرکامل وشامل ہے نیز مسجدوں اور متولیوں کے ہاتھوں نت نئے پیداہونے اورپنپنے والے بدعات ومحدثات کی نشاندہی اورعالمانہ اسلوب وانداز میں تردید کرنے میں اپنی مثال آپ ہے،طالبان علوم نبوت وشیدائیان کتاب وسنت اورمتلاشیانِ حق کو ایک باراس کتاب کا مطالعہ ضرور کرناچاہئے۔
***

No comments:

Post a Comment